جامعہ امّ الہدی پرسونی میں سالانہ تعلیمی مظاہرہ کاانعقاد
مدھوبنی/بہار: 27 مارچ، ہماری آواز(نمائندہ)
جامعہ امّ الہدی پرسونی مدہوبنی بہار میں طالبات کاسالانہ تعلیمی مظاہرہ ورسمِ اجراءِ کتب کاانعقادنہایت تُزک و احتشام کے ساتھ بتاریخ:13/شعبان المعظم 1442ھ مطابق 27/مارچ 2021ء بروز سنیچر ہوا، جس کی صدارت معروف عالمِ دین حضرت مولانا حافظ ظفراحمد صاحب سبیلی مہتمم مدرسہ انوار الاسلام اسراہا دربھنگہ نے فرمائی،جب کہ نظامت کافریضہ جامعہ ہذا کےاستادمولانا سرفرازعالم صاحب قاسمی نے انجام دی۔جامعہ ہذا کےایک تجربہ کاراستادمولاناضیاءالحق صاحب حسینی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا، جب کہ قاری محمد راشدصاحب استادجامعہ ہذا نے تحریک صدارت اور قاری محمد ابوبکر صاحب استادجامعہ ہذا نے تایید صدارت کی ذمے داری سرانجام دی۔پروگرام کاآغازمن تشاء پروین بنت محمد آفتاب عالم کی تلاوت سے ہوا،جب کہ خوشناز پروین بنت محمد احسان نے حمداورآفرین پروین بنت رقیب الحسن نے نعت پیش کی۔علاوہ ازیں جامعہ کی طالبات نے اردو،عربی ،انگلش تینوں زبانوں میں خطابت کے جوہر دکھائے اورسامعین سے دادوتحسین وصول کیا۔اس پروگرام میں جامعہ ہذا کے مؤسس وناظم جناب مولانا نوشاداحمد صاحب مفتاحی کی دوگراں قدر علمی تالیفات(1) رمضان اور صحابیات (2) مبادیات دین کارسمِ اجراء عمل میں آیا۔اس پروگرام میں علماء کرام کے تین اہم خطابات ہوئے،جن میں پہلا خطاب جامعہ ہذا کے باوقار استادتفسیروصدر المدرسین مفتی اسعداللہ صاحب قاسمی مظاہری کاہوا،جس میں انہوں حالیہ دنوں میں وسیم رضوی کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل کردہ عرضی کوموضوعِ گفتگو بنایا،جس میں اس بدبخت نے 26 آیاتِ جہاد کو قرآن سے حذف کرنے کامطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ اُن سےانتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے،مفتی صاحب نے اپنے علمی خطاب میں آیاتِ جہاد پرہونے والے اعتراضات کا نہایت آسان اندازمیں مدلّل ومُسكت جواب دیتے ہوئے کہا کہ:اگراسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہوتاتو اس میں امن دینے کی بات نہ ہوتی،جب کہ اسلام کی تعلیم میں امن دینے کی بات موجود ہے کہ اگر مشرک قوم امن مانگے تواسے امن دے دیا دیاجائے۔اگراسلام تلوار کے زور سے پھیلاہوتاتواس میں صلح کی بات نہ ہوتی،جب کہ اسلام کی تعلیم میں صلح کی بات موجود ہے کہ اگر مشرک قوم صلح پرآمادہ ہوتواس سےصلح کرلیاجائے۔اگر اسلام تلوار کے زور پرپھیلتاتواسلام کی تعلیم میں جزیہ کی بات نہ ہوتی،جس کے بعدمشرک قوم محفوظ ہوجاتی ہے،اسی طرح مشرک قوم کے ایمان لانے کے بعدان سے جنگ درست نہیں،اس کے علاوہ اوربھی پختہ دلائل سے اس سلگتے ہوئے موضوع پر تشفی بخش اظہار خیال کیا۔دوسرااہم خطاب مہمانِ خصوصی ،فاضلِ نوجواں،کئی کتابوں کے مصنف،مدینہ منورہ میں امریکن یونیورسٹی کے مؤقر استاد مولانا ضیاء الرحمن حقانی قاسمی کا ہوا،انہوں نے اپنے پُرمغز خطاب میں اس بات پر زوردیا کہ ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کے لیے مرد وخواتین دونوں کا پڑھا لکھا اور تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے،نیز انہوں نے بچیوں کی کارکردگی پرنہایت خوشی کا اظہار کیااور انہیں خوب دعائیں دیں،خصوصًا بچیوں کی عربی وانگلش تقاریرکو بہت سراہا،پھراخیر میں صدرِاجلاس حضرت مولانا حافظ ظفراحمد صاحب سبیلی نے صدارتی خطاب کیا،جس میں انہوں نے جہاں تین سالہ مختصر مدت میں جامعہ کی تیزی سے ترقی پر ذمہ داروں کو مبارکباد پیش کی وہیں اہالیانِ بستی سے جامعہ کے ہرممکن تعاون کی تلقین کی،اس موقع پرمولانا حیدر ،مولانا سجاد،مولانا گلاب سلفی،ڈاکٹراسد،حاجی نثار سمیت بستی کی اہم شخصیات موجود تھیں۔جلسہ کااختتام صدرِاجلاس کی دعاء پر ہوا۔