رکنِ عالم شیخ رکن الدین سہروردی قدس سرہ: حیات و خدمات

سلسلۂ سہروردیہ کے اولین بزرگ شیخ ابو نجیب عبد القاہر سہروردی کے خلیفہ شیخ الشیوخ شیخ شہاب الدین سہروردی کو اللہ نے بڑی شہرت عطا فرمائی اور اس سلسلے کو اِنھیں کی نسبت سے شہرت حاصل ہوئی ۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے خلفا میں ایک بہت ہی نمایاں نام شیخ الاسلام شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی قدس سرہ کا ہے جن کے پوتے قطب الاقطاب رکنِ عالم شیخ رکن الدین سہروردی ابن شیخ صدر الدین محمد عارف قدس سرھما ہیں۔ آپ اپنے زمانے کے نابغۂ روزگار شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں۔
رکنِ عالم شیخ ابو الفتح رکن الدین ملتانی قدس سرہ کی ولادت ۹/ رمضان المبارک ۶۴۹ھ مطابق ۱۲۵۱ء ، جمعہ کے دن ملتان میں ہوئی۔ دادا حضور شیخ الاسلام شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی نے آپ کا نام رکن الدین رکھا اور آپ کی ولادت کی خوشی میں ملتان کے غربا و مساکین کو خوب بخششیں عطا کیں۔ آپ کی والدہ شہزادیٔ فرغانہ بی بی راستی قرآن مجید کی حافظہ تھیں ، شیخ بہاء الدین زکریہ ملتانی سے نسبت بیعت رکھتی تھیں، صلات و صوم کی حد درجہ پابند تھیں ۔ معمولات شبانہ روز کے ساتھ روزانہ ایک ختم قرآن بھی آپ کا معمول تھا۔ چناں چہ آپ جب رکنِ عالم شیخ رکن الدین ملتانی کو لوری دیتیں تو کسی اور چیز کی بجاے قرآن مقدس کی تلاوت کیا کرتی تھیں۔ مزید یہ کہ آپ انھیں جب بھی دودھ پلاتیں باوضو ہو کر ہی پلاتیں۔اسی طرح جب آپ کچھ بولنے کی عمر کو پہنچے تو آپ کی والدہ نے خادماؤں کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ آپ کے سامنے اسم ذات ’’ اللہ ‘‘ کے علاوہ کچھ نہ بولیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی زبان سے جو لفظ پہلی مرتبہ ادا ہوا وہ الفظ ’’ اللہ ‘‘ تھا۔
جب آپ چار سال کے ہوئے تو آپ کے دادا حضور شیخ الاسلام شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی نے بسم اللہ خوانی کرائی۔ آپ نے اپنے والد بزرگوار شیخ صدر الدین محمد عارف قدس سرہ کے حضور حفظ قرآن مکمل کیا اور پھر شیخ الاسلام کے قائم کردہ ادارہ سے دینی تعلیم حاصل کی جو بعد میں مدرسہ بہائیہ ملتان کے نام سے مشہور ہوا ۔ شیخ الاسلام شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی آپ سے بے حد محبت فرمایا کرتے تھے۔ چناں چہ وہ ہمیشہ آپ کو اپنی صحبت میں رکھتے اور روحانی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ فرماتے۔ جب آپ کی عمر تقریبا بارہ سال کی ہوئی تو شیخ الاسلام کا وصال ہو گیا۔ دادا جان کے وصال کے بعد آپ نے اپنے والد بزرگوار شیخ صدر الدین محمد عارف سے استفاضہ کیا اور انھیں سے بیعت و خلافت کی نعمت پائی۔ ۶۶۱ھ میں شیخ الاسلام شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کے وصال کے بعد ان کے بڑے صاحب زادے شیخ صدر الدین محمد عارف مسند نشین ہوئے ۔ پھر ان کے وصال ۷۰۹ھ کے بعد رکن عالم شیخ ابو الفتح رکن الدین ملتانی قدس سرہ نے مسند ارشاد کو زینت بخشی۔ یہ وہی زمانہ ہے جس میں دہلی کی سرزمین سے محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیا قدس سرہ (۷۲۵ھ) اپنے علمی و روحانی فیضان سے ایک جہان کو مستفیض کر رہے تھے۔ کتب تذکرہ میں یہ بات نہایت مضبوط ثبوتوں کے ساتھ مرقوم ہے کہ سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا اور رکن عالم شیخ رکن الدین ملتانی قدس سرھما دونوں ایک دوسرے کا بڑا ادب و احترام کیا کرتے تھے ، دونوں کے بیچ بہت گہرا اور مضبوط تعلق تھا اور دونوں مشائخ ایک دوسرے کے مراتب و کمالات کے معترف تھے۔ اور یہی روش ( باہمی ادب و احترام اور اعتراف کمالات )مشائخ حقہ کی پہچان ہے۔ چناں چہ شاہ رکن عالم جب بھی دہلی جاتے سلطان المشائخ سے ضرور ملاقات کرتے اور گھنٹوں باہم محو گفتگو رہتے۔
سلطان غیاث الدین کے زمانے میں چچا شیخ علم الدین کے اصرار پر رکن عالم شیخ رکن الدین ملتانی قدس سرہ سجادگی سے دست بردار ہو گئے اور دہلی میں سکونت اختیار کر لی۔ دوران قیام بارہا سلطان المشائخ سے ملاقات رہی ۔ سلطان محمد تغلق کے زمانے میں سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا قدس سرہ کا وصال ہوا۔ یہ وہی زمانہ ہے جس میں شاہ رکن عالم سجادگی سے برطرف ہو کر لمبی مدت کے لیے دہلی میں مقیم تھے۔ چناں چہ ۱۷/ ربیع الثانی ۷۲۵ھ میں جب سلطان جی کا وصال ہوا تو سیر الاولیاء کے مطابق نماز جنازہ شاہ رکن عالم نے پڑھائی اور تجہیز و تدفین کے بعد برجستہ فرمایا: آج مجھے تحقیق ہوا کہ عرصہ چار سال سے جو مجھے دہلی شہر میں رہنے کا حکم ہوا اُس سے صرف یہی مقصود تھا کہ سلطان المشائخ کی نماز جنازہ کی امامت کے شرف سے مشرف ہوں۔ (سیر الاولیاء، ص: ۲۴۴)۔ سلطان جی کی نماز جنازہ کے حوالے سے فتاویٰ صوفیہ (مخطوطہ) میں ہے کہ آپ کی نماز جنازہ سلطانِ وقت نے بذات خود پڑھائی ۔ لہذا، ممکن ہے کہ سلطان جی کی نماز جنازہ دو بار پڑھائی گئی ہو ۔ ایک بار شیخ رکن عالم نے پڑھائی ہو اور دوسری بار سلطان وقت نے۔
سلطان المشائخ کے وصال کے بعد شیخ رکن عالم ملتان تشریف لے گئے اور ملتان اور اطراف ملتان میں خلق خدا کی فیض یابی میں مصروف ہو گئے۔ وصال سے تقریبا تین ماہ پہلے شیخ الاسلام شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی قدس سرہ کے عرس میں لوگوں کے ازدحام سے آخری خطاب کیا اور اسی موقع پر اپنے بھتیجے شیخ صدر الدین محمد حاجی کو خرقہ و دستار سے سرفراز فرما کر مسند سجادگی عطا فرمائی اور خود خلوت نشین ہو گئے۔ ۷/ جمادی الاول ۷۳۵ھ کو مغرب کے بعد صلاۃ اوابین سے فارغ ہو کر سر سجدے میں رکھا اور جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ ۸/ جمادی الاول کی صبح نماز جنازہ سے فراغت کے بعد آپ کو شیخ الاسلام شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی قدس سرہ کے قدموں میں جگہ دی گئی۔ شیخ رکن عالم کی کوئی اولاد نہیں تھی جس کا انھیں ملال بھی نہیں تھا، کیوں کہ اللہ نے انھیں ایسے ایسے عظیم خلفا عطا کیے جن کے ذریعہ ان کی روحانی نعمتیں قیامت تک بٹتی رہیں گی۔ آپ کے خلفا میں شیخ صدر الدین محمد حاجی، مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری، سلطان التارکین شیخ حمید الدین حاکم بڑے نامور گزرے ہیں۔ شیخ رکن عالم نے باضابطہ کوئی کتاب تو تصنیف نہیں فرمائی، مگر آپ کے افکار و نطریات کی تفہیم کے لیے دو کتابیں بہت اہم ہیں ۔ ایک فتاوی صوفیہ اور دوسری کنز العباد۔ آپ کے صحبت یافتہ صوفی عالم شیخ فضل اللہ محمد بن ایوب ماجوی کی فتاوی صوفیہ زمانۂ تصنیف سے ہی مشائخ سہروریہ کے یہاں مقبول رہی ہے ۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صاحب در مختار علامہ علاء الدین حصکفی (۱۰۸۸ھ) نے اس کتاب کی تلخیص تیار کی تھی۔ ان شا ء اللہ جلد ہی فتاوی صوفیہ کا سلیس اردو ترجمہ شاہ صفی اکیڈمی خانقاہ عارفیہ سید سراواں سے شائع ہونے والا ہے اور اس کے بعد عربی محقق متن بھی اشاعت پذیر ہوگا۔ کنز العباد آپ کے مرید و تربیت یافتہ شیخ علی بن احمد غوری کی ہے۔ یہ شیخ الاسلام شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کی الاوراد کی شرح ہے جو پڑھنے ، بلکہ برتنے سے تعلق رکھتی ہے۔
شیخ رکن عالم قدس سرہ بڑے صاحب کرامت بزرگ گزرے ہیں ۔ ان سے حیات اور بعد وصاف بھی بہت سی کرامتیں ظاہر ہوئیں جس کے لیے کتب تذکرہ کی جانب رجوع کرنا چاہیے۔ ہم یہاں ان کی کرامتوں کی بجاے ان کے ملفوظات نقل کرتے ہیں تاکہ ان کی روشنی میں ہم اپنے اخلاق و کردار بہتر کر سکیں۔
شیخ رکن عالم فرماتے تھے: جب تک انسان اپنا تزکیہ نہیں کر لیتا اس کا شمار حیوانوں اور درندوں میں ہوتا ہے۔ اللہ کی رحمت کا ظہور یہ ہے کہ بندے کو اپنے عیوب نظر آنے لگتے ہیں۔ نفس کشی یہ ہے کہ انسان اپنے اعضا و جوارح پر ایسا قابو رکھے کہ ممنوعات شرعی سے قولا و فعلا باز رہے۔ انسان کے نیک ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے ہم سائے اس کی نیکیوں کا اثر قبول کریں۔ جو طالب حق نہیں وہ بطال(بیکار، ناکارہ) ہے۔

تحریر: آفتاب رشک مصباحی
شعبہ فارسی بہار یونیورسٹی، مظفرپور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے