علامہ اقبال : ایک ہمہ گیر شخصیت

علامہ اقبال دانائے راز ، ترجمان حقیقت اور ایک سیاسی لازوال خصوصیت کے مالک تھے ۔

آبا و اجداد

علامہ اقبال کے آبا و اجداد کا تعلق کشمیری برہمن کے ایک قدیم خاندان سے تھا ، ان کے جد اعلیٰ بابا لول حج یا لولی حاجی پندرویں صدی عیسوی میں اورنگ زیب کے زمانے میں حضرت شیخ نُور الدین نورانی کے خلیفہ کے ہاتھ پر مشرف با اسلام ہوئے ، اقبال کے اجداد نے کشمیر چھوڑ کر سیالکوٹ میں سکونت اختیار کر لی اور وہاں پر لوئیوں اور دُسوں ( یہ ایک قسم کی چادریں ہوتی ہیں ) کی فروخت کا کاروبار شروع کیا ، اقبال برہمن زاد ہونے کا اعتراف اپنے کلام میں مختلف جگہوں پر کرتے ہیں ، ضربِ کلیم میں ایک جگہ کسی سید ذات سے مخاطب ہو کر یوں فرماتے ہیں ۔

میں اصل کا خاص سومناتی
آبا مرے لاتی و مناتی
تو سید ہاشمی کی اولاد
میری کف خاک برہمن زاد

پیدائش اور خاندان :

علامہ اقبال 9/ نومبر 1877ء جمعہ کے دن فجر کے وقت سیال کوٹ کے ایک بازار چوڑی گراں کے ایک چھوٹے سے مکان میں پیدا ہوئے ، ان کے والد صاحب کا نام شیخ نور محمد تھا ، دادا کا نام شیخ رفیق تھا ، ان کے دو تھے ایک شیخ نور محمد ( والد اقبال ) اور دوسرے شیخ غلام قادر ، شیخ نور محمد کی شادی ٫٫ امام بی بی ٬٬ ( والدہ اقبال ) سے ہوئی ، ان کے بطن سے دو لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں ، شیخ عطا محمد ( بھائی ) اور شیخ محمد اقبال جو آگے چل کر حکیم الامت اور شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال کے نام سے مشہور ہوئے ۔ شیخ نور محمد عالی ظرف ، نیک ، شفیق ، حلیم اور بردبار انسان تھے ، انہوں نے کسی مکتب میں تعلیم تو نہیں پائی تھی البتہ حروف شناسی ہونے کے سبب اردو اور فارسی کتابیں پڑھ لیتے تھے ، تصوف کی پیچیدگیوں سے بھی آشنا تھے ، بعض لوگ تصوف کی کتابوں کے مشکل مطالب کی تشریح کے لیے ان سے رجوع کرتے اس لیے بعض ہم عصر اکابر علم انہیں ان پڑھ فلسفی کہتے تھے ۔ علامہ اقبال کی والدہ ( امام بی بی ) کو سب ٫ بے جی ٬ کہتے تھے ، وہ لکھنا پڑھنا تو نہیں جانتی تھی لیکن ان پڑھ ہونے کے باوجود بڑی سمجھدار ، معاملہ فہم اور مدبر خاتون تھیں ، اپنے حسن و سلوک کے باعث محلے کی عورتوں میں بڑی مقبول تھی ، برادری اور محلہ داری کے جھگڑوں کا نہایت خوش اسلوبی سے تصفیہ کراتی تھیں ۔ ان کی سب سے نمایاں خصوصیت غرباء پروری تھی ، کئی حاجتمند خواتین کو خفیہ طور مدد کرتیں اور امداد کرنے کا ایک اور طریقہ یہ تھا کہ محلے کے غریب گھرانوں کی دس بارہ سال کی تین چار بچیاں اپنے یہاں لے آتیں اور ان کی کفالت کرتیں ، ان سب کو قرآن مجید ، ضروری دینی تعلیم اور کام کاج سکھاتی ، کچھ مدت بعد ان کے لیے خود اچھا رشتہ تلاش کر کے ان کی شادی کروا دیتیں ، ان کے اس جذبہ ایثار اور تربیت کی جھلک ہمیں اقبال کی شخصیت میں نمایاں نظر آتی ہے ، والدین کی روحانی تربیت کے اثرات اقبال کی ساری زندگی پر طاری رہے ، علامہ اقبال نے اپنی والدہ کی یاد میں ایک پوری نظم لکھ دی ہیں ، اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔

ابتدائی اور اعلیٰ تعلیمی سرگرمیاں :

علامہ اقبال کا بچپن فطری کشادگی اور تنوع کے ساتھ گزرا ، اقبال کی ذہنی و فکری تشکیل میں والدین اور اساتذہ کا فیضان شامل ہے ، انہوں نے ابتدائی تعلیم مولانا غلام حسن کے مکتب میں حاصل کی ، ایک دن مولانا سید میر حسن ( 1844ء ۔ 1929ء ) درسگاہ میں آئے اور اقبال کی کشادہ پیشانی ، متین صورت اور بھورے بالوں سے بے حد متاثر ہوئے اور مولانا غلام حسن سے پوچھا کہ یہ بچہ کس کا ہے ؟ معلوم ہوا کہ شیخ نور محمد کا بیٹا ہے ، ان کے پاس گئے اور انہیں سمجھایا کہ اس بچے کو محض دینی تعلیم دلوانا کافی نہیں بلکہ اسے جدید تعلیم سے بھی آراستہ کرنا ضروری ہے ۔ مولانا میر حسن کی خواہش پر اقبال کو ان کے سپرد کر دیا گیا ، اقبال نے ان کے ہی مکتب واقع کوچہ میر حسام الدین میں اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور قرآن مجید کا درس بھی لیتے رہے ، اسی دوران سید میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں پڑھانا شروع کیا ، انہوں نے شیخ نور محمد (والد اقبال ) کی رضامندی حاصل کر کے اقبال کو 1884ء میں اسکاچ مشن اسکول میں داخل کرایا ، اقبال کی ابتدائی طالب علمانہ زندگی پر سید میر حسن ( 1844ء تا 1929ء ) کی شخصیت حاوی نظر آتی ہے ، سید میر حسن ایک روشن فکر اہل علم تھے ، جو مصالح دین اور مصالح دنیا کو پیش نظر رکھ کر شاگردوں کی تربیت کرتے تھے ۔ انہوں نے اقبال کو عربی ، فارسی اردو ادبیات ، علم و حکمت اور تصوف وغیرہ کی تعلیم دے کر ان کے دل میں علوم قدیمہ اور اسلامیہ کے لیے بے پناہ شیفتگی پیدا کر دی تھی ، جب تک وہ زندہ رہے اقبال ان کی خدمت میں حاضر ہو کر علمی مسائل میں ان سے ہدایت و رہبری لیتے رہے ، اقبال ان کا بے حد احترام کرتے تھے اس کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال کو جب 1923ء میں ٫٫ سر ٬٬ کے خطاب کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے گورنر پنجاب سے کہا کہ جب تک ان کے استاد سید میر حسن کی علمی خدمات کا اعتراف نہ کیا جائے تب تک خطاب قبول نہیں کریں گے گورنر نے پوچھا کہ کیا سید میر حسن کی کوئی تصنیف ہے ؟ اقبال نے جواب دیا ، میں خود ان کی تصنیف ہوں ، چنانچہ اقبال کو خطاب کی پیشکش کے موقع پر سید میر حسن کو بھی شمس العلماء کا خطاب ملا ۔ سولہ برس کی عمر یعنی 1893ء میں اقبال نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا اور اسی سال ان کی شادی گجرات کے سول سرجن خان بہادر عطا محمد کی بیٹی کریم بی بی سے ہوئی ، اسکاچ مشن اسکول میں انٹر میڈیٹ کی کلاسیں سے بھی شروع ہو چکی تھی لہٰذا اقبال کو ایف ۔ اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا ، 1890ء میں اقبال نے ایف ۔ اے کا امتحان سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا ، مزید تعلیم کے حصول کے لیے لاہور کا رخ کرنا پڑا ، یہاں ستمبر 1890ء میں گورنمنٹ کالج میں بی ۔ اے کی کلاس میں داخلہ لیا ۔ 1897ء میں اقبال نے بی ۔ اے پاس کیا اور ایم اے فلسفہ میں داخلہ لیا یہاں پروفیسر آرنلڈ جیسے جید استاد موجود تھے ، اقبال کی عملی اور فکری زندگی کی تشکیل میں ان کا اہم رول رہا ہے ۔ اقبال نے 1899ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم ۔ اے کی ڈگری مکمل کی ، اسی دوران شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا ، انہیں استاد داغ دہلوی سے شرف تلمذ تھا ، اس طرح تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا اور شاعری بھی ، مگر مشاعروں میں نہیں جاتے تھے ، ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال 13 مئی 1899ء اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہو گئے ، اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے ، اقبال تقریباً چار سال تک اورینٹل کالج میں پڑھاتے رہے ، البتہ بیچ میں چھ ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی ، میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے اقبال اورینٹل کالج میں بی ۔ او ۔ ایل اور انٹر میڈیٹ کی جماعتوں کو تاریخ ، اقتصادیات اور فلسفہ پڑھاتے تھے ۔ اقبال اورینٹل کالج میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج میں بھی پڑھاتے تھے ، 4 جنوری 1901ء کو انہوں نے لالہ جیا رام کی جگہ گورنمنٹ کالج میں عارضی طور پر اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی خدمات انجام دینا شروع کیں ، سر عبدالقادر ان دنوں اسلامیہ کالج میں انگریزی پڑھاتے تھے ، انہیں کچھ عرصے کے لیے رخصت لینا پڑی اور اس دوران میں ان کی جگہ اقبال اسلامیہ کالج میں انگریزی پڑھانے کے فرائض انجام دیتے رہے ، بعد میں گورنمنٹ کالج میں اسی منصب پر ان کا تقرر 31 مارچ 1903ء تک رہا جب اورینٹل کالج میں بطور میکلوڈ عربک ریڈر ان کی مدت ملازمت ختم ہوئی تو ان کا تقرر دوبارہ بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر ( انگریزی ) گورنمنٹ کالج میں ہوا یہ مدت تین جون 1903ء سے 30 دسمبر 1903ء تک تھی لیکن مدت ختم ہونے سے پہلے اس میں چھ ماہ یعنی مارچ 1904ء تک کی توسیع کر دی گئی ، اس مدت کے اختتام پر انہیں مزید توسیع دی گئی اور وہ فلسفہ پڑھانے پر مامور ہوئے ، اسی دوران یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے انہوں نے یکم اکتوبر 1905ء سے تین سال کی بلا تنخواہ رخصت حاصل کی ۔

ازدواجی زندگی :

1893ء میں اقبال کی کریم بی کے ساتھ شادی رواج کے مطابق ان کے بزرگوں نے طے کی تھی اگرچہ کم عمری کی وجہ سے وہ اس شادی پر رضامند نہ ہوئے تھے لیکن بزرگوں کے آگے انکار کی ہمت نہ ہوئی ، چونکہ اقبال حصول تعلیم کے لیے مختلف مقامات کو جاتے رہتے تھے اسی لیے کریم بی بی کا بیشتر وقت اپنے والدین کے ساتھ گزرتا تھا ، بعض اوقات چند ماہ کے لیے سیالکوٹ آجاتیں ، اقبال گرمی کی چھٹیاں عموماً سیالکوٹ میں اپنے والدین کے ساتھ گزارتے اور کبھی کبھار چند ہفتوں کے لیے اپنے سسرال گجرات بھی چلے جاتے تھے ، اس دوران ان کے یہاں دو اولادیں پیدا ہوئیں ، ایک بیٹی معراج بیگم جو کہ 1896ء میں پیدا ہوئی اور بیٹا آفتاب اقبال 1898ء میں پیدا ہوا ، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر اور زوجین کے طبیعت کی عدم مناسبت کی وجہ سے یہ شادی ناکام رہی ، کریم بی بی بچوں سمیت اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھیں ، لیکن ان کی کفالت کی ذمہ داری اقبال خود اٹھاتے تھے ۔ ان کی دوسری شادی کشمیری خاندان کی لڑکی سردار بیگم سے ہوئی ، اس موقع پر صرف نکاح ہی ہوا اور رخصتی عمل میں نہ آئی تھی کہ اقبال کو دو ایک خط موصول ہوئے ، جن میں سردار بیگم کی چال چلن پر نکتہ چینی کی گئی تھی اسی وجہ سے رخصتی کا معاملہ التوا میں پڑ گیا ، اقبال اس دوران شدید تذبذب میں تھے کیونکہ ایک بیوی سے علیحدگی ہو چکی تھی دوسری کے متعلق یہ صورت پیدا ہو گئی ، بہرحال اقبال نے ارادہ کر لیا کہ سردار بیگم کو طلاق دے کر کسی دوسری جگہ شادی کرنے کی کوشش کریں گے اسی تذبذب میں تین سال گزر گئے ، ان کی تیسری شادی لدھیانہ کے ایک متمول کشمیری خاندان کی صاحبزادی مختار بیگم سے تقریباً 1913ءکے ابتدا میں ہوئی ۔ اسی اثنا میں سردار بیگم کے گمنام خطوط کے سلسلے میں اقبال کے احباب نے تحقیق کرائی تو یہ راز منظر عام پر آیا کہ گمنام خطوط تحریر کرنے والا کوئی وکیل تھا جو سردار بیگم کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کروانا چاہتا تھا ، سردار بیگم نے خود بھی جرات کر کے ایک خط اقبال کو بھجوایا ، جس میں لکھا تھا کہ انہیں اس بہتان پر یقین نہیں کرنا چاہیے تھا ، اب جب کہ میرا نکاح آپ کے ساتھ ہو چکا ہے ، اب میں دوسرے نکاح کا تصور بھی نہیں کر سکتی اسی حالت میں پوری زندگی بسر کروں گی روز قیامت آپ کی دامن گیر ہوں گی ، اقبال یہ خط پڑھ کر اپنی غلطی پر سخت پشیمان ہوئے ، بالآخر اقبال سردار بیگم کو گھر لانے کے لیے تیار ہو گئے لیکن چونکہ پہلے دل میں ارادہ کر لیا تھا کہ سردار بیگم کو طلاق دینے کا تو اسی لیے دوبارہ نکاح پڑھوا لیا گیا ، اور اس سردار بیگم کے بطن سے دو بچے ہوئے جاوید اقبال اور بیٹی منیرہ اقبال ، مختار بیگم اور سردار بیگم قریب قریب ایک ہی عمر کی تھیں اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت ہی پیار سے رہتی تھیں ، ان دونوں بیویوں اور بہن کے اصرار پر اقبال نے اپنی پہلی منکوحہ کو بھی بلوا لیا تھا لیکن وہ زیادہ دنوں تک ان کے ساتھ نہیں رہیں ، الغرض پورا گھرانہ ہنسی خوشی رہنے لگا ۔

یوم وفات :

علامہ محمد اقبال 21/اپریل 1938ء کو فجر کے وقت اپنے گھر جاوید منزل میں طویل علالت کے باعث خالق حقیقی سے جا ملے اور ان کو لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

از قلم : مجاہد عالم ندوی
استاد : الفیض ماڈل اکیڈمی بابوآن بسمتیہ ارریہ بہار
رابطہ نمبر : 8429816993

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے