تاکیدات یعنی توحید، رسالت،* تقدیر اور بعث و نشر اور ترہیبات یعنی گناہوں کی وعیدات و عذابات کے علاوہ امن و سلامتی کا سب سے بڑا داعی دین اسلام کے فرائض و واجبات اور دیگر احکامات میں تیسیر وآسانی کا پہلو غالب ہے ۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرور عالمیاںؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں ابراہیمؑ حنیف کی ملت اور آسان شریعت دیکر بھیجا گیا ہوں۔ جب بھی اللہ تعالی صاحب ایمان کو یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ سے خطاب کرکے کسی عبادت بالخصوص روزہ یا جہاد کا حکم دیتا ہے تو عبادت سے متعلق احکام شاقہ کا بارگراں اور ان کی انتہائی سختی، زحمت، مشقت اور تکان از خود ختم ہوجاتی ہے اس کے باوجود کرم بالائے کرم اللہ تعالی کا اپنے بندوں کو یہ فرمانا کہ میں حکمِ عبادات کے ذریعہ تمہارے لیے کوئی تنگی و سنگینی نہیں چاہتا ان اثر آفریں کلمات سے عبادات کی شدت و مشقت مبدل بہ فرحت و لذت ہوجاتی ہے اور بندہ کے دل اور اعمال میں خفیہ و لطیف انداز سے داخل ہونے والے شیطانی افکار و خیالات ختم ہوجاتے ہیں۔ بندہ پروراور ذرہ نواز رب کریم کے اس خطاب جلیل میں انسان کے لیے راحت و مسرت اور سکون و اطمینان کا پیغام ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دین اسلام اپنے ماننے والوں کو کسی ایسے سخت حکم کا مکلف نہیں بناتا جسے انسان اپنی فطری ضعف اور کمزوریوں کے باعث برداشت نہ کرسکے ۔ شریعت اسلامیہ کا ہر حکم اسی حقیقت کا آئینہ دار ہے۔ ہر عقل سلیم رکھنے والا اس حقیقت کو تسلیم کرے گا کہ کثیر منفعت کے حامل شرعی احکامات قطعاً شاق اور تلخ نہیں بلکہ وہ انسانی فطرت سے مکمل ہم آہنگ، انسانی مزاج و طبیعت کے عین مطابق اور ارتقاء و تکامل کا ذریعہ ہیں۔ شرعی احکام کا مقصود بندوں کو تنگ کرنا یا تکلیف دینا نہیں بلکہ شریعت مصطفویؐ کا ہر حکم انسان کے لیے دنیا و آخرت میں راحت و آسائش اور آرام و کشادگی کا باعث ہے۔ قادر مطلق ہونے کے باوجود بندوں کی وسعت کے مطابق حکم دینا، بشری طاقت سے ماوراء کوئی ذمہ داری عائد نہ کرنا، خطا و نسیاں اور نفوس و قلوب کی پوشیدہ باتوں پر گرفت و مواخذہ نہ فرمانا، حکمت بالغہ اور رحمت کاملہ سے بندوں کو احکام شریعت کا بتدریج مکلف بنانا، پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرنے کی سہولت دینا، مرض میں اضافہ کا اندیشہ ہو تو غسل کی بجائے تیمم کرنے کی رعایت دینا، قیام کی طاقت نہ رکھنے والوں کو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمانا، حالت سفر میں قصر نماز ادا کرنے کا حکم دیکر سہولت کو مرعی رکھنا، ماہ رمضان المبارک جو رب ذو الجلال کی خیرات و برکاتِ ذاتیہ کا مظہر اتم ہے اس کے روزوں کے بے شمار فضائل کے باوجود بدقت تمام روزہ رکھنے پر قادر نہ ہونے والے افراد جیسے شیخ فانی و عاجز معمر حضرات، دائم المریض، حاملہ و دودھ پلانے والی خواتین کو فدیہ ادا کرنے کی رعایت دینا، بیماریوں اور مسافروں کو دیگر ایام میں روزوں کی قضا کرنے کا موقع دینا، زکوٰٰۃ اور حج کی فرضیت کو استطاعت کے ساتھ مشروط رکھنا، طبعی خواہش پوری کرنے کے لیے جائز طریقے تجویز کرنا، اضطراری حالت میں بقدر ضرورت ممنوعہ اشیاء استعمال کرنے کی اجازت دینا، نفلی کاموں میںآسانی پیدا کرنے کا حکم دیناوغیرہ دین اسلام کے اصول تیسیر کی واضح دلیل ہے۔ جس دین میں اتنی آسانی اور سہولت رکھی گئی ہے دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ مسلمان زندگی کے تمام معاملات سہل طریقے سے انجام دیں لوگوں کے ساتھ نرمی اور آسانی کے ساتھ پیش آئیں۔ لیکن مسلم معاشرے پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے یہ ناقابل تردید حقیقت کا پہلو سامنے آجاتا ہے کہ ہر کوئی دوسرے کی زندگی کو اجیرن بنانے میں مصروف ہے پھر اللہ تعالی کی ذات سے امید بھی رکھتا ہے کہ اس کی زندگی آسان اور خوشگوار ہوجائے۔ ہماری یہ خواہش ایسے ہی ہے جیسے کوئی تنور میں بیٹھ کر ٹھنڈک کی آرزو و تمنا کرے جو کبھی پوری ہونے والی نہیں ہے۔ وہی شخص حقیقی مومن کہلانے کا مستحق ہوگا جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق لوگوں کی زندگیوں میں آسانی پیدا کرے نہ کہ ان کی زندگی میں رکاوٹ کا باعث بنے۔ لیکن آج اکثر مسلمانوں کا ایمان کمزور ہوچکا ہے او وہ شیطانی افکار و خیالات کا شکار ہوچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روح یعنی تیسیر و آسانی کے خلاف ہر کوئی ایک دوسرے کو تکلیف دینے ، اذیت پہچانے اور رکاوٹیں پیدا کرنے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیںکہ دین اسلام میں تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے جس کا تقاضہ یہ تھا کہ مسلمان ہر لمحہ تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کرتا لیکن دنیاوی حرص اور مال و دولت کی لالچ نے ہمیں اس قدر اندھا بنادیا ہے کہ ہم تعلیمی ادارے طلباء میں علمی افکار و اخلاقی اقدار پیدا کرنے کی بجائے محض تجارتی خطوط پر چلارہے ہیں ۔ طلباء کے سرپرستوں سے یہ کہتے ہوئے خطیر رقومات وصول کی جاتی ہیںکہ ہمیں تعلیم یافتہ اساتذہ کی تنخواہیں دینا ہوتا ہے ۔ ہماری اس غلط روش کے باعث غریب اور مفلوک الحال بچوں کے لیے تعلیم کا حصول تقریباً محال بن چکا ہے اور دوسری طرف اساتذہ کے تقرر کے وقت اس بات کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے کہ کم سے کم مشاہرے میں اساتذہ کا تقرر ہوجائے جس کی وجہ سے تعلیم کے معیارمیں روز افزوں گراوٹ آرہی ہے۔اگر ہم تعلیمی نظام میں دین اسلام کے تیسیر و آسانی والے اصول کو مد نظر رکھیں تو یقینا اللہ تعالی نہ صرف ہمیں دنیا میں مال و متاع سے نوازے گا بلکہ اس میں برکات بھی ہوں گی اور مسلم معاشرے سے بے شمار برائیوں کی محرک یعنی تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ دین اسلام میں تکبر کی سخت مذمت کی گئی ہے چونکہ یہ وہ مذموم صفت ہے جو حقوق اللہ میں حارج و مزاحم ہوتی ہے اور حقوق العباد سے تعدی کا سبب بنتی ہے۔ اس کے برخلاف دین اسلام میں نرمی کو اس لیے پسند کیا گیا ہے چونکہ جو بندہ اس صفت جلیلہ سے متصف ہوتا ہے اس کے لیے بندگی کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا آسان ہوجاتا ہے۔اسی محمود صفت کا فقدان ہے کہ آج انسان بے شمار بلدی مسائل سے دوچار ہے اور بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ عوامی نمائندوں کا انتخاب اسی لیے کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنا اثر و رسوخ اور عہدہ و منصب کا استعمال کرتے ہوئے عوامی مسائل کو بروقت حل کرواکر اور عوام الناس کو راحت پہنچا سکے لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ عوامی نمائندے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کے بجائے از خود رکاوٹ بنے ہوئے ہیں تاکہ وہ سادہ لوح انسانوں سے پیسہ بٹورسکیں۔ ایسے ماحول میں مسلم عوامی نمائندوں کے لیے زریں موقع ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق عوام الناس کے لیے سہولت و آسانی پیدا کرنے میں اپنی سیاسی زندگی وقف کردیں اللہ تعالی انہیں دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران بنادے گا۔ وکلا صاحبان قانون کی باریکیوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مقدمات کو اس قدر پیچیدہ بنادیتے ہیں کہ حقدار اپنے حق سے دستبردار ہونے ہی میں عافیت سمجھنے لگتا ہے جس کی وجہ سے غیر سماجی عناصر اور باطل پرست طاقتوں کو تقویت پہنچتی ہے ۔اگر مسلم وکلا صاحبان اسلامی تعلیمات کی روح یعنی تیسیر و آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے مقدمات کی پیروی کرنا شروع کردیں گے تو کوئی شخص انصاف سے محروم نہیں ہوگا۔ سرکاری دفاتر میں عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ متمول حضرات کے مسائل کا آناً فاناًتصفیہ ہوجاتا ہے جبکہ غریب و نادار اشخاص کو اپنے حق کے حصول کے لیے غیر مختتم اذیتوں اور انتہائی پیچیدہ اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ایسا اس لیے ہورہا ہے چونکہ مسلمانوں کی اکثریت اسلامی تعلیمات کی روح تیسیر و آسانی کو فراموش کرچکی ہے۔ بیشتر سرکاری عہدیدار یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو اذیت پہنچاکر وہ بہت کامیاب ہوچکے ہیںدرحقیقت وہ ایسا کرکے رحمت کردگار سے محروم ہورہے ہیں جس کا انہیں نہ شعور ہے اور نہ ہی ادراک۔ حضرت سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے رحمت عالمؐ نے ارشاد فرمایا جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالی اس کی مدد میں ہوتا ہے۔ اس حدیث پاک میں مشکل مراحل میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے تاکہ ہر انسان کی زندگی سے کلفت دور ہوجائے اور ہر کوئی رحمت کردگار کا مستحق بن جائے ۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جو کوئی اپنے بھائی کی ضرورت کو پورا کرنے میں اس کا ساتھ دیتا ہے اس کا ہر قدم صدقہ ہوگا۔ یعنی مظلوم و مجبور، مقہور و محتاج اور ضرورت مند افراد کی مدد کرنا اللہ تعالی کے غضب کو ٹھنڈا کرنے ، بلائوں و مصیبتوں کو ٹالنے، بری موت کو دفع کرنے اور قبر کی گرمی سے بچنے کا بہترین اور موثر ذریعہ ہے۔ لہٰذا تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کی مصیبتوں کو دور کرنے کی حتی الموسع کوشش کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کا برتائو کریں تاکہ ہمیں دنیا و آخرت کامیابی و کامرانی نصیب ہو۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔
از :۔ پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com (Osm)