ازقلم: مدثراحمد، شیموگہکرناٹک
9986437327
ہروالدین کو اپنے بچے سب سے پیارے ہوتے ہیں اور اپنے بچوں پر انہیں اپنے آپ سے زیادہ بھروسہ ہوتا ہے ۔ یہ بات اور ہے کہ بعض اوقات غصے میں والدین اپنے بچوںپر لعن طعن کرتے ہیں لیکن دل سے وہ اپنے بچوں کو چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کی ہر غلطی کو نظرانداز کرتے ہیں یا پھر زیادہ سے زیادہ معمولی سزا دیکر خاموش ہوجاتے ہیںاور جب بچہ باہر کوئی غلطی کرتا ہے تواس بچے کی غلطی کی نشاندہی کرنے والے لوگوں پر ہی والدین برس پڑتے ہیں کیونکہ انکے نزدیک انکے بچے سب سے شریف ہوتے ہیں اور وہ کوئی غلطی کرہی نہیں سکتے۔ اسی لئے کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی غلطیوں کو بتانے والے یا انکے بچوں کو قصوروار ٹھہرانے والوں کو ہی موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ حالانکہ کچھ سال پہلے تک بچوں کی غلطی کو والدین سدھارنے کیلئے سخت سزائیں دیتے تھے۔ لیکن اب ماحول بدل چکا ہے اب سب کے بچے من کے سچے، ماں باپ کے آنکھ کے دلارے ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کے سامنے بڑی سی بڑی غلطی بتانے کے باوجود والدین ان پر اعتبار نہیں کرتے۔ حالیہ دنوں میں ہمارے معاشرے کا جائزہ لیاجائےتو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آج بچے بے راہ روی کا شکار ہوچکے ہیں۔مغربیت ان میں اثرکرچکی ہے۔ لباس ، رنگ ڈھنگ، چال چلن، بالوں کا اسٹائل، باتوں کا لہجہ سب کچھ بدلنے لگا ہے۔ زیادہ تر نوجوان لڑکوں میںمغربیت کا نشہ سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ صرف اسٹائل سے ہی وہ مائیکل جیکسن یا ہنی سنگھ نہیں بن رہے ہیں بلکہ نشے کی پڑیا انکی زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ بچے کونسی شکل میں کیسا نشہ کررہے ہیں اسکا اندازہ لگانا مشکل ہوچکا ہےاورجب تک اندازہ ہونے لگتا ہے اس وقت تک ان بچوں کی حدیں پار ہوچکی ہوتی ہیں اوروہ نشے کے اس قدر عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ اسکے بغیر انکا جینا محال ہوجاتا ہے۔ حالانکہ ان باتوں کو والدین محسوس کرتے ہیں مگر وہ کھل کر مخالفت کیلئے آگے نہیں آتے ، کیونکہ والدین یہ سمجھتےہیں کہ اگر وہ اپنے بچوں کی مخالفت کرتے ہیں تو انکے دشمن بن سکتے ہیں یا پھر انہیں چھوڑ کر دور جاسکتے ہیں۔ لیکن ایک بات یہ دیکھی گئی ہے کہ ایسے بچے دور جانے سے خودکشی کرنے کی بات تو کرسکتے ہیں اسے عملی جامہ نہیں پہنا سکتے، کیونکہ ان میں خوداعتمادی یعنی سیلف کانفڈینس کی کمی پیدا ہوجاتی ہےاور وہ صرف ڈرا ، دھمکا سکتے ہیں لیکن عمل نہیں کرسکتے،کچھ والدین اس لئے بھی بچوں کی کمزوریوں ، بداخلاقیوں کو خاموشی سے سہتے ہیں کہ کہیں سماج میں انکی بدنامی نہ ہوجائے مگر یہ سمجھنے کی بات ہے کہ اپنے بچوں کی بداخلاقی یا گمراہی سے سب سے زیادہ نقصان ہمیں ہوتا ہے ،نہ کے سماج کو اسکا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اگر سماج کی باتوں کو لیکر ہم اپنے بچوں کو صحیح راہ دکھانے میں ناکام ہوتے ہیں تو نقصان ہمارا ہوگا نہ کے سماج کا۔ اکثر یہ دیکھا جارہا ہے کہ نوجوان نسل نشہ اور دیگر بری عادتوں کا شکار ہورہے ہیں اورانکی رہنمائی نہیں ہورہی ہے۔ یہاں اس وقت پورے معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ علماء کی بات نہیں مان رہے ہیں،اورجو علماء کچھ کہنا چاہتے ہیں وہ عام لوگوں کے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ کچھ لکچررس واساتذہ اپنی تنخواہ اورکتاب تک محدود ہوچکے ہیں ، جبکہ ہمارے سیاستدان اپنے مفادات کی رُو میں بہہ رہے ہیں ۔ ملی وسماجی تنظیمیں چندے کے دھندے میں مصروف ہوچکے ہیں جبکہ دینی تنظیموں سے کوئی رابطہ رکھنا نہیں چاہتا ۔ بچے ماں باپ کی نہیں سن رہے ہیں اورگلی محلے کے بڑے کسی کو کچھ کہنا نہیں چاہتے اورکوئی کچھ کہتا بھی ہےتو کہنے والوں پرہی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ پولیس پہلے نوجوان وبچوں کو ڈر میں رکھتی تھی مگر اب ڈر میں رکھنے سے وہ خود دوری اختیار کررہی ہے ۔ کیونکہ پولیس خود نہیں چاہتی کہ مسلمان اچھے بنے یا نوجوان اچھائی کی طرف راغب ہوں۔ کیونکہ جتنی برائی بڑھے گی اتنی کمائی پولیس کی ہوگی۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ گانجہ ، افہیم جیسے نشہ آور چیزوں کی خریدوفروخت کے تعلق سے پولیس کو کوئی علم نہیں ہے اور پولیس انجان ہے ۔ نہیں پولیس سب کچھ جانتی ہے لیکن جان کر بھی انجان ہے کیونکہ جب وہ ان نشہ خوروں ونشے کے کاروباریوں پر لگام کسے گی تو انکے آمدنی کے ذرائع بند ہوجائیںگے۔ ڈرگس مافیا کا ہفتہ بند ہوجائےگا۔ نشے کے عادی نوجوان جرم نہیں کریںگے تو انہیں پیسے وصولی کی راہ نہیں ملےگی، جرائم کے معاملات کو حل کرنے میں انہیں نشہ خور بچوں کا استعمال کریگی، مختلف مقدمات میں پھنسائی گی۔ اسطرح سے پولیس اپنا بول بالا کرلیگی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیسے ان بگڑی ہوئی نسلوں کو راہ راست پر لایا جائے۔ اسکا آسان طریقہ یہ ہے کہ والدین خوداس سمت میں پہل کریں، مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک دوسرے کا تعاون کریں، ہیلتھ ایکسپرٹس ، ہیلتھ کائونسلرس، سیکالوجیسٹ، نارکوٹک، ڈی موٹی ویٹر، کاسہارا لیں ، تب جاکر ہمارے بچے من کے سچے ہوسکتے ہیں،ورنہ لوچّے، لفنگے بن کر ابھرینگے۔ وقت رہتے احتیاط کرنا چاہئے ورنہ حالات کو قابو میں لانا مشکل ہی نہیں ناممکن بن جائیگا۔