گاہے گاہے باز خواں

استاد جو طلبہ کو گھول کر پلانے کا گر جانتا تھا

کتاب تھی ھدایۃ النحو ، اورعبارت تھی بالکل شروع کی , لئلا تشوش ذہن المبتدی عن ،، عن کے معنی کی ایسی تشریح کی کہ دوری مجسم ہوکر سامنے آگئ ، پڑھانے میں سرشاری کی کیفیت طاری ہوجاتی ، وہ بھی اس طرح کہ طلبہ اسکو محسوس ہی نہیں کرتے بلکہ نظروں سے بھی دیکھتے ، قد بھی چھوٹا ، جسم بھی مختصر ، ٹوپی دیوبندی جو اب تقریبا نایاب ہوگئ ہے ، کرتا بھی لمبا نہیں ، شکل وصورت بھی بارعب نہیں ، لیکن طلبہ انکی تدریس کے دیوانے تھے ، پڑھانے میں انہیں ایسی لذت ملتی کہ آواز کبھی جوش میں تیز ہوجاتی ،‌ کبھی مدھم ، کبھی تپائی سے چپک جاتے ، کبھی پہلو بدلتے ، مفہوم و مدعا کو اس طرح مختلف انداز سے بتاتے کہ طلبہ کے ذہن میں وہ نقش ہوجاتا ، مولانا کے ذمہ علوم آلیہ میں خصوصا ادب کی تدریس ہوتی تھی ، خوبصورت تعبیرات اور نادر تشبیہات کی خوب مزے لیکر تشریح کرتے ، ھر طالبعلم کی خواہش ہوتی کہ اسکا نام اس سیکشن میں آجائے جس میں مولانا کا گھنٹہ ہو , یہ خوبیاں ندوہ کے جس مثالی استاد کی بیان ہورہی ہیں اسکا نام ہے مولانا برجیس ، ھر اعتبار سے سیدھا سادہ انسان ، ذمہ داروں کے یہاں حاضری دیتے کبھی کسی نے نہیں دیکھا ، اساتذہ کی میٹنگ میں بلائے جاتے تو شریک ہوجاتے ، کینٹن میں چائے کیلئے پابندی سے آتے اور اپنے مخصوص احباب ہی کے ساتھ بیٹھتے ، چائے میں الگ سے دو تین چمچ شکر ڈال کر پیتے , بازار بھی اپنے احباب ہی کے ساتھ جاتے ، ویسے گھر کی ذمہ داریوں اور بکھیڑوں سے استانی صاحبہ انہیں بے فکر کئے ہوئے تھیں ، وطن دربھنگہ بہار تھا ,دار العلوم دیوبند سے فارغ ہوکر اپنے بڑے بھائی مولانا ادریس قاسمی رح کے ساتھ ندوہ آئے تھے ،ندوہ میں ادب کا دوسالہ کورسں کیا اور ندوہ ہی میں پڑھانے کیلئے تقرری ہوگئ ، خاص احباب میں مولانا یعقوب صاحب ندوی اور مولانا حفظ الرحمن صاحب ندوی رح تھے جو انہی کی طرح انتہائی باصلاحیت ، کئ زبانوں کے ماھر ، متواضع اور ہر وقت شاگردوں کو کچھ بنا دینے کی فکرکرنے والے تھے ،استاد محترم مولانا برجیس صاحب رح کو لکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھے ، شائد زندگی میں کبھی کچھ نہیں لکھا ، وہ اول و آخر مدرس تھے ، مولانا کو تفہیم کا عجیب وغریب ملکہ حاصل تھا ، مولانا نے سوم عربی میں ایک کتاب شروع کروائی ، فن اور کتاب کے بارے میں ضروری باتیں بتاتے ہوئے مقدمہ ، موضوع اور غرض وغایت کے بارے میں طلبہ سے پوچھا ، میں یہ سب چیزیں مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ سے پڑھکر آیاتھا ، میں نے ہر ایک کی تعریف کردی ، مقدمہ مقدمہ الجیش سے ماخوذ ہے ، ،،،، اسی طرح موضوع اور غرض و غایت کی رٹی ہوئی تعریف بھی سنادی ، مولانا نے پوچھا آپ کہاں سے آئے ہیں ، طلبہ ان سے پڑھنے کے اتنے مشتاق رہتے تھے کہ ‌ انہیں مطالعہ اور حاضری کیلئے تنبیہ ا ور ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں پڑتی ، دوسرے گھنٹے طلبہ چھوڑدیتے لیکن مولانا کے گھنٹے میں ذوق و شوق سے حاضر رہتے ، ندوہ میں تنخواہ بقدر ضرورت نہیں بقدر کفاف ملتی ہے ، اور یہی حال کم وبیشہ تمام مدارس دینیہ کا ہے ،‌ روز مرہ کی ضروریات کے علاوہ کوئی ضرورت پیش آجائے تو تنخواہ سے اسکی تکمیل بہت مشکل ہوتی ہے ، بڑے مدارس کے بہت سے اساتذہ کو لوگ تبرکا یا پروگراموں میں تقریر کیلئے مدعو کرتے ہیں ،اس سے بھی ان اساتذہ کو تھوڑا بہت مالی فائدہ ہوجاتا ہے ، ندوہ میں ہدیوں کا بھی رواج نہیں ہے ، مولانا برجیس صاحب کیلئے تنخواہ ہی سب کچھ تھی ، مدارس کے اساتذہ اور ملازمین میں بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو مدارس کو چھوڑکر اچھی تنخواہوں کی ملازمت کرسکتے ہیں ،‌ سرکاری مدرسوں میں بھی جاسکتے ہیں ، ‌ندوہ میں اس وقت کئ اساتذہ ایسے ہیں