سیتامڑھی، بہار: حضرت مولانا مفتی محمد اسماعیل صاحب قاسمی تقریباً 52 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، مفتی صاحب کے انتقال سے علمی و سیاسی حلقوں کے ساتھ عوام میں غم کی لہر دوڑ گئی ۔
حضرت کی نماز جنازہ اور تدفین بعد نماز عصر ان کے گاؤں بست پور ڈمرا سیتامڑھی کے قبرستان میں ہوئی
مفتی صاحب کی ذات اہل علم کے مابین محتاج تعارف نہیں ہے اس لئے کہ آپ کا علمی مقام جدا گانہ حیثیت رکھتا تھا آپ نہایت ہی سنجیدہ اور خوش مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ محب العلما والعوام بھی تھے
جنازہ سے پہلے مولانا نسیم القاسمی نے کہا کہ جنازوں میں شرکت کیجئے: یہ بھی موت کو یاد کرنے اور اس کی یاد کو پختہ کرنے نیز آخرت کی تیاری کرنے میں بہت معاون ہے، جب کوئی جنازوں میں شرکت کرتا ہے تو اسے اپنی موت یاد آجاتی ہے، اس کا دل نرم ہوجاتا ہے، دل کی سختی دور ہوجاتی ہے، اسے نیکیوں سے محبت اور گناہوں سے نفرت ہونے لگتی ہے، وہ یہ تصور کرتا ہے کہ آج اس شخص کا جنازہ میں پڑھ رہا ہوں کل میرا جنازہ میرے دوست پڑھ رہے ہوں گے، یوں وہ توفیق الٰہی سے اپنی آخرت کی تیاری میں لگ جاتا ہے
مولانا اظہار الحق مظاہری نے فرمایا کہ موت ایک بہترین ناصح ہے اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کو کثرت سے یاد کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ اس سے ہمارے اندر آخرت کی فکر پیدا ہو، دنیا کی رنگینی اور عیش و عشرت والی زندگی سے بے رغبتی پیدا ہو اور دل میں نیک کاموں کا جذبہ اور برے کاموں سے بچنے کا داعیہ موجزن ہو۔ بغیر جنازہ کے بھی قبرستان کی زیارت اس لئے مشروع ہے تاکہ ہم نصیحت حاصل کریں اور موت سے پہلے آخرت میں نجات کا سامان مہیا کرلیں۔ ذرا ٹھہر کر اور تدبر کے ساتھ قبرستان کی زیارت کی دعا پر غور کریں تو بند آنکھوں سے محسوس ہوگا کہ ان مردہ لوگوں میں ایک لاش ہم بھی ہیں۔ ہم بھی ان لوگوں کی طرح ایک قبر میں اکیلے لیٹے ہیں، منکر نکیر ہم سے بھی سوال کررہے ہیں، اس قبر کی تنہائی اور اس کے فتنے کا شکار ہم بھی ہو سکتے ہیں۔
جنازے کی نماز جامعہ اشرف العلوم کنہواں کے ناظم حضرت مولانا اظہار الحق صاحب مظاہری کی اقتدا میں ادا کی گئی ۔
پسماندگان میں دو بیٹے مفتی قیام الدین قاسمی و مولانا نظام الدین قاسمی ، دو بیٹیاں اور ملک و بیرون ملک میں پھیلے ہوئے شاگردوں متعلقین و متوسلین کی ایک بڑی جماعت کو روتا بلکتا چھوڑ گئے ۔
مفتی صاحب کئی سالوں تک جامعہ اشرف العلوم کنہواں کے مؤقر استاد اور دارالعلوم نپانی کرناٹک کے شیخ الحدیث رہے، فی الوقت مدرسہ مصباح العلوم عالم نگر ہرپوروا میں تدریسی خدمت انجام دیرہے تھے اور کسیا پٹی کی جامع مسجد میں امام تھے اور وہیں گزشتہ رات تقریباً دو بجے انتقال ہوا
سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ خصوصاً مولانا عبدالرشید ، مولانا مظفر حسین مظاہری مفتی فیاض حمید القاسمی، مولانا محمد رضوان القاسمی ، مولانا فہد نعمانی ، مولانا مشاہد انور ، مولانا عبداللہ قاسمی ، مولانا تنویر شمسی، قاری محمد امین الرشید سیتامڑھی، مولانا عبدالعظیم قاسمی، مولانا ممتاز قاسمی، مولانا طارق انور عثمانی، مولانا راشد انور قاسمی وغیرہ اور قرب و جوار کے لوگ شریک رہے
میں اس موقع پر حضرت کی اولاد سے ، اہل خانہ سے تعزیت بھی کرتا ہوں، دعا بھی کرتا ہوں، اپنے متعلقین سے، تلامذہ سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ حضرت کےلئے دعائے مغفرت اور دعائے رفع درجات فرمائے۔اس بات کا ان کی اولاد، اور متعلقین عزم فرمائیں کہ جو دینی خدمات حضرت انجام دے رہے تھے ، ہم ان کے جانے کے بعد ان دینی خدمات کو سرانجام دیتے رہیں گے، ان کی نیک نامی کا ذریعہ بنیں گے، ان کےلئے صدقہ جاریہ بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں اکابر کے رستہ پر چلائے۔
محمد امین الرشید سیتامڑھی