اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنائیے

بے راہ روی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری، طعن وتشنیع، بد کلامی، تہمت وبہتان تراشی نے سماج کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیا ہے، جس کا نتیجہ دنیا میں بربادی، تباہی اور شرمندگی نیز آخرت میں ان گناہوں کی پاداش میں بغیر توبہ کے مرگیا تو جہنم ہے، المیہ یہ ہے کہ ان بُری عادتوں اور خصلتوں کو گناہ سمجھا بھی نہیں جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ان گناہوں سے واپسی کا خیال نہیں آتا، گناہوں پر مداومت اور اصرار بڑھتا جا رہا ہے۔ کہنا چاہیے کہ ذہن ودماغ سے احساس زیاں بھی رخصت ہو گیا ہے۔

اپنے اعمال کا تجزیہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ جھوٹ ہماری گفتگو کا جز و لاینفک بن گیا ہے، ہماری کوئی مجلس غیبت، چغل خوری سے پاک نہیں ہوتی،گالی، بدکلامی، لعنت وملامت اور بغیر تحقیق کے تہمت وبہتان تراشی میں ہم آگے ہیں،دوسروں کو رسوا کرنے کے لیے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں، سوشل میڈیا کے اس دور میں ہر ایرے غیرے کا ہاتھ موبائل کے کی بورڈ(Key Bord)پر ہے اور جو چاہے لکھتا چلا جاتا ہے، اس آزادی نے لوگوں کی پگڑیاں اچھا لنے کے کام کو آسان کر دیا ہے، پگڑیاں اچھل پاتی ہیں یا نہیں، لیکن اپنے نامہ اعمال میں ان رذیل حرکتوں کا گناہ تو درج ہوہی جاتا ہے۔

اللہ کی پناہ! ذرا سوچئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا سچ راہ نجات ہے، اور جھوٹ ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے، ہم نے ہلاکت والے راستے کو اپنا لیا ہے جس کی وجہ سے اللہ کی لعنت کے مستحق ہو رہے ہیں، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے، لعنۃ اللہ علی الکاذبین.  اگر ہم سچ نہیں بول سکتے، اس کی ہمت نہیں جٹاپاتے ہیں تو کم سے کم خاموش رہنا ہی سیکھ لیں، کیوں کہ خاموشی بڑا ہتھیار اور نجات کا ذریعہ ہے، مَنْ سَکَتَ نَجَا و منْ صَمَت نَجَا میں یہی بات کہی گئی ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ مسلمانوں کی زندگی میں جھوٹ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے اور سچ کو ہی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہیے، یہ بہت طاقت ور ذریعہ ہے، سچ کبھی شکست نہیں کھاتا، جھوٹ کے مقدر میں ہار ہے، ہو سکتا ہے اس ہار تک پہونچنے میں جھوٹے کو تھوڑی دیر لگ جائے۔

 خود غرضی بھی ہماری زندگی کو بری طرح متاثر کرتی ہے، خود غرض آدمی اپنے علاوہ کچھ اور دیکھ ہی نہیں پاتا ہے، اس مرض کا شکار نہ اپنے خاندان کے سلسلے میں مخلص ہوتا ہے اور نہ ہی ملک، ادارے تنظیموں، جماعتوں، جمعیتوں کے کام کا رہتا ہے، اس کی سوچ کا مرکز ومحور صرف یہ ہوتا ہے کہ ہمارا کس میں فائدہ ہے، حالاں کہ ہونا یہ چاہیے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں، جن اداروں اور تنظیموں سے ہمارا تعلق ہے، اس کی محبت اور قدر ہماری زندگی میں سمائی ہوئی ہو کہ ہماری ذات اور منفعت کی اس طرح نفی ہوجائے کہ محبت کا پلڑہ ملکی اور ملی مفادمیں جھک جائے، ہمارے اکابر نے ہمیں اسی بات کی تعلیم دی ہے۔

 دنیاوی زندگی میں مکافات عمل کا اصول کار فرما ہے، جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے، نظیر اکبر آبادی نے کہا ہے ؎

 کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے     کیا خوب سودا نقد ہے، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے

 یہی مکافات عمل ہے، سورج پر تھوکنے کا عمل اپنی پیشانی پر اس تھوک کو واپس لے لینا ہے، اس طرح کا کوئی عمل صرف اپنے احمق ہونے کا اعلان ہے، یہ بات صحیح ہے کہ انسان نفسیاتی طور پر اپنے خلاف کیے گئے کاموں اور تحریروں کا جواب دینا چاہتا ہے، لیکن ہمیں یہ بات خوب اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ کتا اگر کاٹ لے تو ہم بدلے میں کتے کے کاٹنے کو شریفانہ عمل نہیں سمجھتے۔

 ایسے موقعوں سے غصہ کو پی جانا اور معاف کر دینا شریفانہ عمل ہے، وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ میں ہمیں اسی کی تلقین کی گئی ہے، معافی سے ہمارے تحمل اور بر داشت کا پتہ چلتا ہے، حسد اور نفرت جیسے قبیح عمل سے ہم محفوظ رہتے ہیں، کیوں کہ یہ چیزیں جب ہمارے اندر داخل ہوجاتی ہیں تو یہ دیر سویر ہمارے زوال کا ذریعہ بنتی ہیں، لیکن جب ہم عفو ودرگذر سے کام لیتے ہیں تو محبت والفت کا ایک سمندر ہمارے دل ودماغ میں جوش مارتا ہے، اور اس کا فائدہ ہماری سوچ کو ہی نہیں ہمارے جسم ودماغ کو بھی پہونچتا ہے، ہم خود بھی خوش رہتے ہیں اور دوسروں تک خوشیاں پہونچانے کا کام کرتے ہیں۔

ہماری عادت دوسروں میں برائیاں تلاشنے کی ہو گئی ہے، جس طرح مکھیاں پورے جسم کو چھوڑ کر صرف گندی جگہ، پھوڑے پھنسی اور زخموں پر بیٹھا کرتی ہیں، اسی طرح ہماری نگاہ انسانوں کے کمزور پہلوؤں کی طرف لگی رہتی ہے، اس آدمی کے اندر لاکھ خوبیاں ہوں، لیکن مرکز نگاہ خامیاں ہواکرتی ہیں، خامیوں کی نشان دہی کرتے وقت ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جب ایک انگلی کسی کی طرف ہم اٹھاتے ہیں تو تین انگلیاں خود ہماری طرف ہوتی ہیں او رپوچھ رہی ہوتی ہیں کہ کبھی اپنا بھی جائزہ لیا ہے کہ تمہارے اندر کتنے عیوب ہیں، آپ کی سوچ کا اثر سامنے والے کے کردار پر پڑتا ہے، آپ کسی کو ہر وقت کہیں گے کہ آپ  بیمار سے لگتے ہیں، کچھ دن کے بعد وہ واقعی بیمار ہوجائے گا، لیکن جب آپ اسے بار بار صحت کا پیغام سنائیں گے تو کم از کم وہ ذہنی مریض بننے سے بچ جائے گا، آپ نے اپنے بچے کو بار بار کند ذہن کہا تو وہ کند ذہن ہوجائے گا، اس کے سمجھنے کی طاقت دن بدن کم ہوتی چلی جائے گی، اس لیے دوسروں میں اچھائیاں تلاش کیجئے، اس کا ذکر کیجئے، اگر آپ کسی کو بار بار ناکارہ کہتے ہیں تو اس کی کارکردگی میں یقینا کمی آئے گی، لیکن آپ نے اس کی تھوڑی محنت کی تعریف کر دی تو اس کی فعالیت میں بے پناہ ترقی ہوگی، آپ کا رکردگی بڑھانے کا کام کیجئے، ناکارہ بنانے کا نہیں۔

سماج کے جو کمزور لوگ اور طبقات ہیں، گھر میں بوڑھے والدین ہیں، ان کی جانب سے بے اعتنائی آج کل عام ہے، ان کی ضرورتوں کی تکمیل نہیں ہو رہی ہے، ہمارے پاس ان کو دینے کے لیے وقت نہیں ہے، بلکہ بعض گھروں میں انہیں ایذا رسانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اعلیٰ اخلاقی اقدار میں یہ بات بھی شامل ہے کہ چھوٹوں پر رحم کیا جائے، اور بڑوں کاادب واحترام کا خیال رکھا جائے۔

اسی طرح حسد بھی ہماری زندگی کو متاثر کرتا ہے، اس کا عادی شخص جلن کا شکار ہوتا ہے، اس سے اس کی قوت کار پر بھی اثر پڑتا ہے اور دل ودماغ کو خاص کرب سے گذرنا پڑتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ ہم اپنے دکھ سے اس قدر دکھی نہیں ہیں، جتنا دوسرے کے سکھ سے ہمیں پریشانی لاحق ہے۔

 خود کو بدلنے کا مزاج بنائیے، اصلاح کا کام خودسے شروع کیجئے، سماج میں آپ جو  تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں، اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو کام کا آغاز خود سے کیجئے، اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ اپنی اصلاح کیجئے، پھر عزیز واقربا کی کیجئے اور پھر خاندان، اور سماج کی طرف تدریجا بڑھیے اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الاَقْرَبِیْن اور یاٰیھَا الذِیْنَ آمَنُوا قُوا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا میں یہی بات کہی گئی ہے،کاش ہم اس راز اور کام کے اس طریقہ کو سمجھ کر اپنی زندگی میں اتارپائیں۔

تحریر: (مفتی) محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے