امریکی برتری داؤں پر ؟

اسرائیل اور امریکا کو ایک حکمت عملی کے تحت مشرق وسطیٰ میں ایران نے ایک ایسی جنگ میں phansa دیا ہے جس میں امریکہ چاہ کر بھی ایران کے خلاف ناٹو ممالک کی طاقت کا استعمال نہیں کر سکتا ہے ۔ایران نے غزہ اور لبنان میں اسرائیل کو سیدھے طور پر الجھایا ہے جبکہ بحر احمر یعنی ریڈ سی میں امریکی بالا دستی کے خلاف یمن کے باغی گروپ حوثی کو پیچھے لگا دیا ہے۔ایک سال کی جنگ کے باوجود ریڈ سی کو امریکہ اور مغربی یورپ نے اپنے لیے محفوظ نہیں بنا سکے ہیں ۔جبکہ یمن کے حوثی جب چاہتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں ریڈ سی میں امریکی اور اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ یمن پر امریکہ اور انگلینڈ کی مسلسل بمباری کے باوجود حوثی کی طاقت کو کمزور نہیں کیا جا سکا ہے ۔ریڈ سی میں یمن کے حوثی باغیوں نے ایک طرح سے کہا جائے امریکی بالا دستی کو ختم کر دیا ہے اور یمن کی اجارادری پوری طرح قائم ہو چکی ہے ۔امریکہ کے لئے اس سے بڑی سبکی اور کچھ نہیں ہو سکتا ہے ۔
غزہ اور لبنان میں دیکھنے میں تو اسرائیل کی افواج لڑ رہی ہیں لیکِن گولہ بارود سے لے کر انٹیلیجنس حمایت تک امریکہ سمیت زیادہ تر مغربی ممالک اسرائیل کو کر رہے ہیں ۔اُنہیں امریکی اور برطانوی انٹیلیجنس حمایت کی بدولت اسرائیل حزب اللہ سربراہ حسن نصراللہ اور حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
ایران اپنے پراکسی کے ذریعے اسرائیل اور امریکہ کی بالا دستی کو ایک طرح سے مغربی ایشیا سے ختم کرنے کے قریب پہنچ چکا تھا ۔حالانکہ ایران جانتا تھا کہ اُسکی سب سے کمزور کڑی شام کی اسد سرکارہے۔اور اسد سرکار ایران کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔شام کی زمین پر ایک جانب امریکی افواج ڈیرہ ڈالے ہوۓ ہے تو دوسری جانب ترکی نے ایک بڑے علاقہ کو اپنے قبضہ میں کر رکھا ہے ۔اور ایک جانب اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر پورے شام پر اپنی نظر رکھے رہتا ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے شام میں بمباری کر نکل جاتا ہے ۔شام کے جوابی کارروائی نہ کرنے پر بھی کئی طرح کے سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن شام میں اسد سرکار کو قائم رکھنا ایران کی سلامتی کے لئے ضروری ہے ۔ایران اور اسرائیل کی سرحد آپس میں نہیں ملتی ہیں ۔لیکِن ایران اور اسرائیل کے درمیان مشرقی وسطیٰ میں بالا دستی کی لڑائی سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ہے ۔ایران اور اسرائیل کی لڑائی کی بات جب بھی سامنے آتی ہے تو ایران حزب اللہ اور شام کی اسد سرکار کی وجہ سے اسرائیل پر بھاری پر جاتا ہے ۔اسلئے 2011 میں اسرائیل اور امریکا نے شام میں خانہ جنگی کو ہوا دیا تھا ۔اس خانہ جنگی کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے گئے تھے اور لاکھوں شامی بے گھر ہوئے تھے۔شام میں صرف تیس فیصدی شیعہ آباد ہیں اور ستتر فیصدی سُنّی اور کرد ہیں۔جبکہ حکمراں اسد شیعہ ہیں اور شامی افواج میں بھی اکثریت سنیوں کی ہے۔لیکِن اسرائیل ،امریکہ اور اُنکے عرب اتحادی 2011 میں شام میں حکومت کے باغیوں کے ساتھ ہر طرح سے کھڑے ہونے کے باوجود اسد سرکار کو گرا نہیں پائے تھے۔کیونکہ ایران اور روس نے اسد سرکار سے مل کر اُن باغیوں کو کچل ڈالا تھا ۔امریکہ کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ شام میں ایک ایسی سرکار قائم کر دی جائے جو مصر اور اردن کی طرح امریکہ اور اسرائیل نواز ہو ۔شام میں اگر ایسی حکومت قائم ہوتی ہیں تو اسرائیل کی سرحد ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائےگی اور فلسطین کا قصہ ہمیشہ کے لیئے ختم ہو جائے گا ۔یہاں تک کہ لبنان میں حزب اللہ کی بھی کہانی ختم ہو جائے گی ۔کیونکہ حزب اللہ کو شام کے راستے ایران سے اسلحے کی سپلائی ہوتی ہے اور وہ راستہ بند ہو جائے گا ۔
اسلئے ایران کو کمزور کرنے کے لئے شام میں اسد سرکار کو گرایا جانا امریکہ اور اسرائیل کے لئے ضروری ہو گیا ہے۔حماس اور حزب اللہ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی طاقت راز افشاں ہو چکا ہے ۔اب اسرائیل کے خلاف کوئی بھی ملک دو دو ہاتھ کر سکتا ہے ۔ایسے میں مشرقی وسطیٰ میں اپنی طاقت یکجا کرنے کے لئے ایک دوسرے ناٹو ملک ترکی سے مل کر شام میں خانہ جنگی کی شروعات کرا دئ گئی ہے ۔شام میں ہو رہے جنگ کو خانہ جنگی نہیں کہا جا سکتا ہے بلکہ اس جنگ میں ازبیک ،قازق اور دوسرے وسطی ایشیا کے کرائے کے لڑاکے جنگ میں شامل ہیں۔ایران اور روس کسی بھی طرح سے اس جنگ میں شام کے باغیوں کو جیتنے نہیں دے گا۔ہاں اس جنگ کے شروع ہونے سے اسرائیل کو تھوڑی راحت ضرور ملی ہے۔کیونکہ حزب اللہ کا بھی فوکس شام پر چلا گیا ہے ۔شام کی اس لڑائی میں قطر کو چھوڑ کر سبھی خلیجی ممالک اسد کے ساتھ ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ لبنان اور غزہ مکمل جنگ بندی کی جانب بڑھ رہا تھا ۔اگر دونوں جگہوں پر جنگ بندی ہو جاتی ہیں تو ایران مشرقی وسطیٰ کا سب سے طاقت ور ملک بن جائے گا جو اردگان کو منظور نہیں ہے ۔اردگان خود کا بھی مغربی ایشیا میں اپنی مضبوط حثیت دیکھنا چاہتا ہے ۔ساتھ ہی ترکی میں دس لاکھ شامی 2011 کی خانہ جنگی کے دوران پناہ گزین ہوئے تھے ۔ترکی کے مقامی لوگوں کو اس سے دشواری پیش آ رہی ہے ۔ایسے میں ترکی بھی اپنے یہاں ره رہے شامی پناہ گزینوں کے مسئلے کو اس جنگ کے سہارے سلجھا لینا چاہتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ شام کے معاملے میں جارحانہ بیان بازی سے گریز کرتے نظر آ رہے ہیں ۔شام کی اسد سرکار کو امریکہ اور اسرائیل کے آخری ترکش سے بچا لے گئے تو آزاد اور خودمختار فلسطین کا وجود ناگزیر ہو جائے گا اور امریکہ کو ہمیشہ کے لئے مشرقی وسطیٰ سے بوریہ بستر باندھ لینا پڑے گا۔شام میں روس کی انٹری کے ساتھ ہی تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے اور امریکہ اور مغربی یورپ کا آفتاب غروب ہوتا نظر آ رہا ہے ۔دنیا میں ایک نئے ورلڈ آرڈر کی بنیاد رکھی جا رہی ہے ۔اس نئے ورلڈ آرڈر کو مکمل ہونے میں کتنا وقت لگے گا یہ نہیں معلوم لیکِن دنیا میں امریکی برتری ضرور ختم ہوتی نظر آ رہی ہے یہ یقین کے ساتھ ضرور کھ سکتا ہوں ۔

تحریر : مشرف شمسی، میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے