تحریر:سلمان کبیر نگری
ایڈیٹر نئی روشنی برینیاں سنت کبیر نگر یوپی
آخرت کا تصور وہ محور ہے جس کے اِرد گرد تمام عبادتیں گردش کرتی ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دوسری تمام عبادتوں کا آخرت کے یقین، عنداللہ جواب دہی کے احساس اور مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے کے عقیدہ سے گہرا ربط ہے۔ اگر آخرت کا یقین نہ ہو تو موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ میں اور موسم سرما کی سخت ٹھنڈک کے دنوں میں نماز کے لئے مسجد کی طرف رُخ کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔رمضان کے ایام میں بھوک و پیاس کی شدت اور محنت کی کمائی میں سے زکوٰۃ و صدقات کے نام پر اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا حیرت کن عمل اسی لئے آسان ہے کہ موت کے بعد نہ ختم ہونے والی زندگی پر اِیمان ہے، یعنی مرنے کے بعد نیک و بد ہر عمل کا حساب و کتاب ہوگا اور اچھے اور بُرے لوگوں کو ان کے ہر عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ ان تصورات کے بغیر نہ صرف عبادت بلکہ اللہ اور اس کے رسولؐ پر اِیمان لانا بھی محال ہے۔کفار مکہ کے سامنے بے شمار معجزات پیش کئے گئے، مگر انھیں مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے پر یقین نہ ہوا، وہ کہتے تھے ” اذا متناو کنا ترابا وعظامًا انا لمبعوثون۔ (الواقعہ: ۴۷)” کہ اب جب ہم مرجائیں گے اور ہم مٹی بن جائیں گے، ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی تو پھر دوبارہ ہمیں زندہ کیا جائے گا۔دلائل کی کثرت کے باوجود آخرت کے عدم تصور کی وجہ سے اِیمان نصیب نہیں ہوا اور نہ وہ اپنی بُری حرکتوں سے باز آئے۔آج مسلمانوں میں ظلم و زیادتی، لوٹ کھسوٹ، شراب نوشی، زناکاری، سود اور رشوت خوری کا چلن اس لئے عام ہے کہ آخرت کا تصور کمزور ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کسی گرفت کا احساس ہی نہ ہو یا ہو، مگر برائے نام تو خواہشات پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ ایک طاقتور انسان جب کسی غریب پر ظلم کررہا ہو، لیکن اس کو یہ احساس ہوجائے کہ مجھ سے قیامت کے دن اس عمل کا قصاص لیا جائے گا تو یقیناً وہ اپنی حرکت سے باز آجائے گا۔ اسی طرح شراب نوشی یا زناکاری کرتے ہوئے جب اللہ کا خوف پیدا ہوجائے اور آخرت میں جواب دہی کا تصور دِل و دماغ میں بیٹھ جائے تو جسم پر لرزہ طاری ہوجائے گا اور زندگی سے چین و سکون ختم ہوجائے گا، یہاں تک کہ وہ صدق دِل سے توبہ کرلے اور اللہ کے حضور میں ندامت و شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے مغفرت کا امیدوار بن جائے۔حدیث کی تقریباً تمام کتابوں میں حضرت ماعز اسلمیؓ اور غامدیہ صحابیہ کے زنا اور توبہ کا واقعہ درج ہے۔ بشری تقاضہ اور بعض مصالح خداوندی کی بنیاد پر جب حضرت ماعز اسلمیؓ سے زنا صادر ہوگیا تو وہ آخرت کے تصور سے بے چین ہوگئے۔ پہلے حضرت ماعز اسلمی، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس عظیم گناہ سے پاک کرنے کی درخواست کی۔ وہ نتیجہ سے بے خبر نہیں تھے، انھیں معلوم تھا کہ زنا کی اِسلامی سزا شادی شدہ کے لئے رجم (سنگساری کے ذریعہ ہلاک کردینا) ہے۔ وہ چاہتے تو اس عمل بد کو چھپا دیتے، اس لئے کہ دُنیا میں اس پردۂ راز کو کوئی اُٹھانے والا نہیں تھا۔ کسی کی نگاہ بھی ان پر نہیں پڑی تھی کہ خبر کے پھیلنے کا ڈر ہو یا ذلت و رسوائی کا خوف، اِسلام نے زنا کی حد جاری کرنے کے لئے چار عینی گواہوں کو ضروری قرار دیا ہے۔