تب تک دلِ بے کیف کو راحت نہیں ملتی
جب تک تری الفت کی حرارت نہیں ملتی
ہونٹوں پہ سدا جس کے رہے جھوٹ کی لعنت
ایسے کسی انسان کو عزت نہیں ملتی
انعام کی امید کرے کوئی وہاں کیا
محنت کی جہاں لوگوں کو اجرت نہیں ملتی
کچھ کر کے دکھانا ہے جہاں والوں کے آگے
آرام طلبی سے تو شہرت نہیں ملتی
حاوی ہوئی مسکان پہ اشکوں کی روانی
راحت کو غم و درد پہ سبقت نہیں ملتی
صحرا ہمیں ملتا ہے گلستاں نہیں ملتا
ملتی ہے عداوت پر اخوّت نہیں ملتی
اب حسن بھی مصنوعی ہوا اتنا کہوں کیا
رنگت ہی فقط اس میں ہے نکہت نہیں ملتی
آنکھوں سے فنا ہونے لگا شرم کا پانی
اب اپنی خطاؤں پہ ندامت نہیں ملتی
چاہیں تو فریبی تجھے اوقات دکھا دیں
پر اپنی نجابت کی اجازت نہیں ملتی
تم نے تو بنا رکھا ہے ہر ایک کو بیری
پھر شکوہ نہ کرنا کہ اعانت نہیں ملتی
بچو مرے اطہرؔ کی نصیحت کو رکھو یاد
بے علم کبھی عقل و فراست نہیں ملتی
نتیجہ فکرْ: اطہرؔ مرشدآبادی