نفرت کی سیاست نے نہ صرف سیاست دانوں اور لیڈروں کو لاشوں پر کھڑے ہو کر آپنا قد اونچا کرنے کا ہنر سکھایا ہے بلکہ اپنا نام اور رتبہ بلند کرنے کے لیے وہ اوچھے ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ زندوں کو مردوں میں تبدیل کرنے،اور ڈرانے دھمکانے کا ایک کھیل ہے جو مسلسل جاری ہے ۔
ان کو تاج محل کے نیچے مندر دکھائی دیتا ہے تو کسی کو مسجد کے نیچے مندر ۔
کیا کسی کو مندر کے نیچے مسجد ،گرجا گھر ،استوپ،جین مندر،گرودوارہ اور دوسری عبادت گاہیں بھی نظر آتی ہیں ؟۔ اوقاف کی زمینوں ،مساجد ،درگاہوں پر ہوئے قبضوں سے یہ عبادت گاہیں کب واہ گزار ہوں گی ؟۔
سوال ہے کہ مسلمانوں کو مسائل میں الجھا کر ،انکی تعلیمی ترقی روک کر ،ان کے مدارس ،مکاتب کے نصاب کو لے کر،ان کی مساجد کے سروے ،اذان کی آواز کو لے کر آخر کب تک نفرت کی سیاست کے بازی گر اپنی دکان گرم رکھیں گے اور اپنا کاروبار چلائیں گے۔
مسائل میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کر بھیلایا گیا ہوں
گھروں پر بلڈوزر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر آنسو پونچھ کر پھر ایک تازیانہ ،پھر داد کا قہر،مسلمانوں کا خون اور ان ہی بے گناہوں کی گرفتاریاں ۔۔ پھر لاینحل مسائل اور مقدمات کی لمبی فہرست۔۔۔
نفرتی میڈیا ،متعصب جج ،فرقہ پرست سیاسی لیڈران آج ہمارے صدیوں پرانے بھائ چارے،امن وامان کو کہاں پہنچا کر دم لیں گے۔ ملک کی تصویر کو کس قدر بگاڑیں گے،اس کی کوئ متعینہ حد نظر نہیں آرہی ۔
ہمارا ملک سیکولر ،جمہوری نظام اور دستور سے چلتا ہے ۔اس کے لیے قانون موجود ہے ۔ اس طرح
گڑھے مردے اکھاڑنے سے تو صرف نفرت اور دنگے فساد کو ہوا ملے گی ۔اس سازش کو بے نقاب ہونا چاہیے۔
1947 کے وقت عبادت گاہوں کی پوزیشن اور اس پر بنے قانوں 1990 پر عملدرآمد
کر کے ان مسائل کا حل کیا جاسکتا ہے۔۔۔
شاعر نے بڑی اچھی بات کہی کہ
نئی لاشیں بچھانے کے لیے ہی
گڑھے مردے اکھاڑے جارہے ہیں
نفرت کی دکان بند کرنے کے لیے محبت کی دکان لگانے والے سامنے آئیں۔ سیکولرزم کی بات کہنے والےاپنے ہندو ووٹوں کے لیے چپی نہ سادھیں ،انصاف کی بات کہیں۔عدل قائم کریں ۔ظالم کا ہاتھ پکڑیں۔مظوم کا ساتھ دیں۔حق بات کہیں۔میڈیا اور عدالتیں اپنے وقار کو قائم کریں ۔گودی میڈیا کو بے نقاب کریں۔ بازی گروں کے چہرے سے دہرا نقاب اٹھائیں۔ایسے بد کرداروں کو بے نقاب کریں ۔
مسلمانوں
اللہ کی خاطر شعوری کوشش کریں،جذباتی نہ ہوں ،اپنے حقوق کے لیے عدالتی اور دستوری طریقے ا
پنائیں۔
علماء کرام ہمارے قائد ہیں .وہ مجاہد ملت ،شیخ المشائخ، رہبر ملت،مفجر اسلام ،انام المناظرین،شمس امصنفین،استاد العرب والعجم ، محدث وقت، رئیس التحریر، پروانہ شمع رسالت، حامی سنت ،ماہی بدعت،عالم شریعت،ضیا ءملت ہیں۔وہ تنقید سے اوپر ہیں ۔
جب زخم تھا معمولی تب کی نہ مسیحائی
نادان طبیبوں نے ناسور بنا ڈالا
مدارس اسلامیہ مسلمانوں کی قیادت میں آگے بڑھیں۔ وہ ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالیں ۔گروی بندی کرکے آمانے سامنے نہ آئیں ۔ایک دوسرے کی کردار کشی نہ کریں ۔عارف بہ لللہ حضرت سجاد نعمانی کا سنبھل کا خواب اور اس کی تعبیر بھی سانحہ سنبھل پر غور کا مقام ہے۔آپ اسے کشف وکرامات سمجھیں یا رویائے صادقہ،الہام والقاء یا کچھ اور ۔ بہر حال علماء متحد ہوں ،متفق ہوں ،مشاورت کریں ،اپنی دینی بصیرت ،فراست مومنانہ ،حکمت بالغہ ، تدبر ،تفکر،تذکر،اپنے زہد وتقوئ اور اللہ کے یہاں مقبولیت سےراہ نمائی فرمائیں ۔ مسالک جماعتوں،اداروں ،دانشوروں اور سیاست پر اثر انداز ہونے والے ،انصاف پسند وکیلوں ،شوشل میڈیا ، یو ٹیوبرس ،نیوز پورٹل ،صحافیوں ، سکیولر غیر مسلم حضرات کو ساتھ لیں۔
مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد اور اعتماد،شورائیت کو پروان چڑھائیں۔ایسے وقت میں علماء بھی ،قائدین بھی اور امت بھی گہرے اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ خیر سگالی کی ملک گیر مہم چلائی جائے ۔
ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
9224599910