اسلام میں آزادانہ قانون سازی کی اجازت نہیں!!!

تحریر: (مولانا) محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار آزاد صحافی
فون 8247567732

اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرماکر اسے یوں ہی نہیں چھوڑا بلکہ اول انسان کے پیداکرنے کے ساتھ ہی اسے علم کی دولت سے نوازہ تاکہ وہ دنیا میں بے راہ و بے مقصد بن کر نہ رہ جاے،کیونکہ انسان کو پیدا کرنے کا مقصد یہ بتایا گیا کہ
وہ اپنے خالق و مالک کی بندگی دم آخر کرتا رہے۔
اسطرح انسایت کی معراج تک
پہنچانے کے لیے اس سلسلہ کو ہر دور میں جاری رکھا یعنی
اپنے انبیاء ورسل اور کتابوں،صحیفوں کو بھیجتا رہا
اور اس کا اختتام محمد رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وسلم کی ذات گرامی کو آخری نبؐی ورسول اور قرآن مجید کو قیامت تک کے لیے آخری کتاب قرار دیا۔
قرآن کی آیات ذیل؛ سورہ بقرہ آیت 31:سورہ اعراف آیات 172تا173:سورہ مائدہ آیت 28تا29:سورہ مائدہ آیت3:آل عمران آیت34:سورہ الشوری آیت31:سورۃ الاعراف آیت145:سورہ بقرہ آیات82تا84:بقرہ آیت 27:سورہ الرعد آیت 25: وغیرہ پر غور کرنے سے تاریخ ”انسانی حقوق“ اس امر کا واضح ثبوت مہیا کردیتی ہے کہ اسلام میں بنیادی حقوق کا تصور اولین انسان کی پیدائش کے دن سے موجود ہے۔ اور اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ان حقوق کا ماخذ کیا ہے۔ یہ انسان اور اس کی خود ساختہ ریاست کے حکمرانوں کی باہمی نزاع وکشمکش اور ان کے درمیان ہونے والے معاہدوں سے وجود میں نہیں آئے۔ اورنہ کسی فلسفی، سیاسی مفکریا ماہرقانون کی دماغ سوزی کا نتیجہ ہیں۔ بلکہ یہ اپنی مخلوق کیلئے خالق اور اپنی رعایا کیلئے حقیقی متقدر اعلیٰ کا عطیہ ہیں۔ اورانسان کی ذات سے لازماً وابستہ ہیں ان کا تعین انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی ہوگیا تھا، ان کی آخری اور مفصل وضاحت حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت میں کردی گئی ہے۔ یہ حقوق زمان و مکان کی حدود سے ماورا ہیں۔ انسان اگر زمین سے پرواز کرکے چاند یاکسی اور سیارے پر جابسے تو وہاں بھی ان کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ جس طرح تبدیلی زمان و مکان سے انسان کی جسمانی ساخت اور اس کی فطری ضروریات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اسی طرح اس کے حقوق وفرائض کی دائمی حیثیت میں بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ یہ حقوق ناقابل تغیر اور قطعی غیر منفک Inalienable ہیں۔ ریاست کا کام حقوق کا تعین نہیں بلکہ متعین حقوق کا نفاذ ہے۔
اہل مغرب کا دعویٰ ہے کہ بنیادی حقوق کی تاریخ صرف تین چار سو سال پرانی ہے۔ اور انہوں نے اس عرصہ میں اپنے ہاں بڑی جدوجہد اور کاوشوں سے جو کچھ حاصل کیا ہے، آج پوری دنیا اس سے فیضیاب ہورہی ہے لیکن قرآن جو تاریخ ہمارے سامنے پیش کررہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس دن اولین انسان نے اس دنیا میںقدم رکھا تھا بنیادی حقوق اسی دن سے اس کے احساس وشعور کا حصہ ہیں۔ اور ان کا حصول وتعین اس کا اپنا کارنامہ نہیں بلکہ خود مقتدر اعلیٰ نے اسے بتدریج یہ حقوق عطا کئے ہیں۔ آج جہاں کہیں ان حقوق کی بازگشت سنائی دے رہی ہے وہاںالہامی تعلیمات کے پرتو ہی سے بنیادی حقوق کا شعور بیدار ہواہے۔
نارمن کزنس (Norman Cousins) کی کتاب ’’ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں god We trust in مطبوعہ نیویارک ۱۹۵۸ء میں امریکہ کے بانیان دساتیر ( Founding Fathers) کے مذہبی عقائد پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بنجامن فرنکلین، جارج واشنگٹن، جان ایڈمز، تھامس جیفرسن، جیمز میڈیسن، الیگزنڈر ہملٹن، سیموئل آدم، جان جے، اور تھامس پین سب کے سب عیسائیت کی تعلیمات پر پختہ یقین رکھتے تھے اور ان کے خیالات پر ان کے عقائد کا گہرا اثر تھا۔ جیمز میڈیسن ’’حق‘‘ کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’ یہاں ایک انسان کا جو بھی حق ہے وہ دراصل دوسرے انسانوں پر خدا کی طرف سے عائد ہونے والا فرض ہے۔ (ص۱۷)
اسی طرح برطانوی اور فرانسیسی دساتیر کامطالعہ اگرمذہبی پس منظر کے ساتھ کیاجائے تو وہاں بھی بنیادی حقوق کااصل ماخذ مذہبی تعلیمات اور بالخصوص یورپ پر اسلام کے گہرے اثرات میں ملے گا۔
قرآن کی پیش کردہ تاریخ کے آئینہ میں دیکھا جائے تو فطری حقوق ( Natural Rights) اور پیدائشی حقوق ( Birth Rights) کی اصطلاح استعمال کرنے کا حق صرف اسلام کو ہے کیونکہ ان اصطلاحوں کے سلسلہ میں مغرب کے تصور حقوق میں جو ابہام پایا جاتا ہے وہ یہاں موجود نہیں ہے۔ اسلام اس سوال کا واضح جواب دیتا ہے کہ ان حقوق کو متعین کس نے کیا ہے جبکہ نظریہ فطری حقوق کے مغربی علمبردار بینتھم (Bentham) اوردوسرے معترضین کے اس سوال کا کوئی معقول جواب نہیں دے سکے کہ فطرت سے ان کی کیا مراد ہے؟ اور ان حقوق کا تعین کرنے والی اتھارٹی کونسی ہے؟ بہ الفاظ دیگر ان کی پشت پر سند جواز (Sanction) کیا ہے؟ اسلام نے حقوق کے فطری اور پیدائشی پہلو کو پوری وضاحت سے پیش کرکے اس طرح کے کسی اعتراض کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ (بنیادی حقوق)
اسلامی ریاست میں بنیادی حقوق کا دائرہ بہت پھیلا ہوا ہے اوراس میں بہت زیادہ وسعت رکھی گئی ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں پائے جانے والے غیر الٰہی دستاتیر اور اسلامی دستور حقوق انسانی اپنے اندر جو قوانین رکھتا ہے اس میں یہ فرق پایا جاتا ہے کہ دنیا کے دستور فقط ’’فرد اور ریاست‘‘ کے باہمی تعلق تک سکڑ کررہ جاتا ہے، اور اسلامی و قرآنی دستور کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ اس کا دائرہ اطلاق انسان کی پوری زندگی کو اپنے آغوش میں لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ عقائد، عبادات واخلاق کا معاملہ ہو یا پھر معاشرت، تمدن اور معیشت سے تعلق ہو غرضیکہ سیاست، عدالت، صلح وجنگ کے علاوہ انسانی زندگی کے دیگر تمام شعبوں کے لاتعداد تعلقات ومتعلقات کو کچھ اس طرح منضبط ومستحکم کردیا ہے کہ اس طے شدہ ضابطے کے بعد اب ریاست کیلئے قانون سازی کی گنجائش بہت ہی محدود رہ گئی اور اگر کبھی کسی چیز کی ضرورت پیش آجائے تو اس محدود موقع سے استفادہ کرتے وقت بھی آزادانہ قانون سازی کی اجازت نہیں ہے البتہ اس موقع پر یہ شرط عائد ہے کہ ہر قانون قرآن وسنت کے احکام اور ان کی روح کے عین مطابق ہی ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو ایک جامع، حقوق انسانی کا تصور دیا اور اپنی حیات طیبہ میں ہی اسے عملی جامعہ پہنا کر ایک صالح معاشرہ کی تشکیل فرمائی جس کی بدولت انسانی معاشرہ پر ایسے حسین اثرات مرتب ہوئے کہ آج تاریخ اسلام بھی اس بات کی شہادت پیش کرتی ہیکہ آدمی خود سے حقوق انسانی کا پاسدار و محافظ بن چکا۔خلاصہ یہ کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی خداے تعالی اور اسکے نبی و رسوؐل کی ہدایات سے بے نیاز ہوکر کوئ قانون بنتا ہے وہ ناکامیاب ہی رہتا ہے ۔ مستفاد {بنیادی حقوق}

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے