سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے متعلق "عزیز باشا جج مینٹ” کو کیا مسترد، صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی نے فیصلے کا کیا خیر مقدم

اس سے اقلیتی کردار کی بحالی کی راہ ہموارہوئی ہے۔ مولانا مدنی

نئی دہلی: ۸؍ نومبر: سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ نے آج کثرت رائے سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار سے متعلق 1967 کے سید عزیز باشا بنام یونین آف انڈیا جج مینٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ عزیز باشا کے فیصلے میں مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کوئی ادارہ جسے کسی سینٹرل ایکٹ کے ذریعے قائم کیا گیا ہو، وہ اقلیتی کردار کا حق دار نہیں ہوسکتا ۔
اس کے برعکس آج چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت میں سپریم کورٹ نے اپنے ہی سابقہ فیصلے کو پلٹتے ہوئے کہا کہ کسی ادارے کا اقلیتی کردار محض اس بنیاد پر ختم نہیں ہوسکتا کہ اس ادارہ کا قیام پارلیامنٹ ایکٹ کے ذریعہ عمل میں آیا ہے ، لہذا عزیز باشا مقدمہ میں سپریم کورٹ کا سابقہ موقف اور استدلال دونوں غلط ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے فیصلہ سناتے ہوئے مزید کہا کہ آرٹیکل 30 کا اطلاق ان سبھی اداروں پر یکساں طور پر ہوتا ہے جو آئین ہند نافذ ہونے سے قبل قائم ہوئے ہیں اور جو آئین کے نفاذ کے بعد قائم ہوئے ہیں۔سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اقلیتی ادارہ ہونے کے لیے صرف یہ ضروری نہیںہے کہ ادارہ مکمل طور پر اقلیت کے ہاتھ میں ہو، بلکہ اس کا قیام اقلیت کے ذریعے ہونا لازمی ہے۔

صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے اہم اور دو ر رس نتائج کا حامل بتایا ہے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اس فیصلے نے موجودہ حکومت کو بھی آئینہ دکھایا ہے جو اقلیتی کردار کی بحالی میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی اور اس نے سابقہ حکومت کے موقف کے خلاف عدالت میں اقلیتی کردار کوختم کرنے کا موقف اختیار کیاتھا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ مسلم اقلیت کے تعلیمی اور آئینی حقوق کے لیے جد وجہد کی ہے۔ اس کی مثال حال میں دینی مدارس کے خلاف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے جاری منفی مہم کو روکنے کی کوشش ہے ۔ اسی طرح عزیز باشا کیس کے بارے میںجب 1967 میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا تو جمعیۃ علماء ہند نے فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی ؒ کی قیادت میں 14 سالوں تک اس کے خلاف پارلیامنٹ کے اندرو باہر طویل لڑائی لڑی تھی ۔ اسی پس منظر میں جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام 29؍ اگست 1981 کو ایک’ کل ہند کنونشن برائے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ‘ نئی دہلی میں منعقد کیا گیا، جس میں ملک کے گوشے گوشے سے بھاری تعداد میں مندوبین نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں جمعیۃ علماء ہند نے حکومت ہند سے پرزور مطالبہ کیا کہ مسلم یونیورسٹی کے ترمیمی بل کو پارلیمنٹ سیشن میں منظور کرکے اقلیتی کردار کو بحال کیا جائے۔ جمعیۃ علماء ہند کی اس طویل جدوجہد کے نتیجے میں پارلیمنٹ نے 1981 میں اس کو ایکٹ کو منظوری دی۔ تاہم بیوروکریسی کی فرقہ وارانہ ذہنیت کی وجہ سے اس ایکٹ میں چند خامیاں چھوڑ دی گئیں ، جن کی وجہ سے مداخلت کی راہ کھلی رہ گئی اور نتیجے کے طور پر 2006 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک بار پھر اقلیتی کردار کو ختم کر دیا۔ 2006 میں جمعیۃ علماء ہند نے اس فیصلے کے تناظر میں ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات کی اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا مشورہ دیا، جس پر اُس وقت کی حکومت نے عمل بھی کیا اور خود حکومت ہند نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپنا حلفیہ موقف پیش کیا، لیکن 2014 کے بعد این ڈی اے حکومت نے سابقہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے اقلیتی کردار کو کالعدم کرنے کے حق میں عدالت میں حلفیہ بیان داخل کیا۔ حکومت کے اس رویے کے خلاف گزشتہ دس سالوں سے جمعیۃ علماءہند نےہر ممکن جد وجہد کی ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کا دیرینہ موقف رہا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جو مسلمانان ہند کا ایک گراں قدر سرمایہ ہے، محفوظ رہے اور ان مقاصد کی تکمیل کے لیے کامیابی کے ساتھ اپنی منزلیں طے کرتی رہے جن کے لیے اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ بالخصوص اس پس منظر میں کہ آج مسلمان تعلیمی اعتبار سے انتہائی پسماندہ ہیں اور مختلف رپورٹوں نے اس کی تصدیق بھی کی ہے، مسلم اقلیت کے لیے قائم کردہ اداروں کے کردار کو بدلنا درحقیقت مسلم اقلیت کے ساتھ عداوت اور اسے مزید پسماندگی میں دھکیلنے کی کوشش ہے۔
مولانا مدنی نے اس موقع پر سپریم کورٹ میں قانونی مقدمہ لڑنے والے ادارے اے ایم یو اور اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن و دیگر مداخلت کاروں کی قانونی جد وجہد کی ستائش کی۔ مولانا مدنی نے مسلم اقلیت سے خاص طور پر اپیل کی کہ وہ تعلیم پر توجہ دیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ملک و ملت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے