ہمارے آقا ومولیٰ فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم خلاصہ کائنات اور دنیا کے بہترین انسانوں انبیاء ورسل میں سب سے افضل ہیں، جس کا اعلان اللہ رب العزت نے خود ہی ”تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض“ کہہ کر کردیا ہے، یہ اللہ رب العزت کے حکم ”لانفرق بین احد من رسلہ“ (البقرۃ:۵۸۲) ہم اللہ کے رسولوں کو الگ نہیں کرتے، یعنی سب پر ایمان رکھتے ہیں کے خلاف نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک بھی محمد، احمد ہے، جو اس بات پر شاہد ہے کہ آپ کی تعریف کی گئی ہے اور آپ سب سے زیادہ تعریف کے قابل ہیں، یہی وجہ ہے کہ تمام کتب سماویہ میں آپ کا ذکر خیر موجود ہے، خود قرآن کریم میں بھی آپ کا ذکر کیا گیا ہے، البتہ ہر دورمیں بعض شقی اور بدبخت ایسے رہے ہیں جنہوں نے ہمارے آقا کے خلاف زبان درازی کی ہے، لیکن ان کی مثال آٹے میں نمک کے برابر تھی، ہندوستان میں جب سے فرقہ پرستوں کو عروج ملا اور وہ اقتدار تک پہونچ گئے، اس کے بعد فرقہ پرست، شدت پسند اور غلاظتوں سے بھرے ہوئے ذہن ودماغ کے لوگوں کی زبانیں کچھ زیادہ دراز ہونے لگی ہیں، گو اب بھی ایسو ں کی تعداد پہلے کی طرح اکا دکا ہے، لیکن ان کی ہرزہ سرائی سے ایمان والوں کے دلوں کو سخت تکلیف پہونچتی ہے، کیوں کہ حب رسول اور عظمت رسول ہمارے ایمان ویقین کا حصہ ہے اور ہم کسی بھی قیمت پر کسی بھی شخص کا نبی کے جاہ وجلال، جمال وکمال پر حملہ برداشت نہیں کرسکتے، حالاں کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ سورج کی طرف اچھالی گئی غلاظتیں اور چاند کی طرف پھینکا گیا تھوک، پھینکنے والے کی پیشانی کو داغدار اور ذلت کی مہراس کے چہرے چھوڑ جاتا ہے، ہم یہ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر چمگادڑ دن کی روشنی میں نہیں دیکھ پاتا تو اس میں آفتاب کا کیا قصور، سعدی نے کتنی سچی اور پکی بات کہی ہے کہ
گرنہ بیند بروز شپرہ چشم، چشم آفتاب را چہ گناہ
ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ خدانخواستہ اور نعوذ باللہ بہت سارے لوگ بھی اس جرم کا ارتکاب کرنے لگیں تو عظمت رسولؐ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور سارے غیرمسلم تعریف کرنے لگیں تو بھی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور عظمت میں ذرہ برابر اضافہ نہیں ہونے والا۔”الفضل بما شھدت بہ الاعداء“ کا محمل اور مصداق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی نہیں ہے، آپ کی عظمت وبلندی من جانب اللہ ہے”ورفعنا لک ذکرک“ کہہ کر اس کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے، دوسروں کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے، لیکن جس کی تعریف اللہ رب العزت نے کر دی ہو اور جسے محمد بنایا ہو، اس کے لیے دشمنوں کی گواہی سے فضل ثابت کرنے کی ضرورت بالکل نہیں ہے۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ غیر مسلم کی نظر میں لکھ کر ہم کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ اگر فرقہ پرست آسمانی کتابوں کی صراحت کو نہیں مانتے ہیں تو اپنے مقتدیٰ اور پیشوا کی مان لیں، جنہوں نے آپ کی تعریف وتوصیف کی ہے، انہیں ہم بتانا چاہتے ہیں کہ کسی کی نہیں مانتے ہو، مت مانو، اپنے پیشواؤں، دانشوروں اور دنیا کے مسلم مفکرین کی سنو، تاکہ تمہاری سمجھ میں بات آجائے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اعلان نبوت سے قبل ہی ورقہ بن نوفل نے آپ کے رسول ہونے کی بات کہی تھی اور آپ کو عظیم المرتبت انسان قرار دیا تھا، مشرکین مکہ بھی آپ کو صادق اور امین تسلیم کرتے تھے، بہت سارے کفار ومشرکین کو اللہ نے اسلام کی دولت سے بھی نواز دیا، عرب جو ایمان نہیں لائے تھے، وہ بھی آپ کے کردار پر انگلی نہیں اٹھاتے تھے، وہ سب آپ کو پاکباز اور عرب کے نوجوانوں میں کیرکٹر وکردار کی صالحیت اور قوموں کو متحد کرنے کی صلاحیت پر شاہد ہوا کرتے تھے، آپ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم داعی، مجاہد، خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا، جس کا مقابلہ کوئی دوسرا انسان کرہی نہیں سکتا، بہت سارے کذاب نے مختلف عہد میں نبوت کا دعویٰ کیا، لیکن آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ”لانبی بعدی“ اور قرآن کریم میں ”خاتم النبیین“ کے اعلان نے سب کی ہوا نکال کر رکھدی۔
غیر مسلم محققین، دانشور اور ہر طبقہ کے لوگوں کے نزدیک آپ کی شخصیت مسلم ہے، وہ آپ کی تہذیب، دیانت وامانت کے قائل ہیں،غریبوں پر رحم وکرم،انہوں نے انسانی مساوات کے علم بردار اور تعاون باہم کے داعی کے طورپر آپ کی شخصیت کا تعارف کرایا ہے، انسائکلوپیڈیا پر برٹانیکا کے مقالہ نگار نے آپؐ کو سب سے زیادہ کامیاب پیغمبر قرار دیا ہے، دی ہنڈریڈکے مصنف نے آپؐ کو عیسائی ہونے کے باوجود ایک نمبر پر رکھا ہے اور اس کی وجوہات بھی بیان کی ہیں، انگریز مفکرین نے آپ کو شعاع نور، مینار ہدایت، پیکر شرافت، مصلح اعظم، اعلیٰ اخلاق کے پاکیزہ معلم، ملکی اور تمدنی نظام کا بانی، تاجدار شرف وفضیلت، معاشرتی اور بین الاقوامی انقلاب کا بانی، محسن انسانیت، یتیموں کا مربی، اولوالعزم، خلیق، معاملہ فہم، فصاحت وبلاغت میں یکتائے روزگار، بہترین قانون داں، پیکر شرم وحیا، قبیلے اوروطنیت کے بت شکن اور مجموعہئ محامد ومحاسن اور غیرفانی فلسفی قرار دیا ہے۔
یہ احساسات وخیالات ڈاکٹر گلیوڈا روسی فلاسفر کاؤنٹ، ٹالسٹائی، موسیوا، وجیل کلوفل، جارج برناڈشا، بلبل ہند سروجنی نائیڈو، مسیحی فاضل، ویری،لفٹنٹ کرنل سائیکس، نپولین بونا پارٹ، روسو بانی انقلاب فرانس، پروفیسر گیان چند، سوامی بھوانی دیال سنیاسی، اور رائبرٹ ساتمور کے ہیں، اختصار کے نقطۂ نظر سے ان کے بیان کو ایک ایک لفظ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیوں کہ یہ موضوع ایک مضمون کا نہیں، پوری کتاب کا طالب ہے۔ پوری کتاب کے لیے نہ یہاں موقع ہے اور نہ گنجائش۔
تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ، نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