اپنانا سکھیں، بھگانا نہیں !

بات بظاہر بری ہے ! توجیہ کر لیجئے ، بے ادبی معلوم ہو رہی ہے! عذر تلاش کرلیجئے ۔ گستاخی لگ رہی ہے! وضاحت لے لیجیے ۔ ۔ لیکن خدا کے واسطے اس کو قریب کیجئے، دور نہ کیجئے ، اپنانے کے طریقے ڈھونڈیے ، بھگانے کے بہانے نہ تراشیے۔ اسلام کے اندر داخل کیجیے ، باہر کرنے کی فراق میں نہ لگے رہیے۔ بشارت اور خوشخبری دینے والے بنیے، طنز و طعنہ اور لعنت و ملامت کی فیکٹری نہ بنیے ۔ دیکھئے ہمارے آپ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح لوگوں کو اپناتے تھے ۔ ان کی کمیوں اور کوتاہیوں کے باوجود ان کو گلے لگاتے تھے ۔
صحیح بخاری میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک شخص شراب خوری کے جرم میں بار بار گرفتار ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا، صحابہ نے تنگ آکر کہا ” خدا وندا! تو اپنی لعنت اس پر نازل کر کہ یہ کس قدر بار بار لایا جاتا ہے” رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی یہ بات نا پسند آئی ،فرمایا ” اس پر لعنت نہ کرو کہ اس کو خدا اور رسول سے محبت ہے۔۔
برائی کو برا کہیے لیکن برے شخص کی اچھائیوں کو فراموش نہ کیجئے ۔ اس کو اتنا اسپیس ضرور دیجئے کہ وہ آپ کے اریب قریب ہی رہے،آپ بہت اچھے ہیں تو اپنی اچھائیوں سے دوسروں کو فائدہ اٹھانے سے محروم نہ کیجئے۔ لعن طعن اور استہزاء و تمسخر کے ذریعہ اس کو اتنا دور نہ کردیجیۓ کہ آپ سے مایوس ہی ہو جائے ۔۔
ہائے افسوس! طنز و تمسخر کے ذریعہ ہم نے کتنے ہی باصلاحیت نگینوں کو مٹی میں رُلنے پر مجبور کر دیا۔ کتنے ہیرے اپنے ایک جرم کے سبب اپنوں کی نظروں سے ہمیشہ کے لیے دور ہو گئے۔
صبر کیجیے، برداشت کیجئے ، نظر انداز کیجیے ۔دوسرے بھی انسان ہیں۔ خدا نے ان کو الگ حیثیت سے پیدا کیا ہے ۔ کوئی آپ کی فوٹو کاپی نہیں ہو سکتا، جس طرح آپ کسی کی فوٹو کاپی نہیں ہو سکتے۔

ازقلم: معاویہ فاروق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے