جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) کے توسط سے ہائی کورٹ میں داخل اپیل سماعت کے لیئے منظور
لکھنؤ22/ اکتوبر
دو ماہ قبل لکھنؤ کی خصوصی سیشن عدالت نے مبینہ جبراً مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں مشہور عالم دین مولانا کلیم صدیقی سمیت 16/ ملزمین کو قصور وار ٹہرایا تھا۔ نچلی عدالت نے 12/ ملزمین کو عمر قید اور 4/ ملزمین کو دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔ نچلی عدالت فیصلے کو یکے بعد دیگر ملزمین ہائیکورٹ میں چیلنج کررہے ہیں، سب سے پہلے ملزم عرفان شیخ نے سیشن عدالت کے فیصلے کو لکھنؤ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس پر عدالت نے نچلی عدالت سے ریکارڈ طلب کرنے کے ساتھ ساتھ استغاثہ کو جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا، عرفان شیخ کے بعد دیگر ملزمین نے بھی اپیلیں داخل کیں جسے عدالت نے سماعت کے لیئے منظور کرلیا تھا۔ آج عدالت نے عرض گذار مفتی قاضی جہانگیر کی ضمانت عرضداشت پر بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے استغاثہ کو چار ہفتوں کے اندر جواب داخل کرنے کا حکم دیا۔
اس مقدمہ کے اہم ملزم مفتی قاضی جہانگیر نے جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے توسط سے ہائیکورٹ میں اپیل داخل کی جس پرآج سماعت عمل میں آئی جس کے دوران لکھنؤ ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس سنگیتا چندرا اور جسٹس فیض عالم خان نے سماعت کی اور اپیل کو سماعت کے لیئے قبول کرتے ہوئے دیگر اپیلوں کے ساتھ منسلک کردیا۔عرض گذار مفتی قاضی جہانگیر کی پیروی سینئر ایڈوکیٹ اوپی تیواری اور ایڈوکیٹ فرقان نے کی۔
دوران سماعت دو رکنی بینچ کے جسٹس سنگیتا چندرا اور جسٹس فیض عالم خان کو وکلاء نے بتایاکہ نچلی عدالت نے عرض گذار کو ناکافی ثبوت وشواہد موجود ہونے کے باوجود عمر قید کی سزا سنائی ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ایڈوکیٹ اوپی تیواری نے عدالت کو مزید بتایا کہ جن دفعات کے تحت نچلی عدالت نے عرض گذار اور دیگر ملزمین کو عمر قیدکی سزا سنائی ہے اس کااطلاق ہوتا ہی نہیں۔ایڈوکیٹ او پی تیواری نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس مقدمہ کی بنیاد ہی غیر آئینی ہے لہذا ملزمین کو سزا دینے والے نچلی عدالت کے فیصلے کو مسترد کردینا چاہئے۔
وکلائی نے عدالت کو مزید بتایا کہ اسلام قبول کرنے والے افراد نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا، قاضی جہانگیر نے ان کے دستاویزات ان کی مرضی سے ہی بنوائے تھے، دستاویزات تیار کرنے کے لیئے ان پر دباؤ نہیں بنایا گیا تھا اور نا ہی انہیں کسی چیز کا لالچ دیا گیا تھا اس کے باوجود چند گواہان کی کمزور گواہی کی بنیادپر ملزم کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔عرض گذار کی جانب سے شادی کا کوئی بھی جعلی سرٹیفیکٹ جاری نہیں کیا گیا۔
وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ گواہ استغاثہ لکشمی گپتا اور ادتیہ گپتا نے 2020 میں اسلام قبول کیا تھا جبکہ اتر پردیش پروہیبشن آف ین لاء فل کنورژن آف ریلیجن قانون 2021 میں بنا تھا لہذا اس قانون کا اطلاق اس مقدمہ پر ہوتا ہی نہیں نیز اس قانون کے مطابق متاثر یا اس کے رشتہ دار ایف آئی آر درج کراسکتے ہیں لیکن موجودہ مقدمہ میں ونود کمار (اے ٹی ایس افسر) نے شکایت درج کرائی ہے جس کی بنیاد پر ملزمین کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا جو غیر قانونی ہے اس کے باوجود نچلی عدالت نے ملزمین کو قصور وار ٹہرایا ہے۔