ارض مقدس میں راہ حق کی شہادتوں کا تسلسل ایک سال سے جاری ہے ، وہ ابھی تک نہ رکااور نہ اس میں کمی آئی، بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے : خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را، پوری سرزمین فلسطین خون شہیداں سے لالہ زار ہے ، صرف طوفان اقصی کے شہداء کا مسئلہ نہیں ،بلکہ پورے چھہتر سال سے ظلم و بربریت کا ننگاناچ جاری ہے ، اور دنیا تماشائی بن کر سارے مناظر دیکھ رہی ہے ، عالمی اداروں کے مکھیا بھی اس موقع پراگر زبان کھولتے ہیں تو صرف بیان بازی پر اکتفا کرلیتے ہیں ، امریکہ بہادر نے تو روز اول ہی سے سرپرستی کی اور مال و اسباب ، ہتھیار اور دیگر وسائل سے مسلسل کمک پہونچا رہا ہے ۔ لیکن رشک ہے ان مجاہدین پر جو مسلسل ایک سال سے ڈٹے ہوئے ہیں ، کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں ، ہزارہا ہزار افراد شہید ہورہے ہیں، لیکن ان کی ہمتوں میںغضب کی استقامت اور مضبوطی ہے ، وہ نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے ہیں آگے بڑھ رہے ہیں : إنہ جھاد ، نصر أو استشھاد ( یہ جہاد ہے یاتو فتح حاصل ہو گی یا شہادت سے سرفراز ہوں گے ۔
قضیہ فلسطین ایک قدیم قضیہ ہے ، یہ اس وقت زیادہ پر پیچ ہو گیااور خطر ناک مرحلہ میں داخل ہوگیا ، جب اسرائیل کے نام سے ایک نام نہاد حکومت قائم کی گئی ، اور اس کے ذریعہ عالم اسلام کے قلب میںغیر قانونی ملک کو جگہ دی گئی ، ۱۹۴۸ء سے اب تک کے اس پورے عرصہ میں تین بڑی جنگیں عرب اور اسرائیل کے درمیان ہوئیں ، جن میں ہزاروں عرب شہید ہوئے ، پہلی جنگ ۱۹۴۸ء میں ، دوسری ۱۹۶۷ء میں ، اور تیسری ۱۹۷۳ء میں ، ان تینوں جنگوں میں عربوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا ، اوران کی مملوکہ جائداد پر قبضہ کیا گیا ، ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ، اسرائیلی ریاست کے قیام سے پہلے شیخ عز الدین القسام نے سرفروشی اور قربانی کا سلسلہ جاری رکھا ، ان کا تعلق لاذقیہ سے تھا ، انہوں نے جامعہ ازہر میں اپنی اعلی تعلیم مکمل کی ، ان کا لقب امیر المجاھدین اور داعی جہاد تھا، انہوں نے عالم اسلام میں جذبہ جہاد کو پھونکا ،اور ایسی نسل تیار کی جو مسجد اقصی کی بازیابی کے لئے بر سر پیکار ہے ، وہی جماعت کتاب عز الدین القسام کے نام سے جانی جاتی ہے ، اسی جماعت کا شعار ہے : یہ جہاد ہے ،جس میں یاتو فتح ہوگی یا شہادت۔
عرب اور اسرائیل کی تین عظیم جنگوں کے بعد معاملہ جب الجھتا گیا ، اور اسرائیل بزور طاقت فلسطین کے اکثر حصوں پر قابض ہوتا گیا تو قضیہ فلسطین میں ایک نازک موڑ آیا ، ایک انقلابی شخصیت شیخ احمد یسین کی شکل میں اٹھی ، جن کو شیخ انقلاب اور بابائے جہاد و مزاحمت کا خطاب ملا ، ان کی ولادت ۱۹۳۶ء میں ہوئی اور شہادت ۲۰۰۴ء میں ہوئی ، اس کے دل میں ایک چنگاری شعلہ زن تھی کہ کس طرح بیت المقدس کو ظالم اسرائیل سے آزاد کرایا جائے ، بیس سال کی عمر ہی میں جہاد فلسطین میں شرکت کی ، اپنے خطابات کے ذریعہ ، تحریروں اور مقالات کے ذریعہ ،بلکہ پورے وجود کے ذریعہ سرزمین مقدس کی بازیابی میں مصروف ہو گئے ، یہ جامعہ ازہر کے تعلیم یافتہ تھے ، اور امام حسن البنا کی دلآویز شخصیت سے متأثر تھے، انہوں نے تحریک آزادی میں روح پھونکی اور اس کو عالمی اور انٹرنیشنل بنایا ، وہ بذات خود چلنے پھرنے سے معذور تھے ، وہیل چیئر کے ذریعہ ہی چلتے تھے ،لیکن وہ برابر محاذ جنگ پر ڈٹے رہے ، بیسویں صدی عیسوی کی آٹھویں دہائی میں انہیں دو سال جیل میں بھی رہنا پڑا ،وہاں سے نکلنے کے بعد اسرائیلی قبضہ کے خلاف بر سر پیکار رہے ، ان کا ماننا تھا کہ دشمن صرف طاقت و قوت کی زبان سمجھتا ہے ، اور آگ اگلتا ہے ، اس لئے اس کو زیر کرنے کے لئے مادی تیاری کی ضرورت ہے ، اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ جو چیز طا قت سے چھینی جاتی ہے ، وہ طاقت ہی کے ذریعہ واپس لی جا سکتی ہے ، انہوں نے مذاکرات کے جھوٹے وعدوں کو یکسر مسترد کرد یا ، اور ۱۹۸۷ء کو حماس کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ، جس کااساسی مقصد بیت المقدس کی آزادی تھا ۔ شیخ احمد یسین پوری طاقت و قوت کے ساتھ اس مہم میں سرگرم تھے کہ ناگاہ ان پر فضائی حملہ ہوا ، وہ فجر کی نماز ادا کر کے واپس آرہے تھے ، اور اسی حملے میں ان کو شہید کر دیا گیا ۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
شیخ احمد یسین کی شہادت کے بعدحماس کی تحریک میں مزید قوت پیدا ہوئی ،اور مجاہدین میں اعلی درجہ کی بیداری آئی ، اور جذبہ حریت کی گرمی سے فلسطین کے عوام و خواص سرشار ہوئے ، شیخ احمد یسین ایک شخص نہیں تھے ، بلکہ ایک کارواں تھے ، وہ اپنی ذات میں انجمن تھے ، وہ نسلوں کے مربی اور نوجوانوں کے معمار تھے ، ان کے اردگرد باحوصلہ افراد کی ایک ٹیم تھی ، جو جہاد و حریت کے جذبہ سے سرشار تھی ، وہ جماعت ایسی تھی جو موت کو گلے لگانے میں فخر محسوس کرتی تھی ، اس نے اپنے نفس اور مال کو جنت کے بدلہ بیچ دیا تھا ، چنانچہ ان کا سر ان کے جسم پر ایک بوجھ تھا ، وہ گویا شاعر کی زبانی کہتے تھے :
نشان مرد مومن باتو گویم چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست
( مرد مومن کی نشانی یہ ہے کہ جب اس کی موت آتی ہے تو اس کے چہروں پر مسکراہٹ ہوتی ہے )
غورکیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ارض مقدس میں جتنی تنظیمیں ، گروپس اور جماعتیں محاذ جنگ میں ہیں ، ان کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق شیخ احمد یسین کی تحریک سے ہے ، وہ اسلام کے مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں ، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا نمونہ پیش کررہے ہیں ، کتائب عز الدین القسام ، ، سرایا القدس ، الجھاد الاسلامی ، کتاب شھداء الأقصی، کتائب أبی علی مصطفی ، عوامی محاذ کے مجاہدین وغیرہ یہ سب ایک مقصد اور مشن کے متعدد نام ہیں ، ان جماعتوں کے محاذ جنگ میں کھڑے ہونے کے بعد بے شمار افراد راہ حق کے شہید قرار پائے ، جن میں یحیی عیاش ، فتحی شقاقی ، ابو علی مصطفی ، صلاح شحادہ ، اسماعیل أبو شنب اولین صف کے مجاہدین ہیں ، حماس کے نمایاں قائدین میں عبد الفتاح دخان ، محمد شاطیٔ، ابراہیم یازوری ، عیسی نشار ، موسی مرزوق ، عبد العزیز رنتیسی ، اسماعیل ھنیہ، یحیی سنوار ، خالد مشعل اورمحمد ضیف ہیں ۔
شیخ أحمد یسین کے بعد ان کے جانشین اور حماس کے صدر شیخ عبد العزیز رنتیسی قرار پائے ،وہ حماس کے بانیوں میں ہیں ، ان کی ولادت ۱۹۴۷ء میں ہوئی ، ان کا تعلق مغربی پٹی سے رہا ، وہ ایک باکمال خطیب ، عظیم شاعر اور صاحب اسلوب ادیب تھے ، انہوں نے جامعہ اسلامیہ غزہ میں تدریسی مشغلہ رکھا ، لیکن وہ اپنے سرفروشانہ عمل سے غافل نہیں رہے ، انہیں ۱۹۸۳ء میں جیل میں بھی ڈالا گیا ، لیکن بہت جلد باہر آگئے ، اور تحریک حماس کو کمک پہونچاتے رہے ، شیخ احمد یسین کی شہادت کے بعد اس کو حماس کا صدر منتخب کی گیا ہے ، بس ایک مہینہ میں یہ بھی اپنے پیش رو شیخ احمد یسین سے شہید ہو کر جا ملے ۔
حماس کے باحوصلہ مجاہدین میں شیخ خالد مشعل ہیں ، وہ بھی حماس کے بانیوں میں شمار کئے جاتے ہیں ، ۱۹۵۶ء میں وہ مغربی پٹی میں پیدا ہوئے ، پھر اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے کویت چلے گئے ، اور وہاں سے تحریک حماس کو تقویت پہونچائی ، وہیں جامعہ الکویت سے بی اے ، اور فزکس کی تعلیم حاصل کی ، اور ۱۹۷۱ء میں قانونی طور پر جہاد فلسطین میں حصہ لیا ، انہوں نے ایک مدت تک حماس کی صدارت کا عہدہ بھی سنبھالا ، اسرائیلی انٹلی جینس نے اردن میں قیام کے دوران ان کو قتل کرنا چاہا ، لیکن اللہ تعالی نے ان کو بچایا ، ۲۰۱۲ء میں یہ غزہ آئے تو ان کا شاندار استقبال ہوا ، اور اس وقت دوحہ قطر میں مقیم ہیں ، اللہ ان کو عمر نوح عطا فرمائے اور اقصی کی بازیابی میںمؤثر طور پر مشغول رکھے ۔
۲۰۱۷ء میں حماس کی صدارت شیخ اسماعیل ہانیہ کے حصہ میں آئے ، اس سے پہلے وہ غزہ میں قائم ہونے والی حکومت کے وزیر اعظم بھی رہ چکے تھے ، ان کی شخصیت مجاہدانہ اور سرفروشانہ تھی ،ان کی پیدائش ۱۹۶۲ء میں غزہ میں ہوئی ، انہوں نے قرآن حفظ کیا ، اور جامعہ اسلامیہ غزہ میں تعلیم حاصل کی ، اور وہیں سے بے اے ، ایم اے ، پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی ، انہوں نے اپنی جوانی ہی سے جہاد کا آغاز کیا ، جیل بھی گئے ،آزمائشوں سے دووچار ہوئے ، لیکن ان کے پائے استقامت میں تزلزل نہیں پیدا ہوا ، اخیر میں ان کو حماس کا صدر بنایا گیا ، اور حماس کو سرگرم بنانے میں ان کا کردار غیر معمولی ہے ، طوفان الأقصی میں ان کی فعالیت کا ہر خاص وعام گواہ ہے ، وہ ایران میں نئے صدر کی تقریب حلف برداری میں شریک تھے کہ ان اچانک رات میں ان پر حملہ ہوا اور وہ ۳۱؍ جولائی کو شہید ہوئے ، ان کے مشہور ززمانہ جملوں میں یہ تھا کہ ہم اسرائیل کو کبھی نہیں تسلیم کریں گے ، ہم اسرائیل کو کبھی نہیں تسلیم کریں گے ، اور وہ کہاکرتے تھے : ہم ایسی قوم ہیں جس کو موت سے اسی طرح محبت ہے ، جس طرح ہمارے دشمنوں کو زندگی سے محبت ہے ، اور ہم اسی پر مرنا چاہتے ہیں ، جس پر ہمارے قائدین رخصت ہوئے ۔ ان کی تمناؤں کو ایک شعر میں اس طرحح ادا کیا گیا ہے :
قال القائد اسماعیل ھذا النھج ولا تبدیل
لو خضعت کل الدنیا لن نعترف باسرائیل
(قائد اسماعیل کا کہنا ہے ، اور یہ ایسا قول ہے ، جس میں ذرا بھی تبدیلی نہیں ، اگر پوری دنیا اسرائیل کو تسلیم کر لے تب بھی ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں) ۔
ابھی چند روز پہلے جس عظیم مجاہد کو شہید کیا گیا ، دنیا اس کو یحیی سنوار (۱۹۴۸ء۔ ۲۰۲۴ء ) کے نام سے جانتی ہے ، انہوں نے باسعادت زندگی گذاری اور موت بھی شہادت کی پائی ،ان کی بھی یہی تمنا تھی کہ مجھے اللہ کے راستہ میں موت آئے ، وہ اسرائیلی فوجوں سے زندگی کی آخری سانس تک بر سر پیکار رہے ، آگے بڑھتے رہے ، ان کا ہاتھ بھی شل ہوگیا تھا، پاؤں بھی زخمی تھا ، چل نہیں سکتے تھے ، لیکن انہوں نے ڈرون کیمرہ کو اپنی عصاسے ایسا نشانہ بنایا ، اور اس کو دنیا کے دیکھا کہ یہ محاورہ بن گیا : رمیتہ بعصا السنوار ( میں نے سنوار کی عصا سے مارا )، ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو ان کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور وہ سفر آخرت پر روانہ ہوئے ۔ بلاشبہ وہ شجاعت ، بہادری ، جانبازی ، سرفروشی کی علامت تھے ، ان کی شہادت کے بعد شیخ خلیل الحیہ نے کہا کہ :’’ یحیی سنوار نے شرفاء کی موت پائی ، بہادروں اور جانبازوں کی موت پائی ، ان کی شہادت نے ہزاروں دلوں میں زندگی کی روح پیدا کردی ، انہوں نے دشمنوں کے اسلحہ کی ذرا بھی پروا ہ نہیں کی ، انہوں نے ایسی موت پائی ہے کہ وہ حیات ابدی کو پہونچ گئے‘‘ ۔
یحیی سنوار نے اپنی جہادی زندگی کا آغاز نوجوانی سے کیا ، وہ بیس سال اسرائیلی جیلوں میں رہے ، ( ۱۹۸۸۔ ۲۰۱۱ء) ، وہیں عبرانی زبان سیکھی ، اور دشمنوں کی چالوں کا قریب سے مطالعہ کیا ،جیل میں انہوں نے کئی ناولیں لکھیں ، جن کو دشمن نے تلف کردیا ،لیکن ایک کتاب ان کی بڑی مشہور ہوئی جو ’’الشوک والقرنفل ‘‘کے نام سے ہے ، وہ کہا کرتے تھے کہ دشمن مجھ کو جو سب بڑا ہدیہ دے سکتا ہے ، وہ یہ ہے کہ مجھے قتل کر دے گا ، اور صحیح معنوں میں میں میزائل اور توپوں کے دہانے پر مرنا چاہتا ہوں ، اور برین ہمیرج ، ہارٹ اٹیک اور کورونا سے میری موت ہو، میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ اللہ تعالی نے ان کی یہ تمنا سن لی ، اور وہ میدان جہاد میں دشمنوں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے ۔ ان کے قتل کی جو تفصیلات میڈیا کے ذریعہ سامنے آئی ہیںاس ان کی غیر معمولی صلابت ایمانی اور شجاعت دینی کا پتہ چلا ۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔
یہ چند شہداء ارض مقدس کا تذکرہ تھا ، ویسے تو فلسطین کی بازیابی کے لئے شہید ہونے والوں کی غیر معمولی تعداد ہے ، جن میں مرد ، عورت ، جوان ، بوڑھے ، بیوہ، یتیم ، بچے ہر صنف کے افراد ہیں ، اور یہ جنت الفردوس میں آرام کررہے ہیں ، بلاشبہ ان کا تذکرہ قلب و روح کے لئے سکینت کا باعث ہے، حوصلوں کو مہمیز لگانے والا ہے ، ارادوں کو قوت بخشنے والا ہے ، اور مردہ دلوں میں زندگی کی روح پیدا کرنے والا ہے ،ان کی زندگیوں میں کم ہمت افراد کے لئے ہمت و حوصلہ کا پیغام ہے ، شہادت کی تمنا کرنا اسلام کی تعلیم ہے ، جو شہادت کی تمنا کے بغیر دنیا سے جاتا ہے ، وہ منافق کی موت مرتا ہے ، قرآن کریم میں ایسے نیک بندوں کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے :
من المؤمنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ ، فمنھم من قضی نحبہ ، ومنھم من ینتظر ، وما بدلوا تبدیلا( الأحزاب : ۲۳)(اور ایمان والوں میں کچھ وہ ہیں ، جنہوں نے اپنے رب سے جو وعدہ کیا تھا ، اس کو پورا کیا ، تو ان میں کچھ وہ ہیں ،جو اپنی نذر پوری کرچکے ، اور کچھ انتظا ر میں ہیں ، اور انہوںنے ذرا بھی فرق آنے نہیں دیا) ۔ اور طارق بن زیاد کے متعلق اقبال کے یہ اشعار روح کی بالید گی کے لئے اور شہداء اور مجاہدین کے ذکر خیر کے لئے پیغام عمل ہیں :
یہ غازی ، یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھو کر سے صحراء و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے ، بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مؤمن
نہ مال غنیمت ، نہ کشور کشائی
قرآن کریم نے شہداء کے متعلق یہ کہا ہے کہ : ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ أمواتا ، بل أحیاء عند ربھم یُرزقون (آل عمران : ۱۶۹)( اللہ کے راستہ میں ججو قتل کئے جائیں ، ان کو مردہ نہ کہو ، بلکہ وہ زندہ ہیں ، ان کے رب کے پاس انہیں روزی دی جاتی ہے )اور مسند احمد کی روایت ہے ، حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شہید کے لئے اللہ تعالی طرف سے سات انعامات ہوتے ہیں : (۱)خون کا فواراہ نکلتے ہی اس کی مغفرت کردی جاتی ہے (۲) جنت میں اس کا ٹھکانہ دکھادیا جاتا ہے ، (۳) اس کو ایمانی جوڑا پہنایا جاتا ہے ، (۴) عذاب قبر سے پناہ دی جاتی ہے ، (۵) اس کے سر پر وقار کا تاج رکھاجائے گا (۶)اس کی ۷۲؍ حوروں سے شاددی کرائی جائے گی ،اس کے اہل خانہ کے بارے میں اس کی سفارش قبول کی جائے گی۔
تحریر: (مولانا ڈاکٹر) محمد فرمان ندوی
استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