کیا مسجد میں بھی سترہ کا اہتمام ضروری ہے؟

از قلم : تصویر عالم امیر حسین
متعلم : جامعہ ابی ہریرہ الاسلامیہ لال گوپال گنج۔ الہ آباد

قارئین کرام! پہلے یہ جان لیں کہ سترہ کسے کہتے ہیں ؟ لفظ سترہ لغت میں پردہ یا اوٹ کے ہیں ،اصطلاحی و شرعی اعتبار سے اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس سے انسان بوقت نماز اپنی سجدہ گاہ کے سامنے نصب کرے، مثلا نیزہ،دیوار، لکڑی وغیرہ

نماز کےلیے سترے کا اہتمام کرنا سنت نبوی ہے۔لیکن اکثرلوگ اس معاملے میں غفلت اور بے توجہی برت رہے ہیں۔ اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب کوئی آدمی نماز پڑھے تو سترہ سامنے رکھ کرنماز پڑھےاوراسکےقریب ہوکرکھڑاہو “
( ابو داؤد ۔ابن ماجہ )
سیدنا سھل بن ابوحثمہؓ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” جب کوئی آدمی سترہ رکھ کر نماز پڑھےتو اس کے قریب کھڑاہو تاک ایسا نہ ہوکہ شیطان اس کی نماز کاٹ ڈالے ۔(ابو داؤد ، نسائی)

معلوم ہوا کہ اگر نمازی کے سامنے سترہ نہ ہوتو شیطان کی وجہ سے اس کی نماز میں خلل واقع ہو سکتا ہے

مسجد یا غیر مسجد میں سترہ کے بغیر نماز پڑھنا خلافِ سنت ہے۔یاد رہے کہ مسجد کی دیوار اور مسجد کے ستون بھی سترے کا کام دیتے ہیں۔سترہ کی احادیث عام ہیں جس میں مسجد اور غیر مسجد دونوں صورتیں شامل ہیں۔بلکہ صحیح ابن خزیمہ کی صحیح حدیث میں تو یہاں تک ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے فرمایا
"لاَ تُصَلِّ اِلاَّ اِلیٰ سُتۡرَةٍ سترہ کے بغیر نماز نہ پڑھو”

صحابی اکرام مساجد میں اس بات کا خیال رکھتے تھے۔حضرت عمرؓ سے مروی ہے
” حضرت عمر نےایک آدمی کو دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھتے ہوئے دیکھاتوانہوں نے اسےایک ستون کےقریب کردیا،اور فرمایا”اس کی طرف نماز ادا کرو ” (بخاری ،ابواب سترة المصلیٰ ح ٥٠٢ )

حضرت نافعؓ سے مروی ہے” حضرت ابن عمرؓ جب مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کی جانب کوئی جگہہ نہ پاتےتو مجھے کہتےکہ میری طرف اپنی پشت کرکےبیٹھ جاؤ “ (اابن ابی شیبہ ٣١٣/١ )

ان صحیح احادیث اور آثارِ صحابہؓ سےمعلوم ہوا کہ وہ مسجد و غیر مسجد ،جہاں بھی نماز پڑھتے تو سترے کا خیال رکھتے تھے تاکہ نمازصحیح ادا ہو سکے۔لہٰذا ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیےکہ جب بھی نماز ادا کریں خواہ مسجد ہو یا کوئی دوسری جگہہ،سترے کا ضرورخیال رکھیں۔تاکہ اگر کوئی آدمی اسکے سامنے سے گزرنا چاہے تووہ سترےکےپیچھےسےگزرسکے۔

یاد رہے کہ امام کا سترہ مقتدیوں کےلیے کافی ہوتا ہے۔امام اگر اپنے آگے سترہ رکھ لے تو مقتدیوں کو سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں
” رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن نماز کے لیے گھر سےنکلتے
تو اپنا نیزہ ساتھ لے جانے کا حکم فرماتے ،جسے آپؐ کے آگے گاڑ دیا جاتا ۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف نماز پڑھتے، اورلوگ آپؐ کےپیچھے ہوتے۔سفر میں بھی آپؐ سترہ استعمال فرمایا کرتے تھے اسےبخاری ومسلم
نے روایت کیا۔ (مسلم ،ص ١٩٥ ، جلد ١ )

ہم مساجدمیں نماز کے لیے آئیں تو سترہ کا آسانی سے انتظام کرسکتےہیں۔سب سےپہلے آنے والےاگراگلی صف پوری کریں اور مسجد کی دیوار کے قریب ہوں ، اور بعد میں آنے والے ان کے پیچھے نماز ادا کریں،تواس طرح یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ ایک تو صفوں میں پہلے پہنچنے کا اجر ملےگا اور ساتھ ہی سترے کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔اور اگر علیحدہ علیحدہ بھی نماز ادا کریں تو مسجد کی دیوار ،ستون یا کسی اور لکڑی وغیرہ کو سترہ بنا کرنماز ادا کریں۔
سترہ کے حجم سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تواپنےآگےضرورسترہ رکھےاگرچہ تیرہی کیوں نہ ہو “
(مسند احمد ، ١٦٢/١ )
امام شوکانی امام ابن حزم و البانی رحمھم اللہ کے نزدیک سترہ رکھنا واجب ہے۔ (نیل الاوطار: ۱۹۸/۲)
جمہور کے نزدیک سترہ رکھنا مستحب ہے (سبل السلام: ۳۲۹/۱)
سترے کی لمبائی پالان کی پچھلی لکڑی کےطول جتنی ہونی چاہیے(مسلم )

اللہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین

ھٰذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے