از :سید ایاز ناندیڑ
(متعلم: اشرف العلوم حیدر آباد)
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں دو دن بہت زیادہ اہمیت اور تعظیم کے لائق ہیں، پہلا تو یوم آزادی (15/اگست) دوسرا یوم جمہوریہ (26/جنوری) 15/ اگست کو ہمارا ملک آزاد ہوا اور 26/جنوری کو آئنِ ہند مرتب ہوا اور ہمارا ملک جمہوری ملک بنا بہرحال اس آزادی اور دستور ہند کے مرتب کرنے میں مسلمانوں کا بہت اہم رول اور کردار رہا ہے ۔
اٹھارویں صدی کی بات ہے کہ ملکِ ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا اور اس ملک میں محبت و اخوت کی فصلیں لہلہا رہی تھیں، یہاں کے لوگوں میں میل جول اور اپنائیت تھی ،یہاں کی ہوائیں ایکتائیت اور اتحاد کا درس دیرہی تھی کہ یکا یک یہاں ظلم وستم کا سیلاب آ پڑا اور یہاں کا چین و سکون غارت ہوگیا، بدامنی ،ظلم و زیادتی کا دور دورہ ہو گیا ، ان کے گلوں میں غلامی کے پھندے اور ان کی گردنوں میں اسیری کے طور ڈالے گئے یہ سب کرنے والے وہ تن کے گورے من کے کالے سفید فام انگریز تھے، جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے بغرض تجارت ہندستان میں داخل ہوئے پھر انھوں نے اس ملک کے بھولے بھالے باشندوں کو دامنِ فریب میں پھانسنا شروع کردیا ، ان کو اپنا بندھی بنادیا ،اور اس ملک پر اپنے قدم جمانے شروع کر دیے ، اپنی شاطرانہ اور عیارانہ چالیں شروع کردی یہاں کی جائداد دولت وثروت پر قابض ہوگئے، جب پانی سر سے اوپر ہوگیا اور ان کی شرارتوں کی انتہاء ہوگئی تو سب سے پہلے مسلم قوم نے علم بغاوت و علم جہاد بلند کیا ، فتویٰ جہاد دیا اور انگریزوں کو للکارنا شروع کیا پھر سب سے پہلے باقاعدہ جنگ 1754ء میں بنگال کے نواب علی وردی نےشروع کی اور فتح حاصل کی،ان کے بعد ان کے نواسے سراج الدولہ نے انگریزوں سے لڑتے ہوئے داعیِ اجل کو لبیک کہا، میسورمیں حیدر علی اور ان کے فرزند فاتح ٹیپونے
انگریزوں سے لوہا منوایا، 1803ء میں شاہ عبد العزیز نے جہاد کا فتوی دیا، سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل نے اپنے رفقاء کے ساتھ بالاکورٹ میں لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا، 1857ء میں مولانا فضلِ حق خیرآبادی نے جہاد کا فتوی دیا اور اس کےبعد علماء کرام اور عوام نے مل کر میدانِ کارزار گرم کیا، ہزاروں جان نثاران وطن نے اپنی قربانیوں سے اس وطن کو رنگ دیا، 1857ء میں یہی شاملی کے محاذ پر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، حافظ ضامن شہید جیسی بڑی بڑی اور اولو العزم شخصیتوں نے انگریزوں سے جہاد کیا ، اس پاداش میں کئی علماء کرام شہید ہوے اور بعض کو کالا پانی کی سزا دی گئی،1857ء کی آزادی میں جنرل بخت خان احمد اللہ شاہ مدراسی اور مولوی احمد شاہ فیض آبادی وغیرہ بہادروں نے قائدانہ رول ادا کیا، مولوی احمد شاہ فیضی کو تو انگریزوں نے اپنا بڑا دشمن سمجھ کر ان پر پچاس ہزار روپے کا انعام رکھا تھا ،
1857ء کی جنگ آزادی میں علماء عظیم آباد جس میں عبد الحی عظیم آبادی، مولانا عبد اللہ عظیم آبادی اور علماء صادق پور جن میں مولانا فضلِ حق خیر آبادی، مولانا جعفر تھانیسری حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علماءدیوبند وغیرہ بھی شامل تھے، انھوں نے اور ان جیسے کئیں علماء نے اس وطن کیلے اپنے تن من دھن کی بازی لگادی، 1919ء میں جمیعۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا اور اس کا مقصد ان انگریزوں کو اس مقدس سرزمینِ ہند سے بھگانا تھا، جس میں شیخ الہند مولانا محمدود الحسن مدنی، مولانا حسین احمد مدنی عطاءاللہ شاہ بخاری، مولانا ثناء اللہ امرتسر، مولانا محمد علی جوہر، مولانا آزاد جیسے عظیم المرتبت شخصیات شامل تھیں، 1921ء میں مولانا حسرت مہانی نے مکمل آزادی کا مطالبہ کیا ان کے علاوہ بہادر شاہ ظفر، بیگم حسرت محل، امجدی بیگم، بیگم عزیزہ، مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولانا عبید اللہ سندھی، محمد میاں منصور انصاری، مولانا رحمت اللہ صادق پوری، مولانا مظہر الحق سیف الدین، میاں ندیر حسین، محدث دہلوی، علی برادران عظیم اللہ خان، مولوی محمد باقر، علامہ شبلی نعمانی، شائر اسلام علامہ اقبال وغیرہ اور ان کے علاوہ لاکھوں ہزاروں بہادروں نے تحریکِ آزادی میں قربانیاں پیش کیں
(شعر)
وہ لوگ جنہوں نے خوں دیکر زمیں کو زینت بخشی ہے
دو چار سے دنیا واقف ہے گم نام نہ جانے کتنے
ہیں
بس اتنا ہی نہیں بلکہ مسلمانوں نے مختلف تحریکیں بھی چلائ، مثلا 1913ء سے 1920ء تک چلنے والی ریشمی رومال تحریک 1920ء کی تحریک ترکِ موالات، 1921ء کی خلافتی تحریک، 1922ء کی
موپلا بغاوت، اور چوری چورا تحریک1930ء سول نافرمانی، 1942ء کی ھندستان چھوڑو تحریک، 1946میں ہونے والے بحری بیڑے کی بغاوت میں ہونےوالے مظاہر اور ایسی کئیں تحریکوں میں مسلمان پیش پیش رہے، اور قائدانہ رول ادا کیا جس کی بناء پر ہزاروں مسلمان شہید ہوئے، اور ہزاروں مسلمانوں کو قید و بند سزا ہوئی، جس کی وجہ سے کالا پانی کی دردناک سزا بھگتنی پڑی، اس جنگ آزادی میں تقریباً دو لاکھ مسلمان شہید ہوئے، جن میں ۵۲ ہزار تو صرف علماء تھے ان کی جائدادیں لوٹ لی گئی، ان پر ظلم و زبردست کے پہاڑ توڑے گئے تب کہیں جا کر 1947 ء میں ملک آزاد ہوا، لیکن افسوس صد افسوس کہ آج مسلمانوں کی محنتوں کو تفصیل سے کیا اختصار کے ساتھ نہیں یاد کیا جاتا ، انکی محنتوں کو پس پشت ڈال کر ان ہی سے وفاداری کا ثبوت مانگا جارہا ہے، مزید برآں کہ وطن سے بے وطن کرنے کی سازش کی جارہی ہے، اور ان پر دہشت گردی کا الزام لگائے جارہے ہیں ، انکی حبُ الوطنی پر شک کیا جارہا ہے ،
الغرض
ع پہلے یہ طئے کرو کہ وفادار کون ہے
پھر وقت خود بتائے گا کہ غدار کون ہے
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم نوجوان اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں ، علماء کی قربانیوں کو پڑھیں،
اور برادران وطن کی غلط فہمیوں کو دور کرے، آپسی انتشار کو ختم کرے ، اور بھائی چارگی کا ماحول پیدا کریں ، اور اسی کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت پر بھی توجہ دیں ، اپنے اوقات ضائع کئے بغیر دینی اور عصری علوم میں مہارت حاصل کریں ، اور برادران وطن کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں ، اعلی پوسٹ حاصل کریں اور دوسری طرف اپنے قدم سیاست میں مضبوط کریں ، اور حکومتی عہدوں پر آئیں اور عدل و انصاف قائم کریں ۔
مختصر یہ کہ
ع سبق پڑھ بھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائیگا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا