ازقلم: عبدالعظیم رحمانی، ممبئی
9224599910
"کہو کے حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو بے نام ونشان ہونے ہی کے لیے ہے”۔
جب الله نے اپنے برگزیده بندوں کو بے سروسامانی میں ہزار کے مقابلے تین سو تیرہ کو کامیابی عطا کی، ان خانماں برباد اور طالبان اسلام کو بشارت اور اقتدار بخشا۔ یہ سادگی پسند، بوریہ نشین، اونٹوں کے چرانے والوں نے وہ سیاسی شعور ،بصرت، حکمت، معاملہ فہمی، دور اندیشی، فراست مومنانہ دکھائی کہ جنہوں نے ان کمزوروں پر ظلم کے پہاڑ توڑے، شعب ابی طالب کی گھائی میں محصور کرکے سماجی مقاطع کیا ان پر عرصہ حیات تنگ کریا۔لیکن جب الله کی مشییت سے اقدار ان نفوس قدسیہ کو منتقل ہواتو انھوں نے انتقام لینے کی بجائے آپ دشمنوں کو معاف کردیا۔
سنہرے رنگ کی کرسی پہ ناز مت کیجے
خدا کمین کو بھی سر فراز کرتا ہے
یقین کیجیے روزازل سے رب دو جہاں
حرام زادے کی رسی دراز کرتا ہے
"نہ ڈرو نہ غم کرو، تم ہی غالب رہوں گے اگر تم مومن ہو”
۔تمہاری تعداد کی قلت اور اسباب کی کمی کوئی معنی نہیں رکھتی۔تمہارے غلبہ کے الله کی مدد اور نصرت فتح کا پیغام دلاتی ہے۔
جن کی پشت پر الله کا ہاتھ ہو، ایسے شیر حیدر وکرار اپنے فقر میں بھی غنی ہوتے ہیں ۔
"ہم اپنے دشمنوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے غالب آجاتے ہیں ورنہ ہم نہ تو ساز وسامان میں ان کے برابر ہیں نہ تعداد میں "
فرمایا نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے
"ایک وقت آئے گا کہ ،ایک عورت حضر موت سے صنعا ءتک سونا اچھالتی جائے گی اور اسے جنگلی جانوروں کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا”۔
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
ایسے خانماں برباد بھی دنیا کی آنکھوں نےدیکھ لیے جواپنے جھولے ان آسمانی فضاؤں میں ڈالیں گےجہاں اس پہلے کسی نے نہ ڈالے تھے۔جو اپنی چادروں سے دیو ہیکل زیر دام لائیں گے۔جسں کا تصور تک محال تھا۔ جو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ہتھیار وں کی بجائے الله پر توکل کرتے ہیں ۔
اک من علم را دہ من عقل بود
عقل منبع علم ہے۔۔فرمایا میں تیرے ہی ذریعے لوگوں کو دوں گا۔تیرے ہی واسطے جزا، سزا دوں گا ۔عقل نور باطن ہے۔ادراک کی استعدا د مہیا کرتا ہے۔
"تم اپنی چال چل رہے ہو اور الله اپنی تدبیریں کر رہا ہے۔وہ غالب اور حکیم ہے”۔
اپنے نیک اور متقی بندوں کو وہ بصیرت بھی عطا کرتا ہے اور بصارت بھی۔ حکمت بھی دیتا ہے اور حکومت بھی،علم بھی دیتا ہے اور دانائی بھی ۔ ایک لمحے کی بصیرت کی کبھی پوری زندگی کے تجربے سے زیادہ قیمتی ثابت ہوتی ہے۔
جب اہل ستم مظلوموں کو مقتل کی طرف لے جاتے ہیں
کردار سہارا دیتا ہے، ایمان لہو گرماتا ہے
جب دشت مشیت پڑتا ہے، تدبیر کے نازک دامن پر
پھر اپنے کیے پر ظالم بھی شرماتا ہے پچھتا تا ہے
پھر وہ تاریخ کا انتخاب ہو، حکمت عملی ہو یا سادگی اور پھٹے لباس۔حضرت خالد سیف اللہ(رض) جیسا ذہین سپاہ سالار بھی اسی لشکر میں ہے جس میں حضرت ضرار (رض)جیسا ننگے بدن میدان کار زار میں گھس جانے والامجاہد۔ شمع رسالت کے پروانوں میں کیا چیز مشترک تھی؟؟؟؟ "چند بنیادی عقائد اور ذات رسولؐ سے محبت” ۔طبع ومزاج وافتاد میں مختلف لیکن پھر بھی سیسہ پلائی دیوار ہیں ۔
تاریخ جانتی ہے کہ
تکبر میں فرعون، ظلم میں ضحاک، تمرد میں نمرود، عدل وسیاست میں عمر(رض)، دبدبہ میں ابو بکر(رض)، انصاف میں عثمان(رض)، حکمت میں لقمان، مردانگی میں محمد فاتح، جنگ میں محمود، جہالت میں ابوجہل، شجاعت میں علی (رض)، خون ریزی میں چنگیز، جہاد میں صلاح الدین، رتبہ شہادت میں عثمان بن عفان(رض) یہ سب عظیم تاریخ کا حصہ ہیں ۔
"ایمان والوں کا حامی وناصر الله ہے اور کافروں کا حامی وناصر کوئی نہیں ۔”
وہ انھیں تنگ نائیوں سے نکال کر فراخی عطا کرتا ہے تو ایسے بندے اس کے جناب میں شکر بجا لانے والے شاکر ہوتے ہیں ۔وہ گھمنڈ سے اتراتے نہیں۔ بستیوں کو اجاڑتے نہیں، وہ عورتوں کی عصمت کے محافظ ہوتے ہیں ۔ چیزوں کو بگاڑ کر نقصان نہیں پہنچاتے۔ظالموں کوعام معافی عطا کرتے اور خدا کی جناب میں سجدہ ریز ہو
جاتے ہیں ۔ یاد رکھو یہی متقی بندے یہاں بھی اور ابدل آباد میں بھی کامیاب ہیں۔
پوچھتے ہیں، آخرکب آ ئےگی الله کی مدد؟، کہو قریب ہے اس کی مدد۔۔۔۔
بہر سیر اور مدائن کے درمیان دریا دضلہ حائل تھا۔ایرانیوں نے مدائن پر مسلمانوں کو حملے سےروکنے کے لیے دجلہ کا پل توڑ کر کشتیاں روک لیں تھیں۔سعد بن ابی وقاس (رض) مسلمانوں کی فوج کے سپہ سالار ہیں، دریا دجلہ کو پار کرنا ہے ۔دوسرے کنارے پرسامنے ایران کی فوج صف بستہ کھڑی ہے۔سب سے پہلے عاصم بن عمر (رض) کی کمان میں ہولناک دستہ کتبتہ الاہوال گھوڑں پر سوار دریا میں داخل ہوا۔دو دو کی قطار میں سارے دستے نے دریا عبور کرلیا۔کوئ مجاہد نہیں ڈوبا۔مالک بن عامر کا چوبی پیالہ دریا میں گرپڑاتھا ۔بعد ازاں وہ بھی مل گیا ۔جب یہ فوج دوسرے کنارے پہنچی تو ایرانی فوج کی سپاہ چلاتے ہوئے بکھرنے لگی۔”دیواں آمدند، دیواں آمدند! "
بھاگو !دیو آگئے، بھاگو !
دیو آگئے۔
دشت تو دشت صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے