ظلم و ناانصافی پر مجرمانہ خاموشی! قابل افسوس

ازقلم:محمدطفیل ندوی
جنرل سکریٹری! امام الہندفاؤنڈیشن ممبئی

اس وقت ہماراوطن عزیزکن راہوں پر اور کن مراحل سے گذررہاہے، وہ ہماری آنکھوں کےسامنےہیں،تسلسل کیساتھ قوم مسلم کوپریشان وحراساں ہی نہیں بلکہ ان کاجانی و مالی نقصان ایسےکیاجارہاہے،جیسے انہیں کھلی چھوٹ مل گئی ہوں،روزملک کی کسی نہ کسی ریاست سے یہ افسوسناک خبر منظر عا م پرآتی ہے، مگر افسوس ہےکہ پوراطبقہ ایک خاموشی کالبادہ اوڑھےہوئےہیں ،اورایسےایسےطریقےنفرت کوانجام دینےکیلئے تلا ش کئےجارہےہیں، جو یقیناان کی دماغی قوت پاگل پن کاثبوت پیش کررہی ہے، ہلدی رام کےمسالے کی پیکیٹ پر عربی کالکھاہونا، حلال اشیاء،حجاب،آذان،مسلم تاجرین،یہاں تک کہ مسلم ڈرائیور بھی نامنظوریہ سب نفرت کےاہم موضوعات ہیں ،اوریہ صرف ایک ریاست میں نہیں بلکہ ملک کی مختلف ریاستوں میں انجام دئیےجارہےہیں،جن میں فی الوقت ،بنگال،بہار،مدھیہ پردیش، اترپردیش،گجرات، راجستھان،ممبئی شامل ہیں،ان چندایام کےاندرکیسے کیسےواقعات پیش آئیں ،مسجدوں کےمیناروں پر زبردستی چڑھ کر بھگواجھنڈالہرایاگیا،ان میناروں کونقصان پہونچایاگیا ، مساجدکےسامنےجماعت کی شکل میںمختلف اسلحہ کیساتھ تیزدھارننگی تلوارلہرائی گئیں،اس میں کوئی دورائےنہیں کہ حالیہ فلم ’’دی کشمیرفائلز‘‘نے اپنی یکطرفہ تصویردکھائی، اگریہ کہاجائے کہ’’ جھوٹ بولاہے مگربڑےسلیقے سے ‘‘توکوئی مضائقہ نہیں، اس فلم نے ملک کی سالمیت پر زبردست چوٹ ماری ہے ،مختلف طریقےسے اس کی تشہیرکی گئی ، نیوزچینلوں نے دن رات اپنی بےفضول ڈیبیٹ کے ذریعے اسے بڑھاچڑھاکرپیش کیا ،مزید وطن عزیزکے وزیراعظم ،وزیرداخلہ ودیگروزراءنے اپنے طورپراس کی تشہیرکی،اس کی ٹکیٹ مفت میں تقسیم کی گئیں،یہ فلم دیکھ کر ایک طبقہ بالکل آگ بگولہ ہوگیا چند نوجوان اپناجوش اورہوش وحواس کھوبیٹھے،تھیٹرمیں نعرےبازی کی گئی،گالیاں دی گئیں،توڑپھوڑکی گئیں،انہیں زدو کوب کیاگیالیکن وہ یہ بھول گئے کہ جنہوں نے اس فلم کو ترتیب دیاہےیاان میں جنہوں نے اپنی صلاحیت کاجلوہ بکھیراہے کیاان کے دل میں بھی ایسی ہی تڑپ ہے،کیاان کادل ان پنڈتوں کیلئے مخلص ہے ،کیاان مظلوموں کیلئے ان کےدل میں کوئی جگہ ہے، اگرصحیح دل سے سوچااورغورکیاجائے تو بالکل ان کادل ان تمام چیزوں سے خالی ملےگا جس کےچندثبوت منظرعام پربھی دیکھنےکوملیں ،ہریانہ میں ایک شخص نے اس فلم کو باضابطہ طورپر عوامی شکل میں ایک میدان کےاندر بڑی اسکرین پر دکھانےکی کوشش کی لیکن جیسے ہی یہ خبر ہدایتکارکوملی وہ خفاہوگئے،اسی طرح دہلی کے وزیراعلی اروندکیجریوال نےاسمبلی میں یہ کہا کہ فلم کیلئے ٹیکس فری کرنےکی ضرورت کیاہے؟ یوٹیوب پرڈالدوسب دیکھ لیں گےتوان کوکیاسزدی گئی وہ جگ ظاہرہے،ایک نیوز چینل نے جب ان سے پوچھا اس فلم کی کمائی کیاان پنڈتوں کودی جائےگی توانہوں نے گول مٹول جواب دےکر دامن جھاڑلیا کیوں ؟اسلئے کہ ان کی نظر مظلوم پرنہیں بلکہ فلم کی کمائی اورشہرت پر تھی ، دیکھئے اورخوب غورکیجئے کمائی کرنے والے کمائی کرکےلےگئےاوروہ داستان بیاں ہوکر اسی سردخانےمیں ڈالدیا گیا اوراس سے جو ملک میں خوفناک نتائج پیش آئیں وہ سب کے سامنے ہیں ،قومی یکجہتی کو کس طرح تہس نہس کیاگیا کسی سےچھپانہیں ہے،حالات بدسے بدترہوتےجارہے ہیں، مگر کسی پر جوں تک نہیں رینگ رہی،کوئی بولنےکوتیارنہیں ،یہ رام نومی یقینا ایک تہوار ہے،اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہےاورہونابھی نہیں چاہیے یقیناتہوار ہر مذاہب میںایک مقدس مقام رکھتاہے،چاہے وہ کوئی بھی تہوارہو،کسی بھی مذہب کاہو عیدالفطر ہو،عیدالاضحی ہو،ہولی ہو،دیوالی ہو، یادیگرتہوارلیکن تہوار کےسائے میں ایسی بیہودہ حرکتیں انجام دینابہت ہی افسوسناک عمل ہے ،یہ بات توطےشدہ ہے کہ ان تمام معاملات میںسیاست کادخل زیادہ ہے،مدھیہ پردیش کے اندر جوکچھ ہواوہ یقینا افسوسناک ہوا چاہے وہ حکومت کی جانب سے یکطرفہ کاروائی ہویا پھر آپسی تنازعات کی وجہ سے پتھراؤ لیکن حکومت بغیر کسی فیصلہ کے ان گھروں پر اپنی طاقت کی بنیادپر بلڈوزرچلاکر ان گھروں کوزمیں بوس کردیتی ہے ،کیاوہ سب گرائے گئے گھر سب کے سب مجرم کےتھے، آپ کو اس کیخلاف عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹاناچاہیےتھا آپ نے آنافانا بغیر کسی ہچکچاہٹ اورتحقیق کے بلڈوزرچلاکر سب کوبےگھرکردیا ان میں ایک وہ گھربھی ہے جو پردھان منتری یوجناکےتحت ایک خواتین نے حاصل کیا تھا اورچندماہ قبل اس کے شوہر کاانتقال بھی ہوگیاہے وہ کس طرح اپنی بےبسی کاشکوہ کررہی ہے،کیا یہ بھی ان مجرموں میں شامل تھی ،جونوجوان جیل میں بندہے اس کو بھی مجرم ثابت کرکےان کے گھرکو ریت کے ڈھیرمیں تبدیل کردیاپہلے آپ ان مجرموں کی نشاندہی کرتے وہ بھی یکطرفہ نہیں بلکہ انصاف اورحقیقت کی بنیادپر پھر ان کےخلاف کاروائی کرتےجوایک طریقہ ہے،اورہندوستان کاآئین ہے،اگریہ طریقہ اپنایاجائے گا جواپنایاگیاکسی کی طرف سے بھی توپھرہماری ملک کی عدلیہ کس لئے ہیں ، کیاانہیں صرف ایسے مظالم پر تماش بین بنادیاجائے،آپ دیکھتے رہیںہم فیصلہ کرتےہیں ،اس میں کوئی

شک نہیں کہ ملک عزیز کےاندرایسےحالات پیش کئے جارہےہیں لیکن ہماری عدلیہ بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں ،ابھی چندروزقبل مہاراشٹرانونرمان سیناکےصدرراج ٹھاکرےنےاپنی بدزبانی کااظہارکرتےہوئےآذان کیلئےلاؤڈاسپیکر نکالنےکی دھمکی دی،نہ نکالنے پر اپنےہمنواکومسجدکےقریب زوردارطریقےپرچالیسابجانےکی ہدایت کی ،ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے آپ بجائیے خوب شوق سے بجائیےآپ کی عقیدت ومحبت اپنے مذہب کی کتابوں اور ان کی عبارتوں پرتوہونی چاہیے،لیکن اس کاایک طریقہ ہے،یہ طریقہ جوآپ نے تلاش کیاہے اگرآپ تنہائیوں میں صدق دل کیساتھ سوچیں گے توآپ یہ خودکہیں گے کہ ہاں یہ طریقہ غلط ہے،یہ بات توکسی سےپوشیدہ نہیں ہے کہ موصوفکی سیاسی طاقت ختم ہوچکی ہے،بس سرخیوں میں آنےکاایک بہانہ ہے اور موجودہ دورمیں یہ سب سےقیمتی لالی پاپ ہےکہ قوم مسلم کیخلاف زہرافشانی کرواورسرخیاں حاصل کرو لیکن یادرکھناچاہیےکہ سرخیاں حاصل کرنےکیلئے بھی کچھ ہوناضروری ہے ،ایک وقت تھا کہ جب موصوف کی طوطی بولتی تھی مگران کےجارحانہ تیوراور غرباءومساکین ولاچارکیساتھ بدسلوکی نے ان کی بلندوبالاآوازکو سردخانےمیں ڈالدیا اسی اثرورسوخ کوحاصل کرنے کیلئے پھڑپھڑاتےہوئے پرندےکی طرح ہاتھ پاؤں ماررہےہیں ،لیکن انہیں کامیابی حاصل نہیں ہورہی ہے،یہی وجہ ہےکہ انہوں نے اپنی پارٹی کاجھنڈا بھی بدل کر ایسے رنگ میں تبدیل کیا جس سے تھوڑی بہت کامیابی ملیں مگر پھربھی کامیابی نے دوری کاراستہ دکھایا،اسی طرح اترپردیش میں بھگو اپوش مہنت بجرنگ منی داس نے مسلم خواتین کی عصمت دری کےبارے میں ایسابیہودہ بیان دیا جس سےنہ صرف وہ اپنے مذہب کو شرمسارکیابلکہ ملک کی سالمیت اور اس کی قومی یکجہتی کوزبردست نقصان پہونچایا ہے مگرافسوس ہےکہ وہ ایسے بیانات سرعام دےکر چلاجاتاہے،سب سے پہلے تو ان کی قوم کو اس سے یہ بازپرس کرنی چاہئےکہ تمہاری زبان اتنی گندگی سے لت پت کیوں ہے،تمہیں نہیں معلوم تم کس حیثیت سے اپنی قوم کی رہنمائی کررہے ہو، ایک مہنت اورزبان ایسی بیہودہ ،تمہاراضمیر خواتین کے سلسلےمیں ایسا بدبودارہےکیایہی تعلیم ہے،کیاہماری تعلیم میں اس کی اجازت ہے کہ ہم اپنی خواتین کےعلاوہ دوسرےمذاہب کی خواتین کیلئے یہ طریقہ اختیارکریں ،لیکن کیاکریں سب خاموش ہے،ان میں ہمارے وہ نظماءوقائدین بھی ہیں جن کی قیادت نےامت مسلمہ کو مایوسی کے کٹہرےمیں ڈالدیاہے ان کی زبان بالکل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،قوم مسلم کے گھرجلائے جارہےہیں ، ان کے گھروں کو اپنی طاقت کے اورحکومت کی پشت پناہی میں بلڈزروں سے تہس نہس کیاجارہاہے،پولس کادستہ ان کیساتھ ہے، ایسالگتاہےکہ شاید ان کی نظروں کےسامنے یہ حالات پیش نہیں کئے جارہےہیں ،اگریہ عذرہے تویہ امت مسلمہ کی بدقسمتی ہے کہ ایسے قائدین کوقیادت کی ذمہ داری دی، اوراگریہ عذرنہیں تو ہمیں بےانتہاءافسوس ہےکہ ہماری حالات زاردن بدن دگرگوں ہوتی جارہی ہے لیکن وہ اپنی خاموشی پرمزیدچادراوڑھے جارہےہیں ،بات صرف لیٹرہیڈ اوراپنی جگہ پر بیٹھ کر مذمتی بیان دینانہیں ہےبلکہ منظم طورپر ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اورجہاں جہاں مظالم کی داستان قلم وقرطاس کی جارہی ہےوہاں کے وزیراعلی ودیگروزراء کیساتھ ملاقات کی جائیں،انہیں اس بات پرزوردیا جائے کہ یہ ظلم آپ کےاقتدارمیں ہورہے ، اسے روکناآپ پرفرض ہے،وہاں کی اپوزیشن جماعت سے ملےاورانہیں اس بات سے آگاہ کریں کہ یہ مظالم جو پیش ہورےہیں ،انہیں روکنےکی آپ بھی کوشش کریں ،صرف انتخابات کےوقت نمودارہوکر خوش فہمی کےوعدے کرنیکانہیں بلکہ اس وقت آپ کایہ کام ہےکہ آپ آگےآئیں، ابھی چند ماہ قبل جب حضرت مولانامحمدکلیم صدیقی صاحب گرفتارکئے گئے اس وقت بھی کوئی قابل لائحہ عمل طےنہیں ہوسکااورہمیں افسوس ہےکہ اب تک وہ قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کررہےہیں، اس وقت شاہی امام پنجاب حضرت مولانامحمد عثمان صاحب لدھیانوی نے ان تمام نظماءوقائدین سے سوال کیاتھا کہ کیاان کی گرفتاری پر ہم نے کوئی منظم کمیٹی بناکرایک جماعت کی شکل میں وزیراعلی سےملاقات کرنےکی زحمت کی ،صرف ہم نے لیٹرہیڈ پر مذمتی بیان جاری کردیا اوراپنی ذمہ داری سے سبکدوشی لےلی ،کیاہماری ذمہ داری صرف اتنی ہے ،یادرکھناچاہیے کہ یہ وقت صرف بزرگی ظاہرکرنےکا نہیں بلکہ مردانگی کےجلوے دکھانےکاہے،حالات اشارہ دےرہےہیں اورتمام جامدوساکت خانقاہوں اوربزرگی ظاہر کرنیوالی تحریکوں کیلئے پیغام عمل ہے کہ یہ وقت بیٹھ کر صرف مراقبہ کرنے اورجماعت میں نکل جانےکانہیں بلکہ ظلم کیخلاف اٹھ کھڑے ہونے کاہے ،وجود کی اس لڑائی میں مظلوم تسبیح لےکر بیٹھ جائیں اوردفاع کی کوئی کوشش نہ کریں تو یہ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے روگردانی ہوگی ،میں سلا م پیش کرتاہوں ان تمام کو جوایسے حالات پر اپنی بیباکی کاثبوت پیش کررہےہیں،اور اپنی آوازبلند کرکے ان ظالموں سے بیباکانہ سوال کرر ہےہیں۔