جنہیں سرکاری مدرسوں میں ملازمت کی پیشکش کی گئ ، لیکن انہوں نے ندوہ نہیں چھوڑا ، کئ تو سرکاری مدرسوں کو چھوڑکر آئے ہیں ، انکے اخلاص میں کسی کو کیا شک ہوسکتا ہے ، خود مولانا سید محمد رابع صاحب اور مولانا واضح صاحب رحمۃ اللہ علیہما گھر سے ندوہ رکشہ سے آتے اور گیٹ پر اترکر دونوں بھائی شروانی کی جیب سے اپنے حصہ کا کرایہ نکال کر رکشہ والے کو دیتے ، جبکہ مولانا واضح صاحب آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت چھوڑکر آئے تھے ، دہلی میں انہیں لے جانے اور چھوڑنے کیلئے گاڑی آتی تھی ، دونوں بھائیوں میں سے کسی کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اپنے ساتھ اپنے محبوب بھائی کا بھی کرایہ ادا کرے ، جہاں ذمہ داروں کی یہ حالت ہو وہاں کے عام ملازمین اور اساتذہ کی کیا بات کی جائے ، مولانا برجیس صاحب ایک خوددار و باغیرت انسان تھے ، ، تنخواہ سے قرض اور ادھار پہلے نمٹائے جاتے ، نتیجتا مہینہ پورا ہونے سے بہت پہلے تنخواہ ختم ہوجاتی ، لیکن کبھی زبان پر حرف شکایت نہیں ، اور اس صورت حال سے اور بھی اساتذہ دوچار تھے ، آج حالت قدرے بہتر ہے ، مولانا کے ایک صاحب زادے نے بچپن میں سکہ نگل لیا اور یہی موت کا بہانہ بن گیا ,مولانا اور اہلیہ محترمہ کو سخت صدمہ ہوا ، ندوہ میں ایسے موقع پر میت کے گھر کھانا بھیجنے کا رواج ہے لیکن اسکا طریقہ یہ ہیکہ مطبخ میں لکھوا دیا جاتا ہیکہ اتنے کھانے میری طرف سے بھیج دیئے جائیں ، میت کے گھر والوں کو پتہ بھی نہیں چلتا ہیکہ کس نے بھیجوایا ، یہ سلسلہ کئ روز تک چلتا ہے ،اس وقت ندوہ کے بڑے اساتذہ میں بھی مشیخیت نہیں ہوتی تھی ، شیخ الحدیث مولانا ضیاء الحسن صاحب اور مولانا عارف صاحب سنبھلی جیسے سینیر اساتذہ اپنا سودا سلف بازار سے خود لاتے ، ڈالی گنج پل پر ایک مرتبہ مولانا ضیاء الحسن صاحب ندوی رح کو دیکھا ایک ٹھیلے والے سے کچھ خرید رہے ہیں ، میں پیچھے کھڑا ہوگیا ، مول تول کے بعد ٹھیلے والے نے سامان تول دیا ، مولانا نے کہا دوسرے پلرے میں رکھکر تولو ، اس نے اسی طرح کیا ، اس بار سامان والا پلرا اوپر اٹھ گیا ، مولانا نے تیز نظروں سے ٹھیلے والے کو دیکھا ، اسکی پریشانی دیدنی تھی ،اس ترکیب سے میں نے بھی متعدد مرتبہ فائدہ اٹھا یا ہے ، مولانا کا انتقال چھٹی میں ہوا ، بقرعید کا موقع تھا ، جسکی وجہ سے زیادہ تر طلبہ کاندھا نہیں دے سکے ، مولانا نے جس وقت دنیا کو الوداع کہا سارے بچے چھوٹے تھے ، والدین کی نیکی کا فائدہ اولاد کو ملتا ہے ، مولانا کے پاس نہ گھر تھا ، نہ گھر کیلیے زمین ، تنخواہ سے روز مرہ کے اخراجات ہی مشکل سے پورے ہوتے تھے ، زمین کہاں سے خریدتے اور مکان کس طرح بنواتے ،انتفال کے بعد اللہ نے ندوہ سے متصل گھربھی بنوا دیا اور وہی گھر گزر اوقات کا بھی ذریعہ بن گیا ، استانی صاحبہ کی ہمت کو سلام کہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ بھی کیا اور تینوں بیٹوں اور چار بیٹیوں کی شادی سے بھی فارغ ہوگئیں ، اور اب استانی صاحبہ مادر مہربان کے ساتھ ساس ، دادی اور نانی کی ذمہ داریاں بھی کامیابی سے نبہا رہی ہیں ،‌ صرف چھوٹی صاحبزادی کا عقد باقی ہے ، جو والد کے انتقال کے دن انتقال کے بعد دنیا میں آئیں ، انتقال چھوٹے صاحبزادے سالم برجیس سلمہ اللہ کا ابھی حال میں عقد نکاح ہوا ، یہی مولانا رح کے معنوی جانشین بھی ہیں ، ندوہ سے فراغت کے بعد علیگڑھ کے ادارۂ تحقیقات اسلامی میں تصنیف وتالیف کی تربیت حاصل کر رہے ہیں ، لکھنے کا اچھا ذوق ہے ، ہزاروں شاگرد اور یہ نیک اولادیں مولانا کیلئے صدقۂ جاریہ ہیں ، اللہ مولانا کے درجات بلند کرے اور بچوں اور انکی والدہ کو دونوں جہان کی نعمتوں سے خوب خوب نوازے۔

تحریر: آفتاب عالم ندوی
ناظم جامعہ ام سلمہ، دھنباد جھارکھنڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے