ہم سب واقف ہیں کہ ملک عزیز ہندوستان سے ہمارا عروج و ارتقاء، اور مسلم سلطنت و اقتدار کا خاتمہ تن کے گورے من کے کالے انگریزوں کے ہاتھ ہوا،اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی بساط بھر کوشش کی کہ انگریزوں کا اقتدار اور غلبہ ختم کرکے مسلم اقتدار اور سلطنت و حکومت کی بازیابی کریں ،اس مقصد کے لیے بھر پور جد و جہد اور معرکہ ہائے جہاد برپا ہوئے ،لیکن مسلمانان ہند انگریزوں کو مغلوب اور بے دخل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ،اس کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں نے برداران وطن کو بھی اپنے ساتھ لیا اور منظم طریقے سے دوبارہ آزادی کی تحریکیں چلائیں اور آزادی کا سورج طلوع ہونے کے بعد سوء اتفاق یہاں سیکولر اور جمہوری حکومت کی تشکیل ہوئی اور پھر ملک کے لیے ایک سیکولر دستور ،،دستور ہند،، کے نام سے منظور ہوا ،جس میں تمام مذاہبِ ،اقوام اور اقلیتوں کو مساوی اور یکساں حیثیت دی گئی ، موجودہ حالات میں ہندوستان کے مسلمانوں پر اب یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دستور میں دی گئی آزادی کے مطابق اپنی دینی اور دنیوی ترقیات کے لیے سعی و کوشش کریں ،اپنے پرسنل لا پر عمل کریں ،علمی تعلیمی اور ملی اقدامات کرتے رہیں ،اپنا داعیانہ کردار پورا کریں اور تعلیم و تربیت کے میدان میں منظم کوشش کے ساتھ دعوت و تبلیغ کے وسیع امکانات کو استعمال کرتے ہوئے برداران وطن تک پیغام حق و صداقت پہنچائیں نیز اپنے ملی تشخص کی بقا اور وجود کے لیے آئین میں دئے گئے حقوق کی روشنی میں کوشش کرتے رہیں ۔
آپ سوال کر سکتے ہیں کہ کیا سیکولرزم اور جمہوریت کی تعبیر درست ہے اور کیا یہ طریقہء حکومت اور انداز سلطنت اسلام کے مزاج کے خلاف نہیں ہے ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ دور حاضر میں مروجہ جمہوریت اور سیکولرزم کے تصورات و نظریات اسلامی تعلیمات سے یقینا جوڑ نہیں کھاتے ،یہ کسی طرح اسلام کے مزاج اور نظام حکومت و خلافت کے مطابق نہیں ہے ،اس سے بڑی کوئی گمراہی نہیں ہوگی کہ انہیں اسلامی نظریات سمجھ کر قبول کر لیا جائے ،لیکن یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ شریعت کا ایک قاعدہ ہے کہ
،، من ابلتی ببلیتین فلیختر اھونھما ،، اس قاعدہ اور اصول کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ اگر دو برائیوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ناگزیر ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان دونوں میں جو ہلکی برائی ہے اس کو اختیار کیا جائے ۔
جمہوری اور سیکولر ملکوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں نظام اسلامی کو جاری کرنے کی سکت اور پوزیشن میں نہیں ہیں اور نہ بظاہر مستقبل قریب میں اس پوزیشن میں آنے کی امید ہے وہاں دو ہی امکان ہیں 1/ سیکولر جمہوری حکومت قائم ہو
2/ مذہبی یا غیر مذہبی آمریت/ ڈکٹیٹر قائم ہو
ایسے ممالک میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنا وزن، طاقت اور اثر و رسوخ جمہوری حکومت کے پلرے میں ڈالیں ،جمہوری حکومت کو مضبوط کریں اور اسے فروغ دیں ،کیونکہ دونوں برائیوں میں ہلکی برائی یہی ہے ۔ اگر مسلمان تماشہ بین بنے رہے اور ان کے گوشہ نشین رہنے اور کنارے کھڑے ہونے کی وجہ سے مذہبی یا غیر مذہبی آمریت کو حکومت و سیاست میں آنے کا موقع مل گیا تو گویا انہوں نے بڑی برائی کو دعوت دی ،سیکولر جمہوری حکومت کی تائید اس لیے نہیں ہے کہ سیکولرزم اور جمہوریت اسلامی تعبیر و تشریح اور شرعی چیزیں نہیں ہیں، بلکہ صرف اس لیے اس کی موافقت اور تائید کی جائے گی کہ ڈکٹیٹر و آمریت کے مقابلے میں جمہوریت و سیکولرزم یہ چھوٹی برائی ہے ،جمہوری نظام میں مسلمانوں کو ضرور اس کا موقع ملے گا کہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے ذریعہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کریں اور تحریر و تقریر کی آزادیوں سے فائدہ اٹھا کر اسلامی معاشرتی اقدار کی ترویج کے لئے فضا کو ہموار کریں ۔
سلطان العلماء شیخ عز الدین عبد السلام رح (متوفی 660) نے اپنی مشہور کتاب قواعد الاحکام فی مصالح الانام میں بڑی وضاحت کیساتھ ایسے متعدد مشکل مسائل کی گرہ کشائی کی ہے ۔ موصوف نے جو کچھ لکھا ہے ہم یہاں اس کا ترجمہ پیش کرتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں ،،
” امامت کے دعویداروں میں اگر فسق کے مراتب متفاوت ہوں تو ان میں سے جس کا فسق سب سے ہلکا ہو اسے ہم آگے بڑھائیں گے ،مثلا ایک کے فسق کی نوعیت یہ ہے کہ وہ بے گناہوں کو قتل کر دیتا ہے ،دوسرے کے فسق کی نوعیت یہ ہے کہ وہ عورتوں کی ابرو لوٹتا ہے اور تیسرے کے فسق کی نوعیت یہ ہے کہ وہ لوگوں کا مال ناجائز طریقہ پر لے لیتا ہے ،تو ہم مال لینے والے کو بے گناہوں کا خون کرنے والے اور عزت لوٹنے والے پر مقدم رکھیں گے ،اگر اسے اقتدار میں لانا دشوار ہو تو عورتوں کی آبرو لوٹنے والے کو بے گناہوں کا خون کرنے والے پر مقدم رکھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔اگر سوال یہ کیا جائے کہ کیا ان دونوں میں سے کسی ایک کی حکومت قائم کرنے یا حکومت باقی رکھنے کے لیے اس کے ساتھ قتال کرنا جائز ہوگا ،حالانکہ ایسا کرنا اس کے گناہ میں اس کی اعانت ہوگی ؟ تو میں کہوں گا ،ہاں قتال کرنا جائز ہوگا تاکہ زیادہ سے زیادہ بڑے فساد کو روکا جاسکے ۔ کیونکہ دونوں کے فسق کے مفاسد میں تفاوت اور فرق ہے ،یہاں ایک توقف اور اشکال ہے ،اس اعتبار سے کہ ہم ہتک حرمت کے مفسدہ کو دور کرنے کے لیے اس ظالم کی مدد کر رہے ہیں جو لوگوں کا مال ناحق لے لیتا ہے اور یہ معصیت ہے ،اسی طرح ہم بے گناہوں کے خون کے مفسدہ کو دور کرنے کے لیے ہتک حرمت کرنے والے کی اعانت کر رہے ہیں ،حالانکہ یہ معصیت ہے ،لیکن اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ کبھی کبھی معصیت پر اعانت جائز ہوتی ہے ، اس کی معصیت ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ وہ معصیت ایک راجح مصلحت کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ،اسی طرح اگر معصیت پر اعانت کرنے سے ایسی مصلحت حاصل ہو رہی ہو جو مفسدہ کو فوت کرنے کی مصلحت سے بڑھ کر ہو مثلاً کافروں اور فاجروں کے چنگل سے آزاد مسلمان قیدیوں کو چھڑانے کے لیے بطور فدیہ مال دینا ” (ماخوذ و مستفاد از سہ ماہی بحث و نظر شمارہ جنوری تا مارچ 2001ء مطابق شوال ۔ ذی الحجہ 1421ھج)
حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی رح فرماتے ہیں ،،
،، اور یہ شرعی اور عقلی قاعدہ ہے کہ جس جگہ دو قسم کے ضرر / نقصان جمع ہوں ،ایک اشد یعنی سنگین دوسرا اھون یعنی کم درجہ کا تو اھون کو اختیار کر لینا چاہیے ،یعنی جہاں دونوں شقوں میں مفسدہ ہو مگر ایک میں اشد ایک میں اخف تو اشد سے بچنے کے لیے یا اس کو دفع کرنے کے لیے اخف یعنی ہلکے کو گوارہ کر لیا جاتا ہے ،اور ہے تو یہ بھی برا مگر دوسرے مفسدہ کے مقابلہ میں پھر اخف یعنی ہلکا ہے ۔ (
(مروجہ سیاست کے شرعی احکام ،ص، 34/ مرتب مفتی محمد زید مظاہری ندوی )
کسی غیر مسلم ملک میں غیر مسلموں کی آمریت کو جمہوریت کے مقابلہ میں ترجیح نہیں دینا چاہئے ،کیونکہ جہاں دو برائیوں میں سے ایک برائی کو اختیار کرنا ناگزیر ہو جائے وہاں مسلمانوں پر لازم ہے کہ دونوں میں جو ہلکی برائی ہو اس کو اختیار کرے اور جمہوریت بہر حال غیر مسلم مذہبی آمریت سے ہلکی برائی ہے ۔۔ (مستفاد از تحریر مولانا عتیق احمد بستوی)
تحریر: محمد قمر الزماں ندوی
استاذ/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725
نوٹ / مضمون کا اگلا اور اصل حصہ کل ملاحظہ فرمائیں، آج تو صرف تمہیدی باتیں آسکی ہیں۔