عجیب حال ہے انسانوں کا مفاد پرستی کا شامیانہ وسیع کرتا جارہا ہے ، خائن مشورہ بھی دیتاہے ، اپنے دکھ سے زیادہ دوسروں کے سکھ سے پریشان رہتا ہے دوسروں کی خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی بھی کرتاہے اور اس کا پرچار بھی کرتاہے رشتوں میں دراڑیں پیدا کرتا اور کراتا ہے خوب جھوٹ بولتا ہے ، جھوٹی قسمیں بھی کھاتا ہے دوسروں کے روئیے اور کام پر بڑی تنقیدیں کرتا ہے یعنی صرف دوسروں کے اندر عیب نکالتا ہے لیکن خود کا جائزہ کبھی نہیں لیتا اپنے دامن کا داغ کبھی نظر نہیں آتا جبکہ ضروری ہے کہ ہم کسی کو کوئی مشورہ دیں تو پہلے غور کریں کہ یہ امانت کی راہ پر لگے گا یا خیانت کی راہ پر لگے گا یاد رکھنا چاہئے کہ جان بوجھ کر خیانت کی راہ پر لگنے والا مشورہ دینے والا مومن نہیں ہے ،، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جو شخص اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کرتا وہ خود کو کامیابی کی راہ پر گامزن نہیں کرسکتا اس قول سے یہ ثابت ہوتاہے کہ خود کی خبر گیری کرنے والا اور اپنے گریبانوں میں جھانکنے والا اپنی خامیوں کو بہتر کرسکتا ہے اپنے آپ کو برائی سے بھلائی کی طرف لے جاسکتا ہے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بھی اسے مدد حاصل ہوگی اور جب اللہ کی مدد حاصل ہوگی تو وہ اندھیرے میں نہیں بھٹکے گا بلکہ روشنی میں اسے اپنی منزل نظر آئے گی اور وہ منزل حاصل بھی ہوگی پھر وہ بہتر اور کامیاب انسانوں میں شمار کیا جائے گا ،، جب ہم صرف دوسروں کے اندر عیب تلاش کریں گے تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم کامل انسان نہیں ہیں اور ہم حقوق العباد کی بھی خلاف ورزی کرہے ہیں اور یاد رکھیں کہ حقوق العباد کا معاملہ بندوں سے ہے یعنی آپ نے کسی کا دل دکھایا ہے تو لاکھ نمازیں پڑھیں ، روزہ رکھیں ، حج کریں ، زکاۃ دیں ، تہجد کا اہتمام کریں لیکن رب تبارک وتعالیٰ آپ کی ان عبادات کے بدلے اسے درگزر نہیں کرے گا معاف نہیں کرے گا جب تک کہ بندہ خود معاف نہ کرے ،، یاد رکھیں کہ ہمارے اوپر دو طرح کے حقوق واجب ہیں ایک حقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد ،، اللہ قرآن مجید میں حقوق اللہ کے ذکر کے بعد حقوق العباد کا ذکر کیا ہے فرمان الٰہی ہے کہ صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ،، یعنی نماز روزہ حج وعمرہ زکاۃ صدقہ خیرات یہ سب حقوق اللہ ہیں اور یہ سارے کام رضائے الہٰی کے لئے کرنا ہے دنیا کے لوگوں کو خوش کرنے کے لئے نہیں، دنیا کے لوگوں سے واہ واہی لوٹنے کے لئے نہیں ، دنیاوی نام ونمود و شہرت کے لئے نہیں بلکہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کرنا چاہئے تبھی دنیا وآخرت دونوں میں کامیابی حاصل ہوگی اور نتیجے میں جنت ملے گی ،، کسی کا دل نہ دکھانا، کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ نہ کرنا ، کسی کی غیبت چغلی نہ کرنا بلکہ سب سے خلوص سے ملنا ، سلام مصافحہ کرنا، مسکراکر بات چیت کرنا، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا ، پڑوسیوں کو خوش رکھنا، ان کے حقوق کا خیال رکھنا ، بیماروں کی عیادت کرنا ، بڑوں کی عزت کرنا اور چھوٹوں کے ساتھ پیار ومحبت کا اظہار کرنا یہ سب حقوق العباد میں سے ہے اور اس کی مکمل ادائیگی سے بھی اللہ خوش ہوگا راضی ہوگا اور جنت ملے گی ،، اس لئے حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرنا چاہئے اور جب انسان کا آخری وقت آتا ہے سانسیں اکھڑ جاتی ہیں ، آوازیں لڑکھڑانے لگتی ہیں ، زبان لٹ پٹانے لگتی ہے ، پیاس کی شدت ہوتی ہے ، ہاتھ پاؤں بے جان ہونے لگتے ہیں تو آگے بڑھ بڑھ کر لوگ معافی تلافی کرتے ہیں ارے جب معافی مانگنا ہی ہے اور معاف کرنا ہی ہے تو جیتے جی حالت تندرستی میں ہی کیوں نہیں معافی مانگ لیا جاتا اگر حالت تندرستی میں معافی مانگ لیا جائے تو کچھ خدمت اور خاطر تواضع کا موقع بھی ہاتھ لگ جائے اور خوشگوار ماحول میں ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع بھی مل جائے اور معاشرے میں ایک اچھا پیغام بھی جائے دوسروں کو بھی سبق حاصل کرنے کا موقع ملے آخری وقت میں معافی تلافی سے دل مطمئن بھی نہیں ہوتا تفصیلی انداز میں بات بھی نہیں کی جاتی بلکہ وہ ایک رسم معلوم ہوتی ہے کہ فلاں شخص مررہا ہے چلو غلطی کی معافی مانگ لیں اس وقت اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر غور کریں تو دل خود آواز دیتاہے کہ ارے نادان اب تک کہاں تھا کیوں بھولا ہوا تھا اگر یہی کام تونے پہلے کیا ہوتا تو آج شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا –
ہر ایک کو مرنا ہے فرق اتنا ہے کہ کوئی بیمار ہوکر مرے گا ، کوئی اچانک مرے گا ، کوئی نارمل موت کا سامنا کرے گا تو کوئی حادثے کی موت کا سامنا کرے گا اتنا تو سب مانتے ہیں کہ ایک دن مرنا ہے لیکن کب مرنا ہے ، کہاں مرنا ہے ، کیسی موت مرنا ہے کسی کو نہیں معلوم ،، پھر ایک دوسرے کے خلاف زبان درازی کرنے کا کیا فائدہ ، غیبت چغلی ، حق تلفی ، لڑائی جھگڑا سے کیا فائدہ ؟ آج بڑھتی ہوئی انسانی آبادی میں انسانیت گرتی جارہی ہے ، بھائی بھائی کا دشمن نظر آتا ہے ، پڑوسی پڑوسی کا دشمن نظر آتا ہے ، رشتہ داری میں بگاڑ نظر آتا ہے ، دوست و احباب کے درمیان بھی مفاد نظر آتا ہے یہ بغض و حسد کی بیماری انسانیت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور یہی بیماری اچھا انسان بننے کی راہ میں روکاوٹ بھی بنتی ہے اور یاد رکھنا چاہئے کہ جو شخص اچھا انسان نہیں بن سکتا وہ اچھا مسلمان بھی نہیں بن سکتا اور جو شخص اچھا انسان نہ بن سکے اور اچھا مسلمان نہ بن سکے تو وہ خسارے ہی خسارے میں ہے اس دنیا میں اور روئے زمین پر اس کا جینا بھی بے مقصد ہے ،، ایک انسان کی ذات سے دوسرے انسان کو فائدہ نہ پہنچے تو وہ زندگی کس کام کی پھر انسان اور جانور کی زندگی میں کوئی فرق نہیں ،، ایک انسان سردی کے موسم میں رات کو کانپ رہا ہو اور آپ اس کے سامنے سے سوئٹر، کوٹ اور دیگر گرم کپڑے پہنے ہوئے گذر جائیں آپ کو اس کی غریبی ، کمزوری اور مجبوری کا احساس نہ ہوتو تو ایسی زندگی کسی کام کی نہیں ، کوئی بھوکا پیاسا آپ کے سامنے کھلانے کے لئے زبان کھولے اور آپ اپنے دسترخوان کے قریب سے اسے جھڑک کر بھگادیں اور خود مختلف ذائقوں اور لوازمات سے اپنا پیٹ بھریں تو ایسی زندگی کسی کام کی نہیں،، یہی نہیں بلکہ بھوک و پیاس سے زندگی میں کوئی تڑپتا رہے اور ہم آپ اسے نظر انداز کرتے رہیں اور جب مرجائے تو اس کے نام سے دیگیں چڑھائیں تو ایسی زندگی بھی کسی کام کی نہیں اور ایسی دیگیں بھی کسی کام کی نہیں –
میدان محشر میں اللہ تبارک وتعالیٰ پوچھے گا کہ دنیا میں میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا کیوں نہیں کھلایا، دنیا میں میں ننگا تھا تو نے مجھے کپڑا کیوں نہیں پہنایا بندہ کہے گا کہ ائے پرودگار تو تو سب کو کھلانے والا ہے اور سب کو کپڑا پہنانے والا ہے تو جسم و جسمانیات سے پاک ہے تو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا تو رزاق ہے تو خالق ہے پھر تیرے بھوکے اور ننگے ہونے کا کہاں سوال اٹھتا ہے مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے تب اللہ رب العالمین کہے گا کہ میں جسم و جسمانیات سے پاک ہوں مگر یاد کر دنیا میں میرا فلاں بندہ بھوکا تھا اور تونے اسے کھانا نہیں کھلایا،، دنیا میں میرا فلاں بندہ ننگا تھا تو نے اسے کپڑا نہیں پہنایا اگر تو نے میرے اس بندے کو کھانا کھلایا ہوتا اور میرے اس بندے کو کپڑا پہنایا ہوتا تو مجھے تو وہیں پاتا یاد رکھ میرا بھی لباس ہے عزت میری لنگی ہے اور تکبر میری چادر ہے ،، تونے دنیا میں میرے بندے کی غربت دیکھ کر اسے تونے جھڑکا یعنی تو نے خود کو بہت بڑا عزت دار ثابت کرنے کی کوشش کی جبکہ مجھ سے بڑا عزت والا کوئی نہیں ،، عزت و ذلت کا مالک میں ہوں اس طرح تو نے تکبر کا اظہار کرکے میری چادر چھیننے والا کام کیا اگر تونے میرے اس بندے کی حالت پر ترس کھایا ہوتا اور اس کی ضرورتوں کو پورا کیا ہوتا تو مجھے تو وہیں پاتا یعنی تجھے میرا قرب حاصل ہوجاتا ،، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دل کی سختی سے پرہیز کیا جائے ، غریبوں کی عزت کی جائے ، یتیموں کے سروں پر دست شفقت پھیرا جائے ، بیماروں کی عیادت کیا جائے اور مدد بھی کیا جائے اور ایک صاف شفاف معاشرہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا جائے۔
ازقلم: جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com