تحریر: شیخ سلیم، مہاراشٹرا
آئیے صلیبی جنگوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔سلجوقی خاندان ( 1099-1096) کا کردار دو حیثیتوں سے بہت اہم مانا جائے گا ایک انہوں نے خلافت عباسیہ کی حالات ضعف میں اُسے سنبھالا اور دوسرے مشرقی یورپ میں بازنطینی سلطنت کو قسطنطیہ سے پیچھے دھکیل دیا۔یہ عہد دوسری حیثیت سے بھی امت کے لئے دور انحطاط تھا اسی عہد میں عالم اسلام میں شیعوں کی اسلام مخالف سرگرمیاں اپنے عروج پر پہونچ گئی۔ 969 عیسوی یا 358 ہجری میں اسلامی دنیا دو حصوں میں بٹ گئی ایک کمزور سنی خلافت عباسیہ اور شیعی فاطمی خلافت جو شمال افریقہ سے لیکر مصر اور شام کے کچھ حصوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس صورت حال نے صلیبی طاقتوں کو موقع دیا کے وہ عالم اسلام پر حملے کریں۔ پوپ اربن 2 نے عیسائیت کے دونوں دھڑوں میں اتحاد قائم کیا اور عالم اسلام پر حملے کے لئے اکسایا۔اُنہیں سر زمین اسلام کی نعمتوں اور آسائشوں کی لالچ دی گئی۔ عام لوگوں میں اسلام کے خلاف جھوٹی مذہبی جنون کو کچھ اسطرح بھڑکایا کے یورپ کے چور ڈاکو شریف رزیل سبھی اسلام کے خلاف نفرت کی آگ میں جلنے لگے۔
اس صلیبی جنگ کے مقاصد کچھ اسطرح تھے۔
اسلام دشمنی اور مسلمانوں کو تاراج کرنا
اسلامی دنیا کی دولت پر قبضہ کرنا
اپنے باہمی جنگ و جدال کا رخ مسلمانوں کی طرف پھیرنا
معاشی بد حالی اور یورپ کی تنگ دستی کو دور کرنے کے لئے عالم اسلام کے علاقوں پر قبضہ کرنا
جہالت اور بد کرداری میں ڈوبی ہوئی یوروپین اقوام کی غلاظت کو عالم اسلام پر انڈیلنا۔
1096 عیسوی میں یورپ کے چور ڈاکو لٹیروں زانیوں اور غربت و افلاس زدہ عام عیسائی اپنے مذہبی پیشواؤں کے گمراہ کن پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر اپنے کندھے پر جھوٹی صلیب کا بوجھ اٹھائے ہوئے عالم اسلام پر ٹوٹ پڑے۔ سب سے پہلے سلجوقی سلطنت پر حملا آور ہوئے سلجوقی پہلا حملے کو جھیل گئے مگر دوسرے حملے میں وہ اپنے دارالسلطنت قونیہ کو نہیں بچا سکے۔ تین لاکھ صلیبیوں کا یہ لشکر قتل و غارتگری کا بازار گرم کرتے ہوئے شام کے شہر انطاکیہ پہونچا۔ کمزور خلافت عباسیہ بےبسی کے عالم میں اس یلغار کو دیکھتی رہ گئی۔ اسی دوران فاطمی خلافت نے صلیبیوں کے پاس اپنا وفد بھیج کر اُنہیں قونیہ پر فتح پر مبارکباد دی اسی دوران یہ فاطمی فلسطین میں سلجوقیوں پر حملا آور ہوئے اور بیت المقدس اُنکے ہاتھوں سے چھین لیا۔ پھر جب صلیبی انطاکیہ اور دیگر ساحلی علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے فلسطین کی طرف بڑھے تو اُن کے لئے فلسطین پر قبضہ آسان ہو گیا۔ فاطمی خلافت نے اپنے مرکز مصر سے قبلہ اول کی حفاظت کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے والے مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کی۔ صلیبی بالآخر 1099 میں بیت المقدس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔اس پر آشوب دور میں اللّٰہ تعالیٰ اس امت مسلمہ پر اپنا فضل فرماتا ہے اور امت مسلمہ کو یکے بعد دیگرے تین سورما عطا فرماتا ہے جو دن کے شہسوار اور رات کے تہجد گزار تھے۔ عماد الدین زنگی، نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی۔ان تینوں کی کوششوں سے صلیبیوں کو پیدرپے شکست ہوتی ہے اور بالآخر صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ 12 اکتوبر 1187 کو بیت المقدس فتح کر لیتے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے فتح کے بعد صبر و تحمل اور رحمت اسلامی کا پیکر بن کر عام معافی کا اعلان کیا۔ ورنہ جب 90 سال پہلے صلیبیوں نے بیت المقدس فتح کیا تھا تو خون کی ندیاں بہا دی تھیں۔
صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ آٹھ صدیوں تک جاری رہا۔
یورپ کی سرحد پر ترک
سلطان صلاح الدین ایوبی کے بعد اُنکے جانشینوں میں وہ جوہر نہیں رہے اور وہ کمزور پڑ گئے۔ پھر تاتاریوں نے دنیائے اسلام کو روند ڈالا اور 1258 میں خلافتِ عباسیہ کے قلب بغداد پر قبضہ کرلیا۔ ظاہر ببرس نے جالوت شام میں 1360 میں تاتاریوں کو شکست دی اسلامی دنیا نے نئے سرے صف بندی کی۔ ترکوں کے سردار عثمان اوّل نے 28 ستمبر 1299 کو ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جس نے تن تنہا یکے بعد دیگرے کئی یوروپین ملكوں کو فتح کیا اور چھ سو سال تک فتح کی ایک کے بعد ایک نئی تاریخ رقم کی خلافتِ عثمانیہ نے اپنے لہو سے اسلامی فتوحات کی زرّیں تاریخ لکھی عثمانی سلطنت ایک ایسا مضبوط قلعہ ثابت ہوئی جس نے صدیوں تک عالم اسلام کو ایک نئی بلندی عطا کی۔۔
خلافتِ عثمانیہ کے خلاف صلیبیوں کی منصوبہ بندی۔۔
صلیبیوں نے دیکھا عالم اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتے جب تک اُنکے اتحاد کو نقصان نہیں پہنچا سکتے جب تک خلافت عثمانیہ کو کمزور نہیں کر سکتے۔
اسکے بعد (1850-1923)صلیبیوں نے بالواسطہ طور پر عالم اسلام پر وار کرنا شروع کیا۔ اُنکے لیے سب سے بڑا چیلنج خلافتِ عثمانیہ تھی دشمنان اسلام اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اسلام و مسلمانوں کی دینی و سیاسی موت خلافتِ عثمانیہ کے سقوط میں پوشیدہ ہے چنانچہ اب انہوں نے اپنی ساری توجہ سقوط خلافتِ عثمانیہ پر مرکوز کر دی۔ 1850 سے جو واقعات وقوع پذیر ہوئے جن سے خلافت عثمانیہ کمزور ہوئی وہ مصر اور حجاز مقدس میں خلافت عثمانیہ کے خلاف مصر میں محمد علی پاشا اور حجاز میں شریف حسین بن علی کی بغاوت اور صلیبیوں کے ساتھ اُن کا تعل بوق اور تعاون تھا۔خلافتِ کے خلاف 1916 میں عرب انقلاب کے نام سے برپا ہوئی جس میں برطانوی ایجنٹ لارنس یا لارنس آف عربیہ نے بڑا کردار ادا کیا۔
صلیبیوں کی نئی منصوبہ بندی یا سازش۔
اس پالیسی کے تحت انہوں نے صلیبی حملوں کو اقتصادی اور سیاسی رنگ دیا کیلسا اور پوپ کا نام نہیں لیا۔ اُنکے دل میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی وہ صلیب کی برتری اور فلسطین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ یورپ کی صنعتی ترقی اور نئی قوت نے یورپ کے حوصلے بلند کر دیے اس مرتبہ انہوں نے باھمی اتحاد کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جس ملک کو جہاں موقع ملا مسلم ملک پر ٹوٹ پڑا۔ ھمارے ملک پر برطانیہ کا قبضہ جہاں پرتگالی فرینچ سبھی ٹوٹ پڑے۔ ان سبھوں کے مقاصد یکساں تھے اسلام کی بیج کنی مسلمانوں سے انتقام اور اُنہیں حکومت سے بے دخل کرنا غلام بنانا۔ جب انہوں نے مُکمل طاقت حاصل کر لی تو انہوں نے بلاد شام اور فلسطین پر حملا آور ہوئے مگر اس کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ خلافتِ عثمانیہ تھی۔ مراکش سے حجاز تک پھیلی ہوئی خلافت عثمانیہ صلیبیوں کے سامنے ایک دیوار کی طرح تھی امت کے لیے ایک سایہ تھا اور وہ اس کو کسی بھی حال میں خواہ وہ ٹوٹی پھوٹی حال کیوں نہ ہو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ محمد علی پاشا اور صلیبیوں کے دوسرے مہرے شریف حسین بن علی نے بغاوت کی صلیبیوں کا ساتھ دیا۔ یہودیوں نے اس سے قبل عثمانیوں سے اپنے لیے ایک وطن کی درخواست کی تھی، صیہونیت کے بانی تھیوڈر ہیزل نے بڑی کوشش کے بعد خلیفہ عبدالحمید ثانی ملاقات کی سلطان کو ہدیہ میں پانچ ملین سونے کے لیرا دینے اور یورپ کے میڈیا میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف پروپیگنڈہ روکنے کی پیش کش کی یہود اور مسلم اتحاد کی تجویز رکھی سلطان نے ہرزال کی اس پیشکش کو حقارت سے ٹھکراتے ہوئے کہا ” اگر تم اس دنیا کے برابر سونا بھی میرے قدموں میں ڈال دو پھر بھی مجھے قبول نہیں۔ فلسطین میری نہیں پوری ملت اسلامیہ کی ملکیت ہے۔ جسے مسلمانوں نے اپنا خون بہا کر حاصل کیا ہے اسے بیچا نہیں جا سکتا۔ جاؤ اگر کسی دن خلافت عثمانیہ پارہ پارہ ہو گئی تو تم مفت میں اسے حاصل کر لینا۔”
