ازقلم: – تابش سحر
زندگی بےحد تیزرفتار ہوگئی ہے اور مشغول بھی! اتنی مشغول کہ آدمی کے پاس مسکرانے کی بھی فرصت نہیں، مشینوں کی ایجاد کے بعد انسان کا کام آسان ضرور ہوا مگر ہمالیہ کی طرح کاموں کا بوجھ بھی بڑھ گیا اور اتنا بڑھا کہ اس بوجھ تلے انسان خود ایک مشین بن کر رہ گیا جس کے پاس دل کو تازگی بخشنے کا کوئی وقت ہی نہیں، کاروبار کی بھول بھلیّاں میں صبح سے شام بھٹکنا انسان کا مقدّر بن گیا ہے ایسے میں دل کی حالت اس رنگ برنگی مچھلی کی طرح ہوجاتی ہے جو چھوٹے سے شیشہ کے مرتبان میں قید ہے اور کھلے سمندر میں تیرنا چاہتی ہے مگر چاروں طرف خوبصورت حصار! یا جیسے کسی پنجرے میں پیاری چڑیا جو کھلی فضا میں چہچہانا چاہتی ہے لیکن آہنی دیوار نے اس کے تمام تر ارمانوں پر پہرہ بٹھا دیا ہے۔
پیشہ وارانہ تقاضے ملازم کو سر سے پیر تک مشغولیت کی زنجیروں میں جکڑ لیتے ہیں، نت نئے ضابطوں اور بندشوں کے حصار میں قید انسان روبوٹ کی طرح کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے، یارانِ باصفا اردگرد موجود ہوکر بھی اجنبی ہوجاتے ہیں یا بنا دیے جاتے ہیں، کبھی کبھی لگتا ہے علامہ اقبال نے دفتری زندگی ہی سے متعلق فرمایا تھا کہ
نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشۂِ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ
ایسے میں لازم ہے کہ زندہ دلی کا کچھ تو سامان ہو سو ہر تعطیل پر یارانِ باصفا کا میلہ لگتا ہے کبھی اس سمت پرواز ہوتی ہے تو کبھی اس سمت صحرا کی خاک چھانی جاتی ہے، کبھی ظہرانہ کا منصوبہ بنتا ہے تو کبھی پرتکلّف عشائیے کا بندوبست کیا جاتا ہے اس دوران چہروں پر تازگی، دلوں میں الفت اور باتوں میں زندگی کا خوب احساس ہوتا ہے۔
کل ادارے کی جانب سے سیرو تفریح کا ایک دن تمام تر لوازمات کے ساتھ مختص کیا گیا تھا سو سب نے مل کر خوب دھماچوکڑی مچائی اور ویسے ہی زندگی کا مزہ لیا جیسے چھوٹے بچے زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں۔
آج کاروباری مصروفیات کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ سوشل میڈیا کا کثرت سے استعمال بھی ہے، سوشل میڈیا کی وساطت سے انسان کو جو فوائد نصیب ہوے وہ اپنی جگہ مگر اضطراب، قلق اور ڈپریشن کے پیچھے بھی اس عنصر کا بڑا کردار رہا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک طویل مدتی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ خوشی کے متلاشی افراد کو تنہائی کے بجائے محبت اور دوستی کو وقت دینا چاہیے کہ خوشی کا راز محبت و دوستی میں پوشیدہ ہے۔ مشینی دور میں انسان کا مشترکہ مسئلہ جو سب سے زیادہ سنگین و حساس بھی وہ اس کی ذہنی صحت اور خوشحالی (Mental Well-being) ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں لگ بھگ ایک ارب افراد ذہنی امراض کے شکار ہیں اور گزرتے دن کے ساتھ ان افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ذہنی صحت کے لیے جسمانی ورزش کے ساتھ ساتھ مستحکم سماجی تعلقات بھی ناگزیر ہے سو پیشہ وارانہ زندگی کی بندشوں سے جب کبھی آزادی نصیب ہوں تو دوستوں کے ساتھ تفریح کسی نعمت سے کم نہیں۔