پھر اہل حرم سے ملاقات ہوتی
پھر اشکوں سے کچھ شرح جذبات ہوتی
حرمین کی جگہ اور مقام دنیا میں سب سے زیادہ پرکشش، پر بہار ،پرنور، متبرک، محترم، ،مقدس اور قابل قدر و منزلت ہے ، کعبہ ، یہ وہ بیت اللہ یعنی اللہ کا گھر ہے، اور سب اولین خدا کا گھر ہے، جو لوگوں کے لیے مکہ میں تعمیر کیا گیا ۔
روئے زمین کی سب سے مبارک سر زمین مکہ مکرمہ اسلامی شان و شوکت اور سطوت کا مظہر ہے ۔ اور اللہ کا پہلا گھر کعبہ اس کے جاہ و جلال اور فضل و کرم کا مرکز ہے ،یہ وہی سرزمین مکہ ہے جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے ۔جہاں آپ ہر وحی نازل ہوئی اور جہاں دعوت و تبلیغ کی ابتدا ہوئی، یہ وہی شہر ہے جس کی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے اور جسے مخلتف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔اور یہیں کعبہ بھی ہے جس کی تعمیر سب سے پہلے اللہ کے حکم سے فرشتوں نے کی پھر جد امجد حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر کی ،پھر اور نبیوں کے بارے میں آتا ہے کے انہوں نے بھی اس میں حصہ لیا اور اخیر میں حضرت ابراھیم و اسمعیل علیھیما السلام نے اس کی تعمیر کی ،اس تعمیر کا ذکر تو خود قرآن مجید میں موجود ہے ۔
جغرافیائی اعتبار سے مکہ 21/ اعشاریہ 2/ درجہ ارض البلد پر واقع ہے اور سطح سمندر سے 330/ میٹر کی بلندی پر واقع ہے، یہ وہی شہر ہے جو اپنی گود میں مسجد حرام اور خانہ کعبہ جیسی مقدس اور مبارک جگہوں کو لئے ہوا ہے ،نماز کے وقت تمام دنیا کے مسلمان کعبے کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں ۔چار دانگ عالم میں یہی وہ جگہ اور مقام ہے، جہاں مسلمان ہر سال حج کے لیے جمع ہوتے ہیں اور پورے سال عمرہ اور طواف کے لیے آتے رہتے ہیں، دنیا میں تنہا یہ وہ جگہ ہے ،جہاں عبادت کی کبھی رکتی اور موقوف نہیں ہوتی ۔ جہاں ایک نماز کا اجر و ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ایک لاکھ زیادہ ہے ۔
مکہ مکرمہ کے بعد سب سے بابرکت جگہ مدینہ منورہ ہے، جہاں مسجد نبوی ،جس میں نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے پچاس ہزار زیادہ ہے ، اور جہاں آپ صلی اللہ علیہ کا روضئہ اطہر ہے، جہاں آپ ہجرت کر کے گئے اور آپ نے اس کو اپنا مسکن بنایا اور اسلامی حکومت و خلافت کی بنیاد ڈالی اور احکام و مسائل ، اسلامی قانون اور جہاد کے احکام نازل ہوئے،جس سرزمین کو مہبط وحی بھی کہتے ہیں آپ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ مدینہ منورہ راحت و مسرت کی جگہ ہے ،آپ نے فرمایا فرشتے مدینہ کے پہاڑوں میں واقع خصوصی راستوں پر متعین پاسبانی کر رہے ہیں ، تاکہ طاعون اور دجال سے اس شہر کی مدافعت کرسکیں ۔مدینہ کی زیارت اور مدینہ کا سفر ایک عبادت ہے اور بہت ہی اہم عبادت اور بڑی جانبازی اور دل فروشی کی منازل ہیں ،مدینہ کے سفر کو عشق و محبت کا سفر کہا گیا ہے، یہ یقینا شوق و اشتیاق کی وادی ہے ۔آپ نے اس کا نام یثرب سے بدل کر مدینہ منورہ رکھا اور حکم ملا کی زبان سے بھول کر بھی اس سرزمین کا نام یثرب نکل جائے تو اسے چاہیے کہ وہ دس بار مدینہ منورہ کہے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تین بار استغفار پڑھے ۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا کہ مدینہ کی زمین سے مجھے بے پناہ محبت ہے اور اس محبت کو میں نے اپنے اللہ سے مانگ کرلیا ہے اور تمہارے ایمان کی کسوٹی اس محبت کو قرار دیا ہے ،چنانچہ تم میں سے جو بھی صاحب ایمان ہوگا وہ مدینہ کی طرف یوں دوڑ کر آئے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں دوڑ کر داخل ہوتا ہے ۔
حرمین شریفین اور مقامات مقدسہ کی انہی فضیلتوں کی بنیاد پر ایمان والا وہاں پہنچنے اور حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے اور وہاں کے مقامات مقدسہ کی زیارت کرنے کے لیے بے چین رہتا ہے اور اس کے لیے ہر طرح سے سعی وکوشش کرتا ہے کہ وہ کسی طرح وہاں پہنچ جائے ۔ اور وہاں سے واپسی کے بعد بھی وہاں کی یادوں میں کھویا کھویا رہتا ہے اور ہر وقت زبان پر وہیں کا تذکرہ اور وہاں کی یادیں رہتی ہیں ۔
راقم الحروف کے سفر عمرہ سے لوٹے آج پانچ روز مکمل ہوگئے ہیں، لیکن زبان پر ہر وقت وہیں کا تذکرہ اور وہیں کی یادیں ہیں اور دل چاہتا ہے کہ پھر وہاں جانے اور وہاں تک پہنچنے کی کوئی صورت اور سبیل نکل جائے تو دوبارہ وہاں پہنچ جاؤں ۔ اکثر جو اشعار اور جو نظمیں گنگناتا ہوں، اس میں حرمین کا تذکرہ اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی یادیں ہوتی ہیں ۔ دل چاہتا ہے کہ وہ اشعار آپ قارئین کی خدمت میں بھی پیش کروں ۔
زائر حرم جناب حمید صدیقی مرحوم کے یہ اشعار بھی ذہن میں گردش کرتے ہیں کہ
پھر اہل حرم سے ملاقات ہوتی
پھر اشکوں سے کچھ شرح جذبات ہوتی
دم دید پھر جلوئہ نو بہ نو سے
مرے چشم و دل کی مدارات ہوتی
مدینے کی پر نور دلکش فضا میں
نظر محو دید مقامات ہوتی
مدینہ کے احباب ہمراہ ہوتے
شب ماہ میں سیر باغات ہوتی
خبر کچھ نہ رہتی زمین و زماں کی
وہ محویت خاص دن رات ہوتی
پہنچ جائیں پائین اقدس کی جانب
یہی آرزو اکثر اوقات ہوتی
دعاؤں میں جامی کے اشعار ہوتے
نظامی کی لب پر مناجات ہوتی
ادھر چشم پرنم سے آنسو ٹپکتے
ادھر رحمت حق کی برسات ہوتی
فرشتے جسے سن کے آمین کہتے
اک ایسی دعا بعض اوقات ہوتی
امتنی بھذا البلد! یا الہیٰ
دعا یہ حمید ! اپنی رن رات ہوتی
مولانا قاری صدیق صاحب باندوی رح کے یہ اشعار بھی ذہن میں گردش کرتے ہیں کہ
کسی کی دعا کا اثر دیکھ آئے
مدینے کی شام و سحر دیکھ آئے
مدینے کے کوچے، مدینے کی گلیاں
نبی کی ہر اک رہ گزر دیکھ آئے
وہ طیبہ کے دشت و جبل اور صحرا
وہاں کے شجر اور حجر دیکھ آئے
وہ سرسبز گنبد پہ شبنم کے قطرے
مقدر سے باچشم تر دیکھ آئے
وہ پرنور روضہ ،مکیں جس کے سرور
نظر تو نہ اٹھی مگر دیکھ آئے
منور وہ روضے کی جالی کی جانب
لرزتے ہوئے ایک نظر دیکھ آئے
وہ ازواج کے گھر وہ ابواب رحمت
خوشا ہم بھی وہ بام و در دیکھ آئے
بقیع کا وہ منظر ،صحابہ کا مدفن
فدا جس پہ شمس و قمر دیکھ آئے
حقیقت میں یہ میرے رب کا کرم ہے
حبیب خدا کا جو گھر دیکھ آئے
یہ انعام باری ہوا تجھ پہ ثاقب
دیار شہ بحر و بر دیکھ آئے
اور یہ اشعار بھی اکثر گنگناتا ہوں کہ
دربار نبی پھر تجھے اللہ دکھائے
پھر ہند سے طیبہ کی طرف جلد تو جائے
ساقی تجھے پھر جام محبت کا پلائے
اللہ تجھے شرک سے بدعت سے بچائے
تاعمر تجھے سنت نبوی ص پہ چلائے
ایمان کی لذت تجھے اللہ چکھائے
دیوانہ تجھے عشق محمد کا بنائے
ہے میری دعا اب ترا مقصود بر آئے
زمزم سے تری پیاس کو اللہ بجھائے
پھر گنبد خضریٰ کا ہو دیدار میسر
کعبہ تجھے پھر اپنے کلیجے سے لگائے
اور مفتی شفیع صاحبؒ کے یہ اشعار بھی دلوں کو گرماتے ہیں اور وہاں کی یادیں تازہ کرتے ہیں کہ
اے کاش پھر مدینہ میں اپنا قیام ہو
دن رات لبوں پر درود و سلام ہو
پھر ذکر لا الہ میرا حرز جان ہو
اور وقت واپسی یہی میرا کلام ہو
محراب مصطفیٰ میں ہو معراج سر نصیب
پھر سامنے وہ روضئہ خیر الانام ہو
پھر مواجہہ میں دردو و سلم کا
پر کیف نظارئہ ہر خاص و عام ہو
پھر کاش میں مکین در مصطفیٰ بنوں
فضل خدا سے روضئہ جنت مقام ہو
جس کو وہ خود کہہ دیں کہ میرا غلام ہے
دوزخ کی آنچ اس پہ یقینا حرام ہو
نوٹ / آج بھاگلپور میں ڈاکٹر کو دکھانا ہے ، چار مہینے پر یہ نارمل چیک اپ ہے ۔ آپ تمام قارئین سے خصوصی دعائے صحت کی درخواست ہے ۔ آپ سب دعا فرمائیں کہ اللہ صحت و تندرستی اور حسن خاتمہ نصیب فرمائے اور زندگی کے جتنے دن باقی ہیں ،یہ امت کی نفع رسانی میں گزرے ۔ امید کہ آپ سب آپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں گے ۔۔۔
تحریر: محمد قمر الزماں ندوی