یحییٰ سنوار کا تعلق فلسطین کے ایک مشہور سیاسی اور عسکری رہنما و قائد کے طور پر ہوتا ہے، جو حماس تنظیم میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ان کی پیدائش 1962 میں خان یونس، غزہ پٹی میں ہوئی۔ انہوں نے اپنی زندگی فلسطینی حقوق کے دفاع اور آزادی کے لیے وقف کر دی تھی۔ یحییٰ سنوارنے ابتدائی تعلیم غزہ میں حاصل کی اور بعد میں جامعہ اسلامیہ سے اسلامیات میں ڈگری حاصل کی۔ یحییٰ سنوار کا نام اس وقت سامنے آیا جب وہ حماس کے بانی اراکین میں شامل ہوئے۔ انہوں نے اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کیا اور فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر محاذ پر آواز اٹھائی۔ ان کی عسکری حکمت عملی اور قائدانہ صلاحیتوں نے حماس کو فلسطینی عوام میں مزید مقبول بنایا۔ انہیں 1989 میں اسرائیل نے گرفتار کیا اور قید میں ڈالا، جہاں انہوں نے تقریباً 23 سال گزارے۔
قید کے دوران، یحییٰ سنوارنے اپنی مضبوطی اور عزم کا مظاہرہ کیا، جس نے فلسطینی تحریک آزادی کے لیے ان کی اہمیت کو مزید اجاگر کردیا۔ 2011 میں، انہیں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت رہائی ملی، اور اس کے بعد سے وہ حماس کے عسکری و سیاسی شعبے کی قیادت میں اہم کردار ادا کیے۔ یحییٰ سنوارکی قیادت میں حماس نے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے متعدد اقدامات کیے، اور وہ آج بھی اپنے مضبوط ارادے اور مستقل مزاجی کی وجہ سے فلسطینی عوام میں مشہور و مقبول ہیں۔
یحییٰ سنوار کی زندگی اور جدوجہد نوجوانوں کے لیے ایک مثال ہے کہ کیسے عزم، حوصلے، اور ایمان کے ذریعے ایک شخص اپنی قوم کی خدمت کر سکتا ہے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی مشکل سے نہیں گھبراتا۔
یحییٰ سنوار کا بچپن غزہ کے خان یونس شہر میں گزرا، جو فلسطین کے ان علاقوں میں سے ہے جہاں غربت، جدوجہد، اور مشکلات روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔ ان کا تعلق ایک معمولی فلسطینی خاندان سے تھا، اور وہ ان مشکلات کو قریب سے دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے جو فلسطینی عوام کو درپیش تھی۔ ان کے بچپن میں ہی اسرائیلی قابض افواج اور فلسطینیوں کے درمیان جاری کشیدگی نے ان کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ تعلیم کے حوالے سے، یحییٰ سنوار نے اپنی ابتدائی تعلیم غزہ کے اسکولوں میں حاصل کی، جہاں انہوں نے خود کو ایک ذہین اور محنتی طالب علم کے طور پر منوایا۔ غزہ کے سخت حالات میں بھی انہوں نے تعلیم کو ترجیح دی اور اپنی محنت سے یہ ثابت کیا کہ اگر ارادہ پختہ ہو تو مشکلات کبھی رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔ بعد میں انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی (جامعہ اسلامیہ) سے اسلامیات میں ڈگری حاصل کی۔ جامعہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران، یحییٰ سنوارنے اسلامی تعلیمات اور فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا، جو ان کے سیاسی اور نظریاتی افکار کی بنیاد بنا۔
یونیورسٹی کے دوران ان کا رجحان اسلامی تحریکوں کی طرف بڑھا، اور یہاں ان کی ملاقات حماس کے بانی رہنماؤں سے ہوئی۔ جامعہ اسلامیہ میں ان کا تعلیمی سفر صرف علم حاصل کرنے تک محدود نہیں تھی بلکہ یہاں انہوں نے نظریاتی اور عملی تربیت بھی حاصل کی، جس نے انہیں فلسطینی تحریک آزادی میں فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دی۔ تعلیم کے اس مرحلے پر، یحییٰ سنوارنے اپنی زندگی کا مقصد طے کر لیا کہ وہ اپنی قوم کی آزادی کے لیے کوشش کریں گے۔ ان کے بچپن اور تعلیم کے اس سفر نے ان کی شخصیت میں وہ عزم اور حوصلہ پیدا کیا جس کی بدولت وہ بعد میں حماس کے اہم رہنما اور فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے مشعل راہ بنے۔
یحییٰ سنوارنے فلسطینی حقوق کی پاسداری میں اپنا کردار اس وقت شروع کیا جب ان کی عمر بہت کم تھی۔ انہوں نے اسرائیلی قابض افواج کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت کو قریب سے دیکھا اور اسی ماحول میں ان کی سوچ میں آزادی کا جذبہ پروان چڑھا۔ 1980 کی دہائی میں، انہوں نے حماس تحریک کے ساتھ اپنی وابستگی کا آغاز کیا، جو فلسطینی آزادی کے لیے ایک اسلامی مزاحمتی تحریک تھی اور اب بھی ہے۔ حماس کی بنیاد رکھنے والوں میں یحییٰ سنوار بھی شامل تھے، اور انہوں نے اپنی صلاحیتوں اور عزم سے تحریک کو ایک مضبوط مزاحمتی قوت میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
حماس میں شمولیت کے بعد، یحییٰ سنوار نے عسکری اور سیاسی دونوں محاذوں پر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ انہیں ایک ذہین، جرات مند، اور نڈر رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے جو ہر مشکل صورتحال میں ثابت قدم رہے۔ انہوں نے فلسطینی تحریک کے مقصد کو مضبوط بنانے کے لیے غیر معمولی حکمت عملی اپنائی، جس سے حماس کو فلسطینی عوام میں مزید مقبولیت حاصل ہوئی۔ سنوارنے حماس کے عسکری ونگ ”عزالدین القسام بریگیڈ“ میں نمایاں کردار ادا کیا، جس کے تحت انہوں نے اسرائیلی فوجیوں کے خلاف کاروائیاں کرنے میں اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔1989 میں، اسرائیلی افواج نے یحییٰ سنوار کو گرفتار کر لیا۔ ان پر کئی الزامات عائد کیے گئے اور انہیں طویل قید کی سزا سنائی گئی۔ دوران قید، انہوں نے اپنے عزم اور حوصلے سے دیگر فلسطینی قیدیوں کو بھی حوصلہ دیا اور اپنے نظریات پر قائم رہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید کے دوران ان کا کردار فلسطینی تحریک کے لیے مثال بنا، اور وہ فلسطینی عوام میں بطور ہیرو مشہور ہوئے۔
یحییٰ سنوار کی سیاسی تحریکوں میں شمولیت نے انہیں فلسطینی عوام کا محبوب رہنما بنایا۔ ان کی ثابت قدمی اور مقصد کے لیے قربانی نے ان کی شخصیت کو ایک مشعل راہ کی حیثیت دی، جس سے فلسطینی عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اپنی آزادی اور حقوق کے لیے مستقل مزاجی اور قربانی کے ساتھ جدو جہد جاری رکھنا ہی کامیابی کا راستہ ہے۔یحییٰ سنوار نے حماس کے ساتھ ایک قائدانہ کردار نبھاتے ہوئے تنظیم کو ایک مضبوط عسکری اور سیاسی قوت میں تبدیل کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ حماس کے ابتدائی رہنماؤں میں شمار ہونے کے ناطے، سنوارنے تنظیم کی بنیاد مضبوط بنانے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کر دی۔ اسرائیلی جیل میں قید کے دوران بھی، سنوارنے فلسطینی عوام اور تحریک کے ساتھ اپنے تعلق کو قائم رکھا اور اپنی رہائی کے بعد انہوں نے حماس میں ایک نئے عزم کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
یحییٰ سنوار نے حماس کے عسکری ونگ ”عزالدین القسام بریگیڈ“ کی تنظیم نو میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اسرائیل کے خلاف مزاحمتی حکمت عملیوں کو جدید بنایا اور حماس کی عسکری صلاحیتوں کو بہتر بنایا۔ ان کی قیادت میں عزالدین القسام بریگیڈ نے جدید ترین حربے اپنائے، جیسے زیرزمین سرنگوں کا استعمال، اور اسرائیلی حملوں کے خلاف مؤثر دفاعی نظام وضع کیا۔ سنوارنے حماس کو ایک ایسی قوت بنا دیا جو نہ صرف اسرائیل بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی فلسطینی حقوق کی آواز بن گئی۔
یحییٰ سنوار نے حماس کے سیاسی ونگ میں بھی قائدانہ کردار ادا کیا، اور حماس کی پالیسیوں کو فلسطینی عوام کے حقوق اور آزادی کی جدوجہد کے مطابق ترتیب دیا۔ 2017 میں، انہیں غزہ پٹی میں حماس کا اعلیٰ قائد مقرر کیا گیا، جس نے انہیں حماس کے اندر ایک اہم مقام پر پہنچا دیا۔ اس حیثیت میں انہوں نے غزہ کے عوام کے مسائل، جیسے کہ معاشی مشکلات، بنیادی سہولیات کی فراہمی، اور تعمیر نو پر خاص توجہ دی۔ ان کی کوشش رہی کہ حماس کے نظریات کو فلسطینی عوام کے روزمرہ مسائل سے جوڑ کر حل کیا جائے۔
یحییٰ سنوارکا قائدانہ کردار ان کی پالیسیوں میں بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کو ایک حکمت عملی کے طور پر استعمال کرتے رہے، جس کا مقصد غزہ کے محصور عوام کے لیے کچھ ریلیف حاصل کرنا تھا۔ وہ جنگی اور عسکری حکمت عملی کے ساتھ ساتھ سفارتکاری کا بھی استعمال کرتے رہے۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ کچھ معاملات پر وقتی معاہدے کیے، جیسے کہ فائر بندی، تاکہ فلسطینی عوام کو فوری ریلیف فراہم کیا جا سکے۔سنوار کی قیادت میں حماس نے فلسطینی گروپوں کے اتحاد پر زور دیا۔ انہوں نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) اور فتح تحریک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی، تاکہ فلسطینیوں کی اجتماعی قوت کو مضبوط کیا جا سکے اور اسرائیلی قبضے کے خلاف مشترکہ جدوجہد کو تقویت دی جا سکے۔ سنوارکی سوچ یہ تھی کہ فلسطینی عوام کے حقوق کی جدوجہد کو کامیاب بنانے کے لیے تمام فلسطینی گروہوں کو ایک صف میں کھڑا ہونا ہوگا۔
یحییٰ سنوار نے نوجوان نسل کو حماس کی تحریک میں شامل کرنے کے لیے بھرپور اقدامات کیے۔ وہ نوجوانوں کو تنظیم کے مستقبل کا ستون سمجھتے تھے اور انہیں آزادی کی جدوجہد میں شامل کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی قائدانہ حکمت عملیوں نے فلسطینی نوجوانوں کو حماس کی طرف راغب کیا اور انہیں اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا۔
یحییٰ سنوار کی قائدانہ قیادت نے حماس کو نہ صرف عسکری بلکہ سیاسی طور پر بھی مضبوط بنایا ہے۔ ان کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں نے فلسطینی عوام کے دلوں میں ان کے لیے محبت اور احترام پیدا کیا ہے۔ یحییٰ سنوار کا قائدانہ کردار، جس میں عزم، حوصلہ، اور فلسطینی حقوق کے لیے ان کی غیر متزلزل وابستگی شامل ہے، جو فلسطینی تحریک آزادی کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔
یحییٰ سنوار انسانی حقوق اور فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے اپنے عزم اور جدو جہد کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کی قیادت میں حماس نے نہ صرف عسکری میدان میں بلکہ سماجی اور انسانی حقوق کے حوالے سے بھی اہم اقدامات کیے ہیں۔ سنوارکا ماننا تھاکہ فلسطینی عوام کو ان کا بنیادی حق ملنا چاہیے، جس میں آزادی، مساوات، اور بنیادی ضروریات کی فراہمی شامل ہو۔ ان کی جدوجہد کا مقصد فلسطینی عوام کو ان حقوق تک پہنچانا تھا جو انہیں عالمی قوانین کے تحت حاصل ہونی چاہیے۔سنوارنے بارہا عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کی طرف متوجہ کیا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں، جیسے کہ غیر قانونی آبادکاری، فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ، اور انہیں ان کے گھروں سے بے دخل کرنے جیسے اقدامات کی بھرپور مذمت کی ہے۔ ان کے نزدیک یہ اقدامات انسانی حقوق کے عالمی اصولوں کے خلاف تھی اور وہ دنیا کو اس بارے میں آگاہ کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کرتے رہے اور آخر کار اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔
یحییٰ سنوارنے فلسطینی قیدیوں کے حقوق کے لیے بھی سرگرمی دکھائی ہے، جو اسرائیلی جیلوں میں غیر انسانی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ خود بھی اسرائیلی قید میں طویل عرصہ گزار چکے تھے، اس لیے قیدیوں کی مشکلات کو قریب سے جانتے تھے۔ انہوں نے قیدیوں کے حق میں آواز بلند کی اور ان کی آزادی کے لیے متعدد مواقع پر مذاکرات کیے۔ ان کی قیادت میں حماس نے کئی بار اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کیے تاکہ فلسطینی قیدیوں کو رہائی دلائی جا سکے۔سنوار کی قیادت میں حماس نے غزہ میں انسانی بنیادوں پر بھی متعدد منصوبے شروع کیے۔ ان منصوبوں میں صحت، تعلیم، اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کے اقدامات شامل ہیں۔ غزہ کے عوام کو اسرائیلی پابندیوں اور محاصروں کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ سنوارنے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کیے اور انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے عالمی سطح پر امداد کو راغب کیا۔ ان کی کوشش رہی کہ فلسطینی عوام کو ایک باعزت زندگی گزارنے کے مواقع ملیں۔
یحییٰ سنوار نے فلسطینی خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے بھی اپنی جدو جہد جاری رکھی۔ فلسطینی تنازعے کے باعث سب سے زیادہ متاثرہ افراد میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ سنوارنے حماس کے ذریعے خواتین کے لیے تربیتی اور تعلیمی پروگرامز شروع کیے، تاکہ وہ اپنی اور اپنی نسلوں کی فلاح کے لیے آگے بڑھ سکیں۔ انہوں نے بچوں کی تعلیم، صحت، اور مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے منصوبے تشکیل دیے تاکہ فلسطینی معاشرے کا مستقبل بہتر ہو سکے۔سنوار نے عالمی برادری اور اقوام متحدہ جیسے اداروں سے اپیل کی کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کریں۔ وہ دنیا کے مختلف ممالک سے فلسطین کے حوالے سے انصاف کی فراہمی اور اسرائیل کے خلاف دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرتے رہے، تاکہ فلسطینی عوام کو ان کی زندگی کے حقوق مل سکے۔
یحییٰ سنوار کا انسانی حقوق اور فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت میں کردار انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے ہر ممکنہ ذریعہ استعمال کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے۔ یحییٰ سنوار کی یہ جدو جہد فلسطینیوں کے لیے ایک روشنی کی مانند ہے، جس سے انہیں یہ پیغام ملتا ہے کہ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کا عزم اور ثابت قدمی ہی اصل کامیابی کی راہ ہے۔
سنوار کی قیادت میں حماس نے کئی اہم شعبوں میں ترقی کی ہے، جس میں عسکری طاقت، عوامی حمایت، سماجی خدمات، اور سیاسی حکمت عملی شامل ہیں۔ سنوار کی قیادت نے حماس کو ایک ایسی مضبوط اور مربوط تنظیم میں تبدیل کیا ہے جس نے فلسطینی عوام کے حقوق اور آزادی کے حصول کی جدوجہد کو نہایت مؤثر انداز میں آگے بڑھایا ہے اور یہ میشن تاقیامت آگے بڑھتا رہے گا۔ اور کہتے ہیں نہ کہ شہید مرتانہیں بلکہ تاریخ اسے اپنے اندر مدت مدید کے لیے محفوظ کر لیتی ہے۔
ترتیب: محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ
رابطہ نمبر:9037099731
دارالہدی اسلامک یونیورسٹی، ملاپرم، کیرالا