ماضی کے تجربے کی بنیاد پر صلیبیوں نے ایک انوکھی تدبیر کی پہلی جنگ عظیم کے دوران اُس وقت کے برطانوی وزیرِ خارجہ آرتھر بیلفور نے یہودی لیڈروں کو خط لکھ کر فلسطین کو انکا وطن بنانے کا وعدہ کیا یہ یقین دھانی تاریخ میں وعدہ بلفور یا Belfor declaration کہلاتی ہے۔دسمبر 1917 میں جب برطانیہ اور فرانس نے فلسطین اور بلاد شام پر قبضہ کیا تو برطانوی جنرل ایڈمنڈ ہینری النبی نے کہا آج صلیبی جنگیں پایہ تکمیل کو پہنچ گئیں۔اسے آٹھواں صلیبی حملا بھی کہا جاتا ہے۔وہیں فرانس سا کاس پیکو معائدہ کے تحت شام میں داخل ہوا دمشق میں داخل ہوتے ہوۓ فرانسیسی فوج کا کمانڈر انچیف جنرل گورو سیدھا صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کے مزار پر پہونچا اور انکی قبر پر للکارتے ہوئے کہا "اٹھو صلاح الدین، ہم پھر آ گئے”. انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی 1917 کے بعد ان یوروپین اقوام نے یکے بعد دیگرے تمام مسلم ممالک کو اپنا غلام بنا لیا ۔پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کی شکست حجاز اور مصر میں خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت نے سقوط سلطنت عثمانیہ کا راستہ ہموار کیا اندرونی طور پر ترکی میں یہودی سرپرستی میں "اتحاد اور ترقی” نام کی تحریک اٹھتی ہے یہ تحریک بے دین لوگوں اور الحاد پسند اور مغرب زدہ لوگوں کی مدد سے خلافت پر ایک وار کرتی ھے۔ ترک فوج پر قابض مصطفیٰ کمال اتاترک جو جلسوں میں اسلام اور خلافتِ عثمانیہ کے خلاف تقریریں کرتا تھا ایک نئے ہیرو کے طور پر اُبھرتا ہے بالآخر مصطفیٰ کمال اتاترک نے 3 مارچ 1924 کو دشمنان اسلام کی دیرینہ تمنہ پوری کر دی اور باقاعدہ سقوط خلافت کا اعلان کر دیا۔ کمال اتاترک کے ترکی کے عرش پر قبضہ کرنے کے بعد برطانوی وزیر خارجہ جیورج کرزن کہتا ہے ، "ہم نے ترکی کا خا تما کر دیا ہے آج کے بعد ترکی کا کوئی وزن نہیں ہے اسلئے کے ہم نے اس کی طاقت کی شۓ رگ اسلام اور خلافت کاٹ دی ہے۔اس کے بعد تقریباً نصف صدی تک افریقہ اور ایشیاء کے مسلم ممالک پر یوروپین اقوام کا تسلط قائم رہا اور ان ممالک نے ایشیاء اور افریقہ کی تمام تر دولت لوٹ لی۔ مزید برآں یہ ممالک جاتے جائے اپنے مہرے ان ممالک پر مسلط کر گئے اور چند ایک ممالک جیسے ترکی ان سے آزاد نظر آتا ہے خلیجی ممالک اور پاکستان میں کیسی حکومت ہے ہم جانتے ہیں۔ خلیج کی جنگ یعنی عراق کے خلاف 1991 میں مہلک ہتھیاروں کے نام پر حملا لیبیا شام اور یمن میں دخل اندازی اور 9/11 میں امریکہ میں ہونے والے حملے کو بنیاد بنا کر افغانستان پر کیا جانے والا حملا جس میں امریکہ کے ساتھ نیٹو کے 37 ممالک شامل تھے صلیبی جنگوں کا ایک تسلسل کے سوا کچھ نہیں۔ مگر دنیا اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہمیشہ سے تھی اور آگے بھی رہیگی عراق اور افغانستان دونوں میں امریکہ اور اُنکے ساتھیوں کو شکست فاش ہوئی ہے اور مٹھی بھر ہے سروسامان افغان مجاہدین نے ایک تاریخی فتح حاصل کی اور شجاعت اور بہادری کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اب دیکھنا ہے یہ ممالک اب اگلا نشانہ کس ملک کو بناتے ہیں۔