سورۃ النساء: ایک مختصر تعارف

فہرست کے مطابق سورۃ النساء مدنی سورتوں میں شامل ہے ، اس میں ١٧٤ آیات اور چوبیس رکوع ہیں۔ ”النساء“ اس کا نام اس لئے ہے کہ اس میں عورتوں سے متعلق بہت سے اہم مسائل بیان فرمائے گئے ہیں۔ علماء تفسیر لکھتے ہیں کہ یہ سورت انتہائی اہم اور بڑی ہی دوررس اصلاحات پر مشتمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دین اسلام کا عطر ہے جس کی مہک صراط مستقیم کی راہ اختیار کرنے والے محسوس کرسکتے ہیں۔ سورہ مبارک کا آغاز اس طرح ہوا…
’’اے لوگو اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور (ابتداً) اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلادیں ، اور ڈرتے رہو اللہ سے جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو ، اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔
مذکورہ آیت کریمہ (جس کی ترجما نی پیش کی گی) یہ دراصل پوری سورت کی تمہید ہے جس میں بکثرت احکام نازل فرمائے گئے ہیں۔ ایک طرف تو پروردگار عالم کے حقوق سامنے رکھ دیئے گئے اور بتایا گیا کہ اس کی نافرمانی اور مخالفت نہ کی جائے اور دوسری جانب سارے انسانوں کو ان کی یہ حقیقت بتادی گئی کہ تم سب ایک باپ کی اولاد ہو ، لہٰذا تمہارے درمیان زندگی کے تمام معاملات و ، حقوق کی ادائیگی میں ، اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے عین مطابق عمل کیا جائے۔ تفسیر ضیاء القرآن میں ، زمانہ نزول سے متعلق یہ لکھا گیا ہے کہ ،علماء محققین کی رائے میں اس سورۃ کے نزول کا آغاز جنگ اُحد (شوال ۳ ھ) کے بعد ہوا جبکہ ستر مسلمانوں کی شہادت کے بعد یتیموں کی کفالت اور ورثے کی تقسیم کے مسئلہ نے بڑی اہمیت اختیار کرلی تھی۔ نماز خوف غزوہ ذات الرقاع میں پڑھی گئی اور یہ غزوہ ۴ ھ میں ہوا اور تیمم کی اجازت غزوہ بنی مصطلق میں دی گئی اور یہ غزوہ ۵ ھ میں پیش آیا۔ ان واقعات و سنین سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس سورہ کا آغاز اُحد کے بعد ہوا تو اس کا سلسلہ نزول ۵ ھ کے اوائل تک جاری رہا۔ (از مولانا پیر محمد کرم شاہ صاحبؒ الازہری) تفہیم القرآن جلد اول کے صفحہ ۳۱۷ تا ۳۱۸ پر یہ عبارت درج ہے جوکہ سورۃ نساء کے تعارف میں ہے۔
”اسلامی سوسائٹی کی تنظیم کے لئے سورۃ بقرہ میں جو ہدایات دی گئی تھیں اب یہ سوسائٹی ان سے زائد ہدایات کی طالب تھی۔ اس لئے سورۃ نساء کے ان خطبوں میں زیادہ تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ مسلمان اپنی اجتماعی زندگی کو اسلام کے طریق پر کس طرح درست کریں۔ خاندان کی تنظیم کے اصول بتائے گئے۔ نکاح پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ (یعنی نکاح کے آداب بتلائے گئے مرتب) معاشرت میں عورت اور مرد کے تعلقات کی حد بندی کی گئی۔ یتیموں کے حقوق متعین کئے گئے۔ وراثت کی تقسیم کا ضابطہ مقرر کیا گیا۔ معاشی معاملات کی درستگی کے متعلق ہدایات دی گئیں۔ خانگی جھگڑوں کی اصلاح کا طریقہ سکھایا گیا۔ تعزیری قانون کی بناء ڈالی گئی۔ شراب نوشی پر پابندی عائد کی گئی۔ طہارت و پاکیزگی کے احکام دیئے گئے۔ مسلمانوں کو بتایا گیا کہ ایک صالح انسان کا طرز عمل خدا اور بندوں کے ساتھ کیسا ہونا چاہئے۔ مسلمانوں کے اندر جماعتی نظم و ضبط (ڈسپلن) قائم کرنے کے متعلق ہدایات دی گئیں۔ اہل کتاب کے اخلاقی و مذہبی رویہ پر تبصرہ کرکے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ اپنی پیش رو اُمتوں کے نقش قدم پر چلنے سے پرہیز کریں۔ منافقین کے طرز عمل پر تنقید کرکے سچی ایمانداری کے مقتضیات واضح کئے گئے اور ایمان و نفاق کے امتیازی اوصاف کو بالکل نمایاں کرکے رکھ دیا گیا۔ مخالف اصلاح طاقتوں سے جو کشمکش برپا تھی اس نے جنگ اُحد کے بعد زیادہ نازک صورت اختیار کرلی تھی۔ اُحد کی شکست نے اطراف ونواح کے مشرک قبائل ، یہودی ہمسایوں اور منافقوں کی ہمتیں بہت بڑھ گئی تھیں اور مسلمان ہر طرف سے خطرات میں گھر گئے تھے ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ایک طرف پرجوش خطبوں کے ذریعہ سے مسلمانوں کو مقابلہ کے لئے اُبھارا اور دوسری طرف جنگی حالات میں کام کرنے کے لئے انھیں مختلف ضروری ہدایات دیں۔ مدینہ میں منافق اور ضعیف الایمان لوگ ہر قسم کی خوفناک خبریں لاکر بد حواسی پھیلانے کی کوششیں کررہے تھے۔ حکم دیا گیا کہ ہر ایسی خبر ذمہ دار لوگوں تک پہنچائی جائے اور جب تک وہ کسی خبر کی تحقیق نہ کرلیں اس کی اشاعت کو روکا جائے۔ مسلمانوں کو بار بار غزوات اور سریوں میں جانا پڑتا تھا اور اکثر ایسے راستوں سے گزرنا ہوتا تھا جہاں پانی فراہم نہ ہوسکتا تھا۔ اجازت دی گئی کہ پانی نہ ملے تو غسل و وضو دونوں کے بجائے تیمم کرلیا جائے۔ نیز ایسے حالات میں نماز مختصر کرنے کی بھی اجازت دی گئی اور جہاں خطرہ سر پر ہو وہاں صلوٰۃ خوف ادا کرنے کا طریقہ بتایا گیا۔ عرب کے مختلف علاقوں میں جو مسلمان کافر قبیلوں کے درمیان منتشر تھے اور بسا اوقات جنگ کی لپیٹ میں بھی آجاتے تھے ان کا معاملہ مسلمانوں کیلئے سخت پریشان کن تھا۔ اس مسئلہ میں ایک طرف تفصیلی ہدایات دی گئیں اور دوسری طرف ان مسلمانوں کو ہجرت پر اُبھارا گیا تاکہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر دارالاسلام میں آجائیں۔ یہودیوں میں سے بنی نضیر کا رویہ خصوصیت کے ساتھ نہایت معاندانہ ہوگیا تھا اور وہ معاہدات کی صریح خلاف ورزی کرکے کھلم کھلا دشمنان اسلام کا ساتھ دے رہے تھے اور خود مدینہ میں محمدؐ ااور آپ کی جماعت کے خلاف سازشوں کے جال بچھارہے تھے۔ ان کی اس روش پر سخت گرفت کی گئی اور انھیں صاف الفاظ میں آخری تنبیہ کردی گئی۔ اس کے بعد ہی مدینہ سے ان کا اخراج عمل میں آیا۔
منافقین کے مختلف گروہ مختلف طرز عمل رکھتے تھے اور مسلمانوں کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کس قسم کے منافقوں سے کیا معاملہ کریں۔ ان سب کو الگ الگ طبقوں میں تقسیم کرکے ہر طبقہ کے منافقین کے متعلق بتادیا گیا کہ ان کے ساتھ یہ برتاؤ ہونا چاہئے۔
غیر جانبدار معاہد قبائل کیساتھ جو رویہ مسلمانوں کا ہونا چاہئے تھا اس کو بھی واضح کیا گیا۔ سب سے زیادہ اہم چیز یہ تھی کہ مسلمانوں کا اپنا کیرکٹر بے داغ ہو کیونکہ اس کشمکش میں مٹھی بھر جماعت اگر جیت سکتی تھی تو اپنے اخلاق فاضلہ ہی کے زور سے جیت سکتی تھی۔ اس لئے مسلمانوں کو بلند ترین اخلاقیات کی تعلیم دی گئی اور جو کمزوری بھی ان کی جماعت میں ظاہر ہوئی اس پر گرفت کی گئی۔ دعوت و تبلیغ کا پہلو بھی اسی سورۃ میں چھوٹنے نہیں پایا۔ جاہلیت کے مقابلہ میں اسلام جس اخلاقی و تمدنی اصلاح کی طرف دنیا کو بلا رہا تھا اس کی توضیح کرنے کے علاوہ یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکین تینوں گروہوں کے غلط مذہبی تصورات اور غلط اخلاق و اعمال پر اس سورۃ میں تنقید کرکے ان کو دین حق کی طرف دعوت دی گئی“۔ (از : مولانا سیدمودودیؒ)

تدبر کی نگاہ ڈالئے تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ آیت ۴۰ تک تو معاشرہ سے متعلق حقوق و قوانین بیان ہوئے اور ضمناً کہیں کہیں اس ردعمل کی طرف بھی اشارہ ہوگیا ہے۔ جو ان احکام کا مخالفین پر ہوا ، لیکن آیت ۴۰ کے بعد کلام کا رُخ بالتدریح اسلامی نظام حکومت کی اساسات کی وضاحت اور اسلام کے مخالفین کی طرف مڑ گیا اور اس رویہ پر تفصیل کے ساتھ تنقید کی گئی ہے جو اس نظام حق کی مزاحمت کے لئے اہل کتاب اور منافقین نے اختیار کیا۔
غرضیکہ قرآن حکیم کی اس سورۃ کے متعلق چند اشارات قارئین کی خدمت میں پیش کئے گئے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم قرآن حکیم کی روز کی اساس پر تلاوت کا معمول بنالیں اور جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں وہ اپنی مادری زبان میں سمجھنے غور فکر وتدبر کی کوشش کریں۔ لہذا اللہ کریم نے ہمیں جس زبان پر بھی عبور عطا فرمایا ہے اس کے ذریعہ سے قرآن حکیم کو سمجھ کر پڑھنا چاہئے ہمیں اپنی زندگی میں اس بات کی کوششیں کرنی چاہئے کہ ہم قرآن حکیم کو احسن طریقہ پر صحیح انداز میں پڑھیں ، قرآن حکیم کو فصیح طریقہ پر پڑھنا سیکھنے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں اور نہ ہی اس میں شرمانے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ خالق کائنات کا کلام پاک ہے جو صرف اور صرف اس کے بندوں کیلئے نازل کیا گیا ہے۔ مولانا افتخار احمد قادری مصباحی آداب تلاوت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ’’تلاوت کرنے والے کو قرآن کے معانی و مفاہیم پر غور و خوص کرنا چاہئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ٫ کرم اللہ وجہہ الکریم، نے فرمایا ہے۔ اس عبادت میں کوئی خوبی نہیں جس کو سمجھا نہ جائے اور اس تلاوت میں کوئی خوبی نہیں جس میں قرآن پر غور و فکر نہ کیا جائے۔ ہر آیت کو سمجھ سمجھ کر پڑھنا چاہئے۔ اس لئے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی صفات اس کے افعال ، انبیاء علیہم السلام کے واقعات و قصص، ان کی تکذیب کرنے والوں کی مذمت ، ان کی ہلاکت و تباہی اور جنت و دوزخ کے ذکر پر مشتمل ہے۔ اس طرح سمجھ کر پڑھنے میں ایمان و عمل میں استحکام پیدا ہوگا۔ اکثر لوگ قرآن کے معنی سمجھنے سے محروم رہ جاتے ہیں جنھیں شیطان اِن کے دلوں پر لٹکا دیتا ہے اس طرح ان پر قرآن کے عجیب و غریب اسرار و رموز کھل نہیں پاتے ۔ تلاوت کرنے والے کے دل پر اسی طرح کے اثرات مرتب ہونے چاہئیں۔ جس طرح کی آیتیں آئیں، جس مفہوم کی آیت آئے اس طرح کا اس پر اثر ظاہر ہو۔ اس کے دل پر غم و خوف اور اُمید وغیرہ کی کیفیتیں پیدا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے …
(ترجمہ) :-’’ایمان والے وہی ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انکا ایمان ترقی پا جاتا ہے اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں (سورۃ انفال) ۔ قرآن کی معرفت جس قدر کامل ہوگی اسی قدر خشیت اور غم کا دل پر غلبہ ہوگا‘‘۔ (اقتباسات ،فضائل قرآن)
ایک اور اہم بات یہ کہ
قرآن حکیم فتنے سے بچنے کا بہترین اور واحد ذریعہ ہے۔ جوکوئی بھی قرآن حکیم کو چھوڑے گا یقینا وہ مغرور کہلائے گا۔ ہمارے بعض بھائی قرآن حکیم کی طرف کئی کئی دن توجہ نہیں دیتے جو ایک اصلاح طلب چیز ہے۔ قرآن حکیم سارے انسانوں کی ہدایت کا واحد ذریعہ ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ذرریعہ اللہ نے ہم تک پہنچادیا اور خاص طور پر ایک بندہ مومن کے لئے تو یہ روحانی غذا ہے ، جس طرح تیل یا ایندھن کے بغیر کسی موٹر یا مشین کا چلنا ناممکن ہے ، ٹھیک اسی طرح قرآن حکیم کو چھوڑ کر یا اس سے اپنا رشتہ انتہائی کمزور بناتے ہوئے ایک مسلمان کا ، مومن بندے کی حیثیت سے زندگی گزارنا٫ ادھورا ہی نہیں بلکہ دشوار ہے۔
سورہ بقرہ آیت ١٢١پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ، بندے مومن کی خاص صفت یہ ہےکہ وہ تلاوت قرآن میں "حق تلاوتہ” کی شرط پوری کرتے ہیں یعنی قرآن کی تلاوت کا جو حق ہے اسے پورا کرتے ہیں، اہل ایمان کو اپنے حقیقی مالک وآقا ،اللہ تعالی کی بندگی وغلامی کا حق ادا کرنے کے لیے قرآن کی تلاوت اور اسکے مضامین پر غور فکر کرنا اسکے مطابق شب وروز گزارنا انتہائ ضروری ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپؐ کے قلب اطہر پر قرآن کا نازل کیا جانا اسی مقصد کے تحت ہے کہ اللہ کے تمام بندے اپنے مالک وخالق کی مرضی کے مطابق عمل کرکے دنیا وآخرت میں کامیاب ہو جائیں۔

ازقلم: محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار
فون نمبر : 9849099228

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے