اسرائیلی سیاست کے بنیادی اساطیر

اپنی ممتاز کتاب ، ثقافت اور سامرا بيت Culture and Imperialism میں کولومبیا یونیورسٹی کے ادبیات کے سابق پروفسیر ایڈوارڈ سعید Edward Said” لکھتے ہیں کہ ” جیسا کہ ایک ناقہ نے ملاحظہ کیا کہ قومیں خود روایتیں ہیں۔ روایت پیدا کرنے کی باتو دوسری روایت کو وجود میں آنے سے روکنے کی طاقت ثقافت اور سامر اجیت کے لئے نہایت اہم ہے۔” صہیونی سیاست کی ستر سالہ خون آلودہ تاریخ کی جیتی جاگتی حقیقت کی نمائندگی ایڈوارڈ سعید نے اپنے ان الفاظ میں خوب دی ہے” اپنی سخت عالمانہ سیاست پر تنقید کرنے والی مخالف آواز بن آن کی آن میں بند کر دینے کے لئے زمین دور کارروائیوں میں عوام سے رائے ساز باز کر نے میں سیاسی صہیونی رہنما ہمیشہ سے کامیاب رہے ہیں۔” تاہم بعض اوقات تاریخ کے چند نازک موڑوں پر ایسی پر عزم شخصیتوں کی یورشوں سے ان کے رگ و ریثے میں بے چینی کی لہر سی دوڑ گئیں جو کہ ہمیشہ کے لیے ان کی نیندیں اڑا دیں ۔ ان نڈر سپہ سالاروں کی چھوٹی سی قطار حق گوئی اور بے خوبی کے روح افزا سوانح پیش کرتے ہوئے امید کی کرنوں کو مزید روشن کر دیا کہ مظلوم اقوام ایک بار پھر مایوسیوں کی تاریکی ظالموں کے خلاف صف آرا ہوسکتی ہیں ۔۔ Douglas Reed, Ilan Pappe. Edward said, Susan Nathan. David loves Norman Finkelstein. Alan Harts, Noam Chomsky David loving Douglas Reed جیسے نام ان کے شمار میں قابل ذکر ہیں۔ کو حق گوئی کی پروں بھاری قیمت چکانی پڑی کہ اس کو صیہوں دہشت گرد تنظیموں کا نشانہ بن کر ہر اسرار موت دی گئی۔ صہیونی روایت”narrative” کے مطابق ایجاد کئے گئے ہالو کوٹ سانی المیہ کی اسطوری حیثیت کی حقیقت کو پختہ ترین شہوت کے ساتھ روشنی ڈالنے کی نئی مہم ان دو سپہ سالاروکے بعد روحیہ گاروڑں نے اپنے کندھوں پر لے لی ۔ جس سلسلے میں لکھی گئی کتابوں میں سے اہم اور عمدہ کتاب اسرائیلی سیاست کے بنیاد ساز اساطیریہاں زیر بحث ہے ۔

کتاب کے مقدمے میں تصنیف کے مقصد سے قارنیں کو واقف کر اتنے ہوۓ گاروڈن لکھتے ہیں ۔ ” میں نے اپنی کتاب اسلام کی عظمت و زوال میں اسلامی بنیاد پرسنی کےخلاف جنگ لڑی تھی وہ جوان لوگوں کو بالکل نا خوش کروئی تھی۔ جنہیں میرا ایسا کہنا پسند نہیں آیا۔ عیسانی بنیاد پرستی کے خلاف بھی مذہب کی جنگ کی طرف نامی کتاب لکھی تھی جو مجھ سے وہ کہنا پسند نہیں کرنے والوں کو ناراض کر دی تھی۔ میں اب اس میں یہودی بنیاد پرستی کے خلاف جنگ کرنے والا ہوں ۔ اور اس کے بعد اسرائیلی صہبونی مجھ سے جنگ نہیں کریں اس کے بعد وہ اسرائیلی صیہونی جو مجھ سے جنگ نہیں کریں گئے ہیں ان کو بھر پور حملے کی دعوت دونگاں ۔ یہ لوگ Rabbi Hirsch کے ناکیدی ارشاد کو ذرا بھی پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ” صیہونیت یہودی نسل کو ایک قومی وجود میں تفسیر کرتی ہے جو کہ ایک بدعت ہے

Rabbi Hirsch کے الفاظ سے یہ بات صاف واضح ہو جاتی ہے کہ صیہونیت خود یہودی نسل کا دشمن ہے جیسا کہ Alan Hart نے اپنی کتاب Zionism The Real Enemy of Jews میں ثابت کیا – Rabbi Hirsch کے علاوہ اور بھی یہودی دینی رہنما صیہونیت کی شدید مذمت کرتے رہے ہیں جن کی شمار میں آنے والے ناموں میں امریکہ کے مشہور رہنماؤں Isaac meyer wise، MartinRabbi Buber,اور Albert Einstein نے بھی یہودی ریاست کے قیام کے خلاف آوازیں اٹھا نہیں تھیں۔ روجیہ گاروؤں نے مقدمے کے بعد اپنی اس کتابوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ۔ پہلے حصے میں عقائد / لا ہوتی اساطیر Theological myths پر بحث چھیڑی جب کہ دوسرا حصہ بیسویں صدی کے دوران وجود میں آئے ہوئے اساطیر کی تردید مضبوطی کے ساتھ کرتا ہے۔ تیسراحصہ ان اساطیر کا استعمال سیاسی طور پر کسی قدر ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے ۔

گاروڈن شروع میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ صیہونیت صرف اور صرف انیسویں صدی کی یورپی قومیت کی پیداوار ہے جس کا دین یہودیت سے دور کا بھی لگاو نہیں، بعد ازاں کا رواں صیہوں سیاست کی بنیاد استوار کرنے والے سات اساطیو کا چہرہ بے نقاب کر ڈالتے ہیں۔

(1) وعدہ کا اسطوره :
بودی بائبل کی پہلی کتاب سفر پیدائشی Genesis میں خداوند قدوس حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک وعدہ دیتا ہے جس کی موجب ان کی نسل کو کنعان سے لیکر فرات تک کا پورا علاقہ دیا جائیگا ۔ لیکن صیہونیوں نے اس کا لفظی ترجمہ کیا اور اس کو اپنی قومی علیحدہ کی کا ثبوت ٹہرانے لگے ۔ زمین کا وعد وہاں رہنے کے حق سے متعلق ہے نہ کہ کسی دوسری آبادی کی نسل کشی کر کے زبردستی اس کو چھین لیا جائے اور خدا کی منتخب قوم کی ریاست کو ہے کا گناہ انسانوں کے خون سے آبیار کیا جائے۔

(2) منتخب قوم کا اسطوره :-
بائبل کے سفر خروج میں فرعون سے مخاطب ہوتے ہوئے خدارو تو قوس نے کہا : ” اسرائیل میرا پہلوٹھی فرزند ہے۔ میں نے تجھ سے کہا تھا کہ میرے فرزند کو میری عبادت کے لیے چھوڑ دو۔ لیکن تو نے انکار کر دیا ۔ اس لیے میں تیرے پہلوٹھی فر زندہ کو تباہ کر دونگا۔

صیہونیت اس کا بھی لفظ ترجمہ کر کے پوری دنیا کو دو حصوں میں بانٹ دیتی ہے۔ ایک طرف اسرائیل جو خدا کی منتخب قوم ہے جانی پہچانی ہوتی ہے۔ جیسے میکسیکو کا Aztec قبیلہ اور افریقہ کا قادر قبیلہ بھی یہیں مانت ہے کہ خدا نے انہیں خاص طور پر انتخاب کر کے اپنے وطن میں آباد کیا ہے۔

(3) یہودا کا اسطوره:
بعد میں اسرائیل کا چھٹا وزیرا عظم بنے والا Menachem Begin 1948 میں دیر یا سین کے قتل عام کر نے پر آمادہ ہو گیا اور اسرائیل نےفلسطینیوں کو اپنے وطن سے فرار ہونے پر مجبور کرنے کے لئے ظلم و تشدد کی راه اختیار کی۔ صبرا اور شانیلا میں منظم قتل عام کے سلسلے میں جاری رہے اور فلسطین گاؤں اور شہروں میں قتل وغارت کا بازار ہمیشہ گرم ہوتا رہا۔ اس درد اندانہ حکمت علی کا جواز بائیبل کے ایک خیالی اسطورے سے ڈھونڈے جاتے ہے۔ جس کے مطابق ہوتا اور اسرائیل کی شکریں عملوں کی طرف روانہ ہو کہ اس شہر کو بری طرح تباہ و برباد کر کے اس کے بانہوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کریں گی۔ صہونیت کی سیاسی امنگیں اس کی حقیقت میں تبدیل کرنے کیلئے اس خیالی کہانی سے بھی خوب فائدہ اٹھاتی ہے۔

بیسویں صدی کے اسطورے :-
کتاب کے دوسرے حصے میں بیسویں صدی کے سیاسی و ثقافتی پس منظر گڑھ گئے اساطیر کا چرچہ ہے ۔

(4) فاشزم مخالف صیہونیت کا اسطوره :
جرمنی میں ہٹلرکے ہاتھوں بے شمار یہودی قتل ہونے والے سب سے نازک اور پر آشوب لحظے میں بھی جرمی کے صیہونی رہنما ہٹلر اور نازیست سے بغلگیر ہوتے تھے ۔ 1941ء میں اسحاق شامیر بینکر کا ساتھ دینے کا برملا اعلان کیا تھا ۔ دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد یہی اسرائیل کا رہنمابن گیا ۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوتے ہے کہ صہیونیت کا اہم مقصد یہودی سے جان بچانا نہیں تھا بلکہ ایک ریاست قائم کرنا تھا جس کی تکمیل کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقے اختیار کئے جائینگے ۔

(5) نوربرگ عدالت کا اسطوره :-
دوسری عالمی جنگ کے بعد کامیاب ہونے والی اتحاد طاقتوں کی طرف سے اپنے سگنی جرائم کو پردے میں ڈالنے کی نیت سے جو عدالت قائم کی گئی اس کا نام نورمبرگ عدالت ہے ۔اس عدالت میں بیسویں صدی کا سب سے بڑا اسطورہ ساٹھ لاکھ یہودیوں کی ہالو کوسٹ بھی جنم لیا۔

(6) ساٹھ لاکھ کا اسطوره :-

ہٹلر کے دور حکومت میں عرضی کی یہودی آبادی بھی دیگر غیر آری نسلوں کی طرح نازیوں کا نشانہ بنی تھی ۔ لیکن اتنی بڑی تعداد کی آبادی توجرمنی میں موجود ہی نہیں تھی ۔

دوسرے عالمی جنگ سے پہلے دنیا میں موجود یہودی آبادی کی تعداد سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پوری دنیا میں ہالو کوسٹ کے وقت ساٹھ لاکھ یہودی بہایا جانا نا ممکن ہے۔ قدرتی طور پر آبادی میں واقع اضافے کے حساب سے تقریبا چھ لاکھ یہودی ہٹلر کے ہاتھوں جرمنی میں نسل کشی کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کو قائم کرتا ہے تو پوری دنیا کی ہمدردی

ضروری تھی ۔ ساتھ ساتھ امریکہ ، سوویت پر نہیں، برطانیہ اور فرانس کو اپنی سامراجی امنگوں کے تلخ نتائج سے معلوم دنیا کی توجہ بتانا میں تھا ۔ تو ایک تیر سے دو شکار امریکہ سے ماریہ ناز منکر ” Norman Finkelstein کی کتاب” The Holocaust Industry”اس سلسلے میں خاصی ذکر کی حامل ہے۔

(7) بے لوگ زمین بے زمین لوگوں کے لیے کا اسطوره :-

مسلسل پرو پیگنڈا سے میری یہ بات ثابت کرتی ہیں کہ فلسطین میں کوئی آبادی ہی نہیں اور اس خالی جگہ کو پر کرنے کا حق یہودی میں مظلوم قوم کے سوا کسی اور کو نہیں ۔ اس بنیادی جھوٹ کی بنا پر فلسطین کے عرب مسلمانوں کا قتل عام اور نسل کشی کو انکار کرنے میں صہیونی لا جواب کہاں دکھاتے ہیں ۔ اپنے منطقی اور تجزیہ کارانہ انداز میں اس مسلسل جھوٹ کا

قلعہ بھی گاروڈن کھول دیتے ہیں۔ ایڈوارڈ سعید کی کتاب The politics of Dispossession جلا وطنی اور محرومی کی فلسطینی حقیقت کا دل دہلانے والا نقشہ کھینچتی ہے ۔ کتاب کا تیسرا حصلہ ان اساطیر کے استعمال کے گرد گھومتا ہے ۔ جس میں امریکہ اور فرانس میں سرگرم میبوی لالی ان دو ملکوں کی سیاست پر تسلط قائم کرنے کے دہشت انگیز طریقے کا اندازہ دیتا ہے۔ نیز ان جارحانہ عزائم اور انسانیت دشمنی کاروائیوں کی تائید میں باہر سے آنے والی امداد کا تجزیہ بھی قابل داد جنگی کے ساتھ کرتا ہے ۔ فلیسطنی مسلنے کے اس پس پردہ پہلو کو نہایت حراست کے ساتھ بے نقاب کرنے میں کاروڈی نے جو قدم اٹھایا تھا اس کے نقش قدم پر چلنے کے لئے بعد میں ایڈوارڈ سعید اور نام جو مسکی جیسے عظیم انسان بنیاں تیار ہوئیں اور انہوں نے منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا – Chomsky کی کتاب The Fateful Triangle اس موقع پرخاص تذکیرہ طلب ہے ۔

الغرض گاروڈی کی یہ کتاب دینی عقائد سے ناجائز فائدہ اٹھا کے اپنے تنگ سیاسی و سامراجی مفادات کامیاب بنانے والی صیہونیت اوراس کی پالوس طافتوں کا گریہاں چاک کردینے والی ہے۔ نیز اس کتاب میں فلسطینی مسئلہ کی بنیاد جڑوں کا جائزہ لینے کے ساتھ امن و السلام کی بنیاد جڑوں کا راہ میں روڑے اٹکانے والی عالمی سیاست کی خود غرض اور درندہ نما سرمایہ دارانہ نظام کی بھی سخت تردید ہے۔

اور اس کی بھلائی کے لئے صیہونیت پرست روایتوں کا رواج اپنا نصب العین بناتی عوام رائے کو فلسطین مخالف ڈھانچے میں پگھالنے میں کوشاں میڈیا اور اکیڈمی کی بھی پر زور مذمت ہے ۔ عام طور پر عالمی سیاست اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی سیاست میں دلچسپ قارئین کو گاروؤں کی یہ کتاب ایک مشغل راہ ثابت ہوگی جو انہیں اس سلگتی حقیقت سے واقعہ کر دیگی کہ ذہنی غلامی ہے سب سے بڑا سنگین جرم –

غلامی میں نہ کام آئی شمشیر میں نہ نہ پریں
جو ہوذوق یقینی پیداتوکٹ جاتی ہیں زنجیریں

ازقلم: انصاری غلام رضا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے