علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ مل تو گیا مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الحمدللہ ابھی کے لیے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بچ گیا ہے۔
لیکن دو منفی پہلو اس فیصلے نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا چین برباد کرنے کے لیے جوڑ دیے ہیں ۔
نمبر 1۔ برہمن جج صاحب نے چالاک برہمنیت کے ذریعے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاسیس کے معاملے میں ایک اور سوال قائم کرکے اس مسئلے میں دروازہ کھلا رکھا ہے،
نمبر 2۔ چیف جسٹس چندرچوڈ نے مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی کردار تو دےدیا لیکن اسے اندر سے سبوتاژ کرنے کا دروازہ یوں کھول دیا ہے کہ یونیورسٹی کا اقلیتی کردار تو ہم دے رہے ہیں لیکن ہم یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن بھی اقلیتوں یعنی کہ مسلمانوں میں سے ہی ہو اس کو ضروری نہیں سمجھتے، یعنی اب مائناریٹی انسٹی ٹیوشن کا ہندو مینجمنٹ ہوگا۔ اور وہ اپنے آقاؤں کے اشاروں پر یونیورسٹی میں مختلف ہندو کام کرانے کے نام پر طوفان اٹھاتا رہےگا۔
چندرچوڈ کے فیصلے میں ان سطروں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیے مستقبل میں خطرے کا دروازہ کھلا رکھا ہے ۔
چندرچوڈ نے فی الحال اقلیتی کردار کو بحال رکھنے کا فیصلہ سنانے کے بعد اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ:

The issue of AMU minority status is now left to be decided by a regular bench for the factual determination whether it was ‘established’ by a minority.
CJI: it is not necessary to prove that administration rests with the minority to prove the institution to be a minority institution
CJI: not necessary that the purpose of minority can be implemented only if the persons of the minority administer the institution۔

اس طرح چندرچوڈ نے مسلم یونیورسٹی کو ہنوز سیاست اور سیاستدانوں کے لیے مشق ستم بنائے رکھنے کا قانونی جواز دےدیا ہے ۔
میری رائے یہ ہے کہ علیگ برادری ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اگر وہ چاہے اور ایک متحدہ کوشش کرلے اور دنیا بھر کے ریسورسز کے ساتھ ایک مضبوط لابنگ کرلے تو وہ یونیورسٹی کو پوری طرح محفوظ کر سکتے ہیں ۔
ملی قیادتوں جمعیت علمائے ہند، پرسنل لا بورڈ اور بریلوی مکتب فکر کے قائدین جیسے بڑی درگاہوں کے ذمہ داران اگر چاہ لیں اور ابھی کمر کس کے لابنگ شروع کردیں تو وہ نتیش کمار، چندرابابو نائیڈو اور بعض بھاجپائی لیڈران کے ذریعے مسلم یونیورسٹی کو ان سطروں کے خطرات سے بچا سکتے ہیں ۔
جس طرح وقف بورڈ کے لیے کوششیں کی گئی ہیں اگر ویسی ہی اسٹریٹجک منصوبہ بندیاں کرکے مسلم یونیورسٹی کو پوری طرح محفوظ کرنے کی کوششیں کی گئیں تو یہ یونیورسٹی ان شاءاللہ پوری طرح سے مسلمانوں کے لیے محفوظ رہےگی۔
ابھی ان کاموں کو کرنے کا ایک بڑا جواز ہے کہ آپ جن سے بھی بات کریں گے یہ کہہ سکتے ہیں کہ دیکھئے: سپریم کورٹ تک نے یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو منظور کیا ہے اب جو تھوڑی بہت پالیسیوں کے معاملے میں ضرورت ہے وہ آپ لوگ کروادیجیے ۔
بوہرہ کمیونٹی کے ذمہ داران بھی چاہیں تو وہ یہ کام علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے حق میں کرواسکتے ہیں کیونکہ داؤدی بوہرہ جماعت کے سربراہ اس وقت یونیورسٹی کے چانسلر ہیں ۔
یہ کام اس وقت سوفیصد اچھی بات چیت، دانشمندانہ لابنگ اور صحت مند گفت و شنید اور ذہانت کا متقاضی ہے اور انہی کے ذریعے ممکن ہے اگر ابھی مسلمانوں کے دانش ور اور بااثر طبقے نے اس کو کروالیا تو وہ ایک بڑا ملی کام سر انجام دے جائیں گے علاوہ ازیں انہی چور دروازوں کے ذریعے مسلم یونیورسٹی میں پھر گھس پیٹھ ہوگی اور تب ذہانت کے ساتھ شجاعت اور قربانیوں کی بھی ضرورت پڑےگی۔
کاش کہ کچھ مسلمان اس پر توجہ دے سکیں !
✍️: سمیع اللہ خان
samiullahkhanofficial97@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے