رکارڈ توڑ

ازقلم: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ


پٹرول، ڈیزل کے دام جس تیزی سے گذشتہ اکتوبر کے تئیس دنوں میں بڑھے ہیں، اس نے ماضی کے تمام رکارڈ توڑڈالے، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ ایک ماہ سے کم میں اٹھارہ بار پٹرول ، ڈیزل کے داموں میں اضافہ ہو، لیکن بی جے پی حکومت میں کچھ بھی ممکن ہے، کہا جاتا ہے کہ مودی ہے تو ممکن ہے ، اس کا ثبوت یہ ہے کہ گذشتہ ماہ پٹرول ۵۳-۲۳ اور ڈیزل ۸۶-۲۱ روپے مہنگا ہو ، جو قیمت بڑھ جاتی ہے اس کے یہاں کم ہونے کی روایت نہیں ہے ، ملک کا بازار بڑے اجروں کے ہاتھ میں ہے ، سرکار کے پاس قیمتوں کے کنٹرول کا کوئی ضابطہ نہیں ہے ، اگر سرکار کی پکڑ ہوتی ہے تو پٹرول ڈیزل کے دام سال بھر میں ۲۸؍ فی صد نہیںبڑھتے، ۲۰۰۸ء سے ۲۰۲۱ء تک جائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ ۲۰۰۸ء میں پٹرول کے دام میں ۷۴-۱۳، ۲۰۰۹ء میں ۸۴-۱۳، ۲۰۱۰ء میں ۹۰-۹، ۲۰۱۱ء میں ۷۵-۲۰، ۲۰۱۲ء میں ۴۷-۲۲، ۲۰۱۳ء میں ۴۶- ۱۷، ۲۰۱۴ء میں ۷۸-۱۶، ۲۰۱۵ء میں ۷۸-۱۰، ۲۰۱۶ء میں ۲۳-۸، ۲۰۱۷ء میں ۷۶-۹، ۲۰۱۸ء میں ۱۷-۸ ، ۲۰۱۹ء میں ۲۷-۶، ۲۰۲۱ء میں ۵۳-۲۳ روپے کا اضافہ درج کیا گیا ، اس پوری مدت میں صرف ۲۰۲۰ء میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، ۲۰۱۹ء انتخابی سال تھا ، اس لیے ۲۰۱۴ء کے بعد مودی حکومت میں اس سال سب سے کم اضافہ ہوا، ۲۰۲۰ء میں عوام پر احسان کیا گیا کہ کوئی اضافہ نہیں ہوا، شاید بے مثال جیت کی وجہ کر مودی جی کی طرف سے یہ تحفہ دیا گیا کہ کمی نہیں ہوئی تو کم از کم پٹرولیم اشیاء کی قیمت بڑھا کر مزید بوجھ ہم پر نہیں ڈالاگیا۔
پٹرول ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ کچے تیل کی قیمت عالمی ماکیٹ میں بڑی ہے، یہ بڑا جھوٹ ہے ، اگر ایسا ہے تو پڑوسی ملک نیپال میں پٹرول، ڈیزل ہندوستان کی بہ نسبت کیوں سستا ہے ، یہ غور کرنے کی بات ہے ۔ در اصل معاملہ یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں پر مرکز اور ریاست نے غیر معمولی ٹیکس لگا رکھا ہے ، اس ٹیکس کو اگر کم کر دیا جائے تو ان کی قیمتیں آدھی رہ جائیں گی ، لیکن سرکار کو حکومت چلانے کے لیے روپے چاہیے اور یہ روپے سب سے زیادہ آب کاری شراب وغیرہ سے آتے ہیں، یا پٹرولیم سے، اور چیزوں پر ٹیکس جی اس ٹی کی وجہ سے مشترکہ ہے ، لیکن پٹرولیم ٹیکس مرکزی حکومت بھی لگاتی ہے اور ریاستی حکومتیں بھی، یہی وجہ ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں پٹرول وڈیزل کی قیمت الگ الگ ہوتی ہے ، ریاست کا ٹیکس زیادہ ہے تو قیمت زیادہ ہوگی ، کم ہے تو قیمت کم ہوگی ، یہی وجہ ہے کہ کرناٹک ، بہار، تلنگانہ، مہاراشٹر ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں ایک سو دس روپے باون پیسے سے لے کر ایک سو پندرہ روپے برانوے پیسے تک ہے، یہ وہ ریاستیں ہیں، جن کے ٹیکس نے پٹرولیم اشیاء کو مہنگا کر رکھا ہے ، لیکن اسی ملک کی ریاست گجرات، اترا کھنڈ، آسام ، جھارکھنڈ، ہماچل پردیش ، آندھرا پردیش میں پٹرول کی قیمت ایک سو تین روپے سنتاون پیسے سے لے کر ستاسی روپے چوبیس پیسے آج بھی ہے ، اس پورے منظر نامہ میں آج بھی آندھرا پردیش میں پٹرول ۲۴- ۸۷ روپے اور ڈیزل اسی روپے اکیس پیسے بک رہاہے ، جب کہ سب زیادہ قیمت پٹرول کی مدھیہ پر دیش میں ایک سو پندرہ روپے برانوے پیسے ہے ، ڈیزل کی قیمت بڑھانے میں سر فہرست راجستھان ہے، جہاں ڈیزل ایک سو پانچ روپے پچھہتر پیسے بک رہا ہے ۔
ہندوستان کی حکومت رفاہی ہے ، اس لیے اسے بڑے تاجروں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے بجائے عوام کو راحت دینے کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ٹیکس میں کمی ہونی چاہیے ورنہ پہلے ہی سے مہنگائی کی ماربرداشت کر رہی عوام کے لیے ضروریات زندگی کا حصول دشوار ہو گا، پیٹ کی آگ جرائم کی طرف بھی لے جا سکتی ہے اور خود کشی کی طرف بھی اور یہ دونوں ملک کے لیے انتہائی نقصاندہ ثابت ہوں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے