مقصد حیات اور انسان

ازقلم: ڈاکٹر سیدآصف عمری، حیدرآباد
موبائل نمبر:9885650216

صرف ایک خالق، مالک اللہ تعالیٰ سے انتہا درجہ کی محبت اور اس سے خوف و خشیت نیز اسی سے اُمید کرتے ہوئے ولا تموتن الا وانتم مسلمون۔ مرتے دم تک اسی پر توکل، بھروسہ، اعتماد اور جزا و سزا کا یقین، نیکی پر اجر و ثواب، بدی اور برائی پر بدلہ وسزا۔اسی کے عدل وانصاف، جنت وجہنم کے برحق ہونے کا یقین، صرف اسی کی بندگی و عبادت طریقہ رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جوکہ خاتم المرسلین امام الانبیاء حوضِ کوثر کے مالک، شافعی محشر کی تمام چھوٹی بڑی سنتوں پر بے چوں وچرا عمل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے محبت اور آپ کی باتوں پر عمل کا اقرار و یقین کرنا اور توحید باری تعالیٰ کی تینوں قسموں۔ توحید اُلوہیت (عبادت) توحید ربوبیت (رب) توحید اسماء و صفات (اللہ کے 99ناموں) کو دل سے مان کر قرآن و سنت صحیحہ کے دلائل سے تسلیم کرکےاپنے قول وفعل اور حرکت سے ظاہر کرنا کہ بندگی کے لائق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
لا الہ الا اللہ  
 اوراس کی عبادت کی تمام قسموں میں کسی کو بھی شریک کرنا یا برابر سمجھنا بہت بڑا ظلم ہے۔
ان الشرک لظلم عظیم
یقیناً شرک بہت بڑا ظلم (گناہ) ہے۔

شر ک سے ساری نیکیاں، عبادتیں،نماز،روزہ،زکوٰۃ، حج وغیرہ سب برباد اور ناقابل قبول ہے۔حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان اور پہلے پیغمبر سے لےکر آخری پیغمبر اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام پیغمبروں او رنبیوں کا دین صرف ایک ہی رہا ہے وہ ہے اسلام۔
ان الدین عنداللہ الاسلام  (آل عمران آیت نمبر 19 )
بے شک دین (ایمان،عقیدہ، طریقہ وعمل) اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے اوراس اسلام کے لئے انسان جو بھی طریقہ،عقیدہ وعمل اختیار کرے گا وہ اللہ کے نزدیک قبول نہیں ہوگا،بلکہ ایسے لوگ آخرت میں خسارہ (نقصان) اٹھائیں گے۔
و من یَبتغِ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخٰسرین
(القرآن الکریم)
زندگی نعمت ہے
اور تمام نعمتوں کے بارے میں ہم سب سے قیامت کے دن سوال ہوگا؟
ثم لَتُسئَلُن یومئذ عَنِ النعیم (   التکاثر   )
ہماری زندگی کا ہر لمحہ ہرسیکنڈ کیسے ہم گزار رہے ہیںکہاں گزاررہے ہیں۔ سب کچھ محفوظ کیا جارہا ہے ہمارے دونوں کندھوں کے پاس مقررکئے ہوئے اللہ کے فرشتے کراماً کاتبین لکھ رہے ہیں اورجو بھی ہم کہتے ہیں ،بولتے ہیں سب ریکارڈ ہورہا ہے۔
مَا یَلفِظُ مِن قَول الا لدیہٖ رقیبٌ عتید   (سورہ ق)
اگرہم سب کو یہ احساس ہوجائے اوریقین کرلیں کہ ہماری ساری گفتگو، بے تکی باتیں، بکواس، عیش میں اور طیش میں، غصہ میں اور سنجیدگی کے ساتھ اخلاص کے ساتھ یا انانیت و تکبر کے ساتھ ،خیرخواہی کے لئے یا مفاد ومطلب پرستی کے لئے مشورے دے رہے ہیں یا دھوکہ دے رہے ہیں۔اصلاح کے لئے ہے یا فتنہ وفساد کے لئے۔ لوگوں میں ڈر پیدا کرنا یا امت کو جوڑنے کے لئے، ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہے ہیںیا باطل کی تائید میں حق پرستی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ اللہ کو راضی کرنے یا کسی کی دل آزاری کے لئے، اپنی زبان کو حرکت دے رہے ہیں آنکھوں کے اشارے سے یا انگلی کے اشارہ سے، ٹائم پاس کرنے یا وقت کی قدر کرنے بات صاف صاف ہے۔
یا
گھما پھراکر سیدھی سادھی گفتگو (قولوا قولا سدید) یا پھر (لَیَناً بالسنتکم) زبان کوتوڑ مروڑ کر، ساری باتیں، ساری گفتگو، ساری حرکات و سکنات، حتی کہ دل میں گزرنے والے وسوسے اور خیالات سب کچھ محفوظ کئے جارہے ہیں اور یہ آلہ (Recorded)ہر انسان کی شہ رگ کے پاس لٹکاکر رکھ دیا گیا ہے۔
وکل انسان الزمناہ طئرہ فی عنقہ
( الاسراء 13)
اس لئےہر عقلمند باشعور انسان مردوعورت ،لڑکا اورلڑکی اپنا اپنا ہر دن ہر لمحہ، ہر گھڑی تمام باتوں کاموں اور منصوبے، خیالات اور اپنی نیتوں اورارادوں کا گہرائی کے ساتھ محاسبہ اورجائزہ لیں کم از کم مہینہ میں ایک بار، یہ کم حِس انسان کی علامت ہے اور بے حس انسان تو سوچتا نہیں کہ کیوں پیداکیاگیا۔ مقصد زندگی کیاہے؟ میرا رب اور پروردگار کون ہے؟میرے نبی کون ہے،میرا دین کیا ہے؟ یہ چھوٹے چھوٹے بنیادی سوالات پر کبھی سوچنا بھی نہیں ہے۔ایسے انسان چوپائے، جانور بلکہ جانوروں سے گئے گزرےہیں حقیقت میں یہ غافل ہیں۔ اورایسے ہی لاکھوں انسان ہیں جو بے شمار صلاحیتوں اورنعمتوں کے باوجود ان کا صحیح استعمال نہیں کررہے ہیں اوران کواحساس بھی ختم ہوگیا ہے کہ ہم سے باز پرس ہوگی، بس جی رہے ہیں۔ صبح سے شام بلکہ رات بھر یہی فکر سوچ اور پلاننگ ہے کہ
 دولت خوب کمائیں
خوب عیش کریں
خوب کھائیں پئیں
مزے کریں یعنی
دستر دفتر بستر،کھانا پینا، کام کاج کرنا، دفتر جانا،کاروبار کرنا اور رات کے ایک تہائی حصہ 3,2بجے سے صبح 12,11بجے تک آرام کرنا۔ گویا زندگی کا نظام اور سسٹم Life of Styleکوبالکل بدل کر رکھ دیاہے، جبکہ ہمارے خالق ومالک نے ہمیں ایک Systamatic Lifeگزارنے کا طریقہ بتایا ۔ہمارے لئے سب سے بہترین آئیڈیل حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوبنایا۔
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ
(الاحزاب 21)
ہم نے کیا کیا؟ ہم میں سے اکثر نے کھلاڑیوں، فلم اسٹارس، کرکٹرس، ناچ گانے والوں اور دین کے دشمنوں، ملحدوں، دہریوں، انسانیت کے دشمنوں کواپنا آئیڈیل بنایا اور اس پرہم کو فخربھی ہے…….افسوس!
کیازندگی ہے ؟کیوں ہم جی رہے ہیں؟ کیاانجام ہونے والا ہے؟ کبھی ہم نے سنجیدگی سے موت کے بعد کی زندگی Life after deathکے بارے میں سوچا بھی ہے؟نہیں۔
سوچتے کیوں کہ ہم دنیاوی زندگی اور اس کے عیش میں مگن ہیں اور اسی فانی زندگی کے پیچھے اتنے مصروف او ر مشغول ہوگئے ہیں کہ آخرت کا سبق ہم کو یاد بھی نہیں رہا جبکہ آخرت ہمیشہ کا دائمی گھر اور بہترین جگہ ہے۔ کاش….!
بل توثرون الحیوۃ الدنیا والآخرۃ خیرٌ و ابقیٰ
ہماری زندگی کاایک ایک منٹ ہمیں دعوت فکر دے رہاہے کہ ہماری زندگی برف کی مانند گھلتی جارہی ہے او ر ہماری زندگی ڈھلتی چھاؤں ہے۔ الحیاۃ ظل زائل   اور زندگی چاہے ایک دن کی ہو،ایک سال کی ہو یا 20سال کی ،50سال کی، 70یا 100سال کی اس کا انجام فنا ہے۔ ایک مرتبہ اس فانی دنیا سے انسان ختم ہوجائے اوردوسرے عالم (برزخ) میں منتقل ہوجائے توپھر دوبارہ اس کی روح اس دنیا میں کسی بھی شکل می ںواپس نہیںآتی بلکہ مختلف مراحل طے کرتے ہوئے عالم آخرت میں چلی جاتی ہے۔ اب یہاں ہر حساب وکتاب اور میزان قائم ہوگا جہاں ذرہ ذرہ کا حساب ہوگا۔ اچھا اور برا سب کچھ کرایا انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔
فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ و من یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ
اس لئے ہر باشعور عقلمند اپنا وقت صحیح استعمال کریں۔وقت کی تقسیم ماضی،حال مستقبل سے ہے۔
بچپن، جوانی بڑھاپا۔ غور کریں ہم کس موڑ اورمرحلہ میں ہیں۔ بچپن کھیل کود میں،جوانی عیش و مستی میں اور بڑھاپا مجبوری پریشانی اور رونے دھونے میں۔
آخر کیا کرنا ہے؟
سمجھیں۔ احساس کریں۔ فطرت کی طرف آئیں۔ہماری فطرت میں اچھائی، سچائی،توحید اور اسلام ہے اوراسی فطرت پراللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ فطرۃ اللہ التی فطرالناس علیہا اوریہی بات آخری پیغمبر محمدمصطفی نے بھی فرمائی۔
 کل مولود یولد علی الفطرہ فابواہ یہودانہ او ینصرانہ او بمجسانہ  (الحدیث)
مگر ماں باپ، سماج ومعاشرہ اس کو اس فطرت کے خلاف پروان چڑھاتے ہیں تو انسان یہودی، نصرانی مجوسی وغیرہ بن جاتاہے۔اسی فطرت کی دعوت قرآن میں دی گئی۔ آج انسان فطرت سے بغاوت کرکے ملحد، منکر، گمراہ، دہریہ، گنہگار، بدکار، ظالم و جابر، قاتل خونخوار بھیڑیا، جانور سےبدترین، حیوان اور شیطان بن جاتاہے۔ بظاہر وہ صورت شکل سے توخوبصورت نظر آتا ہے مگر اس کا نظریہ، عقیدہ اور عمل فطرت سلیمہ کے خلاف ہوتی ہیں۔ ایسے ہی لوگ آخرت میں ناکام نامراد اورخسارہ میں ہوں گے۔ کامیاب اور نجات پانے والے وہ ہوں گے جو قلب سلیم لے کر آئے۔(الا من اتی اللہ بقلب سلیم)
اور قلب سلیم سے مراد جن کا ایمان وعقیدہ، دل نیک ارادہ وعمل خالص اسلام ،کتاب وسنت کے مطابق ہوگا۔( اللہم اجعلنا منہم آمین) در حاضر کا انسان بے شمار قسم کی الجھنوں کاشکار ہے اور وہ سکون کی تلاش میں ہے۔ اس کی الجھنوں میں سب سے بڑی الجھن معاشی پریشان ہے اور اسی معاشی فکر میں وہ سرگرداں ہیں اور اسی فکر معاش میں اپنے خالق مالک کو فراموش کرچکا ہے اوراندھا دھن بس دولت کی ہوس میں رات دن ایک کررہاہے۔ صبح و شام بس ایک ہی فکر ہے پیسہ پیسہ پیسہ۔ اس دولت کی حرص، فکر اور لالچ نے اس کو زرپرست بنادیا ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ تم درہم و دینار کے بندے نہ بنو۔ لا تکونوا عبد الدیناروعبدالدرھم  ۔
تم لوگ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو۔ آپس میں رسہ کشی اور ایک دوسرے کی ٹوہ اور جاسوسی و کھوج میں نہ رہو بلکہ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کررہو۔ اس عمدہ نصیحت کو ہم نے بھلادیا ہمیں آج کی فکر ہے کل (قیامت) کی کوئی فکر نہیں۔ اس کو ہم نے اپنی زندگی سے نکال دیا ہے جبکہ ہمیں بار بار موت کو یاد کرنے اور کثرت سے موت کا تذکرہ کرنے کی نصیحت کی گئی۔ اذکروا ھاذم اللذات یعنی الموت (ترمذی) ہماری خواہشات ہمارے دنیا کے اونچے اونچے خواب،عیش کی زندگی چاہئے۔ہم سادگی ،قناعت،میانہ روی اور اعتدال کی زندگی سے بہت دور ہیں۔ پرتکلف کھانے،عمدہ گاڑیاںاور قیمتی لباس ہماری زندگی کا اہم حصہ (جزلاینفک) بن گئے ہیں۔اسی فکر معاش، روزی روٹی کی فکر اورحق وحلال سے غفلت، لاپرواہی بلکہ دھوکہ ،غصب، جھوٹ دھاندلی، غبن اور خیانت سے کماکر اپنی ساری زندگی کو ناپاک اور بے حس بنادیاہے۔
 زندگی کی حقیقت کیا ہے؟
زندگی- اللہ تعالیٰ نے زندگی او رموت کو پیدا کیا اوراس کا مقصد آزمائش اور امتحان ہے۔ الذی خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملاً (الملک)  اس زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے موت کو سمجھنا ہوگا،موت خاتمہ کا نام نہیں بلکہ اس دنیا کی زندگی سے انتقال کا نام ہے۔ انسان پہلے حالت موت میں تھا پھر اللہ نے اس کو پیدا کیایعنی زندگی عطا کی پھر موت دے گا اور پھر زندگی یعنی دو زندگی دو موت۔ تو اس زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے قرآن کریم کی اس آیت کو سمجھنا ہوگا جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکم شیئاً مذکورا (سورۃ الدھر) یعنی انسان اس دنیا میں آنے سے پہلے حالت موت میں تھا یعنی وہ قابل ذکر چیزہی نہ تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ دنیا کی زندگی محض چند چیزوں کے مرکب اور مجموعہ کا نام ہے۔ بقول شاعر؎
زندگی کیا ہے عناصر کا ظہور ترتیب
موت کیا ہے ان ہی اجزاء کا پریشاں ہونا
جب جسم جان اور روح الگ الگ ہوجائیں تو یہی اس دینوی زندگی کی موت ہے۔ زندگی تو دراصل آخرت کی ہے اوراسی کوحقیقی زندگی کہا گیا، و ان الدار الآخرۃ لھی الحیوان لو کانوا یعلمون۔  اسی آخرت کی حقیقی زندگی کے لئے اس دنیا کی فانی زندگی کوبطورامتحان رکھا گیا۔ اس زندگی کولھو ولعب، زینت، تفاخر کہا گیا ۔ یعنی انسان اس فانی زندگی میں کھیل کود ، عیش آرام ،فخر وغرور میں مبتلا ہوکر دائمی اور خیروالی اُخروی زندگی سے غافل ہوجاتاہے۔ سچ کہا اللہ نے بل توثرون الحیوۃ الدنیا والآخرۃ حیر و ابقی (الاعلی)
مہد سے لحد تک گود سے گور تک جھولے سے قبر تک
مہد سے لحد تک جو زندگی ہے یہ عالم حیات ہے۔ یعنی جس دنیا میں ہم جی رہے ہیں اس سے پہلے بھی ہم ایک عالم (دنیا) میں تھے۔ وہ عالم مادر رحم ماں کاپیٹ جس میں انسان 9ماہ یا کچھ کم یا زیادہ رہتاہے ۔پھر اللہ تعالیٰ اس کو بہترین خلقت میں ڈھال کر ایک بہترین خوبصورت شکل وصورت کے ساتھ دنیا میں بھیجتا ہے۔ خلق الانسان فی احسن تقویم ۔ پھر اس دنیا کی زندگی کا خاتمہ روح کے نکلنے سے ہوتا ہے توانسان دوسرے عالم میں بھیجا جاتا ہے۔ وہ ہے عالم برزخ (قبرکی زندگی) جس میں انسان راحت یا عذاب میں ہوتا ہے۔ قرآن و سنت صحیحہ سےبہت سارے دلائل ہیں۔اس عقیدہ کوسمجھنے کے لئے اس کا انکار کفر ہے۔ کیوں کہ قبرکا عذاب برحق ہے ۔ یہ مرحلہ دنیوی زندگی سے کچھ طویل یا لمبا ہوتاہے اور یہ آخرت کی منزلوں میں سب سے پہلی منزل ہے۔ یہ اگر آسان تو دوسرے مراحل اور راستے آسان ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تعوذ وا باللہ من عذاب القبر  کہ تم لوگ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو۔نمازوں میں ہم کو عذاب قبر سے پناہ مانگنے کی دعا بھی سکھائی گئی۔ اللھم انی اعوذبک من عذاب القبر  اگر ہم دنیوی زندگی کو شریعت ،کتاب وسنت کے مطابق گزاریں گے۔ اللہ کا ڈر اس کا تقویٰ ہماری زندگی میں شامل ہوگا اور مرتے دم تک اسلام پرقائم رہیں گے توان شاء اللہ قبر کی زندگی سکون اور آرام کی ہوگی۔ ولاتموتن الا وانتم مسلمون ۔ قبر کی زندگی عالم برزخ کے بعد عالم محشر ہے۔ جہاں ساری انسانیت کھلے میدان میں جمع کئے جائیں گے اور ہرمخلوق کے جوڑے ہوں گے۔ ہر پیغمبر کی اپنی قوم اورامت الگ الگ ہوں گی۔ میزان اور ترازو قائم ہوگا۔ نیکی او ربدی تولی جائے گی۔ ہرانسان اپنا کیا کرایا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ و من یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ  اس دن عدل وانصاف کا دن ہوگا۔ کسی پر ظلم نہیں کیاجائے گا۔ دنیا میں ظلم وجبر کرنے والے بچ نہیں پائیں گے۔ آواز آئے گی این الجبارون این المتکبرون۔لمن الملک الیوم۔للہ الواحد القھار۔ کہاں ہیں ظالم و جابر کہاںہیں تکبر و غرور کرنے والے؟آج کے دن کس کی حکمرانی اور بادشاہت ہے۔آواز آئے گی۔ صرف ایک اللہ کی جوقھار زبردست ہے۔ اس کے بعد نامہ اعمال دیا جائے گا۔ کسی کو سیدھے ہاتھ میں تو کسی کو بائیں ہاتھ میں۔جس کو سیدھے ہاتھ میں نامہ اعمال دیاجائے گا وہ اصحاب الیمین۔ کامیاب ہونے والے اور جس کو بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیاجائے گا وہ اصحاب الشمال  ناکام ہونے والے ہوں گے۔جنت و جہنم میں جانے والے الگ الگ گروہ ہوں گے۔ جنت میں ایمان والے، توحیدوالے، سنت پرعمل کرنے والے،اللہ سے ڈرنے والے، تقویٰ و پرہیزگار لوگ ہوں گے اورجہنم میں کفروشرک کرنے والے، ظالم و نافرمان ،بدکار و گنہگار داخل ہوں گے۔ اللھم انی اسئک الجنۃ اعوذبک من النار۔آمین ۔  قیامت کے دن ہر مخلوق کا فیصلہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے موت کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ موت کو دنبہ کی شکل میں لایاجائے گا اور اسے ذبح کردیاجائے گا۔ اب صرف زندگی ہوگی یعنی جنتی زندگی اور دوزخی زندگی۔ جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے اہل جنت بڑے عیش وآرام سے ہر نعمت کا مزہ لیتے ہوئے بہت خوش ہوں گے۔ فرشتے ان کا ہر طرف سے سلام سلام کہہ کر استقبال کرتے رہیں گے اور جنت میں ان کو وہ نعمتیں دی جائیں گی جس کا تصور نہ کوئی دل کرسکتا، نہ آنکھوں نے دیکھا ہوگا، نہ کانوں نے سنا ہوگا۔ اس کے بالمقا بل جہنم دہکتی ہوئی آگ ہوگی دور دور تک بس آگ کے شعلے ہوں گے۔ دوزخی مختلف قسم کے عذابوں سے دوچار ہوں گے اور چیخ وپکار کی آوازیں ہر طرف پھل رہی ہوں گی۔ لیکن کوئی ان کی آوازیں اور تکلیفیں سننے والا نہیں ہوگا۔ جب جہنم کے داروغہ دوزخیوں سے سوال کریں گے ما سلککم فی سقر کس چیز نے تمہیں یہاں جہنم میں ڈالا ہے وہ بولیں گے لم نک من المصلین۔ ہم نمازی نہیں تھے و لم نک نطعم المسکین ہم لو گ مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ و کنا نخوض مع الخائضین ہم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ بازی کیا کرتے تھے اور بولیں گے و کنا تکذب بیوم الدین ہم لوگ جزاء وسزا کے دن کو جھٹلاتے تھے۔ یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی۔
مقصدحیات کوبچہ کی پیدائش سے سمجھیں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :  فطرۃ اللہ التی فطرالناس علیہا(الروم 30) اللہ تعالیٰ کی فطرت اور قدرت یہی ہے کہ اس نے انسانیت کو اسی فطرت یعنی توحید اوراسلام پرپیدا فرمایا کہ ہر انسان کی خلقت وفطرت اسلام اور توحید ہے۔ اس فطرت اور سچائی ہر ہر بچہ کی پیدائش ہوتی ہے چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کل مولود یولد علی الفطرۃ (متفق علیہ)
ہربچہ فطرت پر پیدا ہوتاہے مگر اس کے والدین (اگر یہودی ہوتے ہیں تو) اس کو یہودی بنادیتے ہیں اور اگر نصرانی (عیسائی) ہوتے ہیں تو عیسائی بنادیتےہیں اوراگر مجوسی (آتش پرست) ہوتے ہیں تو مجوسی بنادیتے ہیں۔پتہ چلا کہ والدین سماج و معاشرہ بچہ کو اس کی فطرت توحید سے ہٹادیتا ہے۔یہ درحقیقت فطرت سے بغاوت ہے ۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ہر انسان اور ہر بچہ کا پیدائشی عقیدہ نظریہ اور فطرت اسلام او رتوحید ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے