اسلام ومسلمیں کے لیے پہلا ڈیٹینشن کیمپ اور اس کے اثرات

       دنیا بھر کی تمام تر باطل طاقتیں روز اول سے ہی مذہب حق وصداقت "اسلام” کے خلاف کمربستہ رہی ہیں۔ یہ باطل طاقتیں ہمیشہ سے مذہب اسلام کو مٹانے کی ناکام اور مسلمانوں کو تکلیف پہونچانے کی کامیاب کوششیں کرتیں آئیں ہیں۔ مگر چونکہ مذہب اسلام پر خود خداے واحدہ لاشریک نے مہر حقانیت وصداقت ثبت کر دی ہے اس لیے جب بھی اسلام ومسلمین کو دبانے اور مٹانے کی کوشش کی گئی اگر چہ بروقت اس میں کامیابی مل گئی ہو مگر اس کے بعد مذہب اسلام کو جو فروغ ملا ہے اس نے اقوام عالم کی آنکھوں کو کھیرہ کر دیا چاہے وہ میدان کربلا کی خوں ریزی کے بعد یزیدیوں کے تخت وتاج کا تاراج ہونا ہو یا پھر اس سے پہلے اسلام ومسلمین کے لیے پہلے ڈٹینشن کیمپ "شعب ابی طالب” کے بعد اسلام کا بول بالا۔
      آج کل وطن عزیز ہندوستان کی ایوانوں سے پاس ہوئے شہریت ترمیمی قانون(CAA) اور قومی اندراج شہریت(NRC) کے متعلق ہو رہے احتجاجات نے تاریخ اسلام کے وہ ابتدائی دور ضرور یادلادئے ہیں جب تن تنہا نبی آخر الزماںﷺ نے جبل ابوقبیس سے اعلان حق وصداقت(توحید ورسالت) کیا تھا تو اسی قوم نے آپ کے خلاف علم بغاوت  بلند کردی تھی جو صبح وشام آپ کو امین وصادق کہہ کر پکارتی تھی مگر نصرت حق ہمیشہ آپ کے ساتھ تھی، اور ابھی چند گنے چنے افراد نے ہی اسلام کی حقانیت کا مشاہدہ کیا اور کلمہ گو ہوئے تھے کہ کفار کے پیروں تلے زمین کھسکنا شروع ہوگیا تھا ہر ممکن کوشش کرنے لگے کہ کسی طرح حق وصداقت کا یہ علم بردار رک جاے کبھی مال وزر کی لالچ دی تو کبھی تخت وتاج کی، کبھی مجنوں ودیوانہ کہہ کر ہجو کی گئی تو کبھی کاہن وساحر کہہ کر لوگوں کو آپ کی حقانیت سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی، کبھی آپ کی راہوں میں کانٹے بچھائے گئے تو کبھی آپ کے غلاموں کو گرم پتھروں پہ لٹایا گیا۔ مگر حق وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولے، پھر جب کامیابی نہ ملی توآپ اور آپ کے جاں نثار مسلمانوں کو "شعب ابی طالب” نامی ڈیٹینشن کیمپ میں ڈالنے کا منصوبہ بنایا گیا اور ایک 
رقعہ لکھ کر خانہ کعبہ کے دیوار پہ لٹکا دیا گیا۔ مسلسل تین سال تک نبی کریمﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ قبیلہ بنوہاشم، بنومطلب کے دیگر افراد کو بھی اس ڈیٹینشن کیمپ میں محصور ہونا پڑا، غلّے اور سامان خوردونوش کی آمد بند ہوگئی۔ کیونکہ مکے میں جو غلہ یا فروختنی سامان آتا تھا اسے مشرکین لپک کر خرید لیتے تھے۔ اس لیے محصورین کی حالت نہایت ابتر ہوگئی، انہیں پتے اور چمڑے کھانے پڑے۔ فاقہ کشی کا حال یہ تھا بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں اور عورتوں کی آوازیں گھاٹی کے باہر سنائی پڑتی تھیں۔ ان کے پاس بمشکل ہی کوئی چیز پہنچ پاتی تھی ، وہ بھی پس پردہ۔ وہ لوگ حرمت والے مہینوں کے علاوہ باقی ایام میں اشیائے ضرورت کی خرید کے لیے گھاٹی سے باہر نکلتے بھی نہ تھے اور پھر انہیں قافلوں کا سامان خرید سکتے تھے جو باہر سے مکہ آتے تھے لیکن ان کے سامان کے دام بھی مکے والے اس قدر بڑھا کر خریدنے کے لیے تیار ہوجاتے تھے کہ محصورین کے لیے کچھ خریدنا مشکل ہوجاتا تھا۔ غرض کہ تین سال شدید مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑا ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے لیکن ظلم کی ٹہنی کب تک ہری بھری رہنے والی تھی بالآخر نبی کریمﷺ کی دعا پر اللہ رب العزت نے دیمک بھیج کر اس رقعہ کو اندر سے مٹا دیا صرف نام اللہ کو چھوڑا تھا۔ گو اس طرح اس سے نجات ضرور ملی باوجودیکہ اس کے تین سال بعد ہی ہجرت کی نوبت تک آگئی مگر اس کے بعد وہ انقلاب بپا ہوا جس کا آغاز جنگ بدر سے ہوا اور دنیا نے دیکھا کہ چند ہی سالوں بعد پیارے نبیﷺ اور وہی مظلوم مسلمان بحیثیت فاتح مکہ میں داخل ہوئے اور پھر کیا تھا ایران وعراق سے لے کر شام وفلسطین تک اور پھر ھندوستان تک اسلامی پرچم لہرانے لگا۔ مگر آج پھر اسی ھندوستان میں مسلمانوں کی حالت ابتر ہوگئی جہاں تقریباً آٹھ صدی سے زائد عرصے تک مسلمانوں نے حکومت کی تھی اور جہاں آج بھی خواجہ کی ایسی حکومت ہے کہ حکمران ھند فقیر بن کر سلامی دیتے ہیں اسی ملک میں نوبت یہاں تک آ پہونچی ہے کہ نا جانے کب این۔آر۔سی۔ کے ذریعہ ان غریب مسلمانوں کو "ڈیٹینشن کیمپ” میں ڈال دیا جاے جن کے پاس دستاویزات
کی کمی ہو کیوں کہ سی۔اے۔اے۔ کی بنا پر انہیں بعد میں شہریت بھی نہیں مل سکتی۔ اور اگر دستاویز دستیاب ہو تب بھی شہریت ملنے کی کیا گارنٹی ہے؟ کہ *صدیوں پرانی دستاویز دکھانے پر مسجد تو ملی نہیں پھر ستر70 سال پرانی دستاویز سے شہریت ملنے کے امکانات ہی کتنے ہیں؟* مگر مسلمانوں کو اس ذات پہ مکمل اعتماد اور یقین کامل رکھنی چاہیئے جو احکم الحاکمین کے ساتھ ارحم الراحمین بھی ہے اس کی رحمت کو کب گنوارا ہوگا کہ اس کی بارگاہ میں سر جھکانے والے دوسروں کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوجائیں اور وہ تخت وتاج کو یوں پلٹتا ہے جیسے کوئی اپنی ہتھیلی کو پلٹے جس کی جھلکیاں ہم نے ماضی کے جھروکوں سے دیکھا ہے کہ اس نے قیصر و کسری کے تخت حکومت پر بوریا نشینوں کو بٹھایا ہے اور  اہلیان برصغیر کے دلوں پر خواجہ ھند کو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے