تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ہر چیز کی رفتار کا ایک معیار ہے، مقررہ رفتار سے آگے بڑھنے کا عمل تیز رفتاری کہلاتا ہے ، یہ ہر حال میں مضر اور بعض حالتوں میں مہلک ہے،اعتدال اور میانہ روی سے توازن باقی رہتا ہے، تیز رفتاری عموماً توازن کو ختم کردیتی ہے ، اس کے نتیجے میں ایسے حادثات پیش آتے ہیں جس کے پیچھے آہ ونالہ، گریہ زاری، تباہی وبربادی کی ایک داستان رقم ہوتی ہے ۔
شمالی ہندوستان میں ٹریفک کا نظام بد سے بد تر ہے ، یہاں ٹریفک کا سب سے بڑا اصول ہے کہ جس طرح گاڑی نکال سکو نکال لو، دائیں بائیں اور سائڈ تک کی پرواہ نہیں کی جاتی، بس والے گاڑی اسٹینڈ پر مسافروں کے حصول کے لیے بہت دھیرے دھیرے گاڑی چلاتے ہیں اور شہر سے نکلنے کے بعد سرپٹ دوڑا نا شروع کرتے ہیں تاکہ منزل پر پہونچ کر ان کا ٹائم کہیں فیل نہ ہوجائے، اس دوڑ میں وہ تیز رفتاری کے سارے رکارڈ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی ریس چل رہی ہے، اس کے نتیجے میں وہ کبھی کبھی مسافروں کو ان کی منزل سے دور اتارتے ہیں اور اس تیزی میں اتارتے ہیں کہ مسافر گرتے گرتے بچتا ہے،کبھی کبھی تو بچے اور خواتین منہہ کے بل گرجاتے ہیں اور ڈرائیور گاڑی لے کر ایک دو تین ہو جاتا ہے ، یقینا سارا قصور ڈرائیور کا ہی نہیں ہوتا ، ان لوگوں کا بھی ہوتا ہے جو سڑک کے کنارے دکانیں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں ، بے جگہ گاڑیاں کھڑی کر دیتے ہیں،جس سے سڑکوں کی وسعت سمٹ جاتی ہے اور آمد ورفت میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
سڑک کے کنارے حکومت کی جانب سے مختلف انداز کے بورڈ لگے ہوتے ہیں،مثلا تیز رفتاری موت ہے، دھیرے چلئے گھر پر آپ کا انتظار ہو رہا ہے، حادثوں سے بچئے، لیکن اس قسم کے بورڈ کو پڑھنے کی فرصت کسے ہے ، زندگی بھاگم بھاگ میں گذر رہی ہے اور تیز رفتاری ہماری جانیں لے رہی ہے ، ٹریفک کے اصولوں کی پابندی کرکے ہم بہت سارے حادثات سے بچ سکتے ہیں، ٹریفک پولس ، گاڑی ڈرائیور اور عام انسان کو اس معاملہ میں زیادہ حساس اور فعال ہونے کی ضرورت ہے، ورنہ حادثات کو روکنا مشکل ہوگا ، ہمارے یہاں حادثہ کے بعد روپے تقسیم کرنے کا بھی رواج ہے ، انسانی جان انمول ہے اس کا کوئی معاوضہ ہوہی نہیں سکتا، اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔
حادثے زندگی کی بڑی حقیقت ہیں، ہنستی ، کھیلتی ، چلتی پھرتی ، دوڑتی بھاگتی زندگی کب حادثے کی چپیٹ میں آجائے، کہنا مشکل ہے ، یہ حادثے دبے پاؤں آتے ہیں اور گھر کا گھر اجاڑ دیتے ہیں،یقینا جس کا وقت آگیا، وہ چلا جائے گا؛ لیکن ہمیں وقت کا پتہ نہیں، اس لیے ہم حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے پابند ہیں، ان حادثوں میں ہماری بے احتیاطی کا بھی کم عمل دخل نہیں ہے، احتیاط میں لا پرواہی بظاہر حادثے کا سبب ہوتی ہے، نئی نسلوں کی عجلت پسندی غلط سمت میں گاڑی چلانا ، نابالغ ڈرائیور، بغیر ہیلمٹ اور بیلٹ کے ڈرائیوری ، سڑکوں پر بے ترتیب گاڑیاں کھڑی کرنا اور ٹریفک ضابطوں کی ان دیکھی کی وجہ سے بھی حادثے رو نما ہوتے ہیں، ایک اندازہ کے مطابق سڑک حادثے میں روزانہ چار سو زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں۔
یہ حادثے ستر فی صدر گاڑی چلانے والوں کی غلطی سے ہوا کرتے ہیں، سڑکوں کی بد حالی، پُل کی تاریکی ، موٹر سائیکل کی لہیریا چال، ایڈونچر کا شوق بھی سڑک حادثوں کا سبب بنتا ہے ، سڑکوں پر بجلی کے پول اور درختوں کی موجودگی بھی ا ندھیرے میں کئی زندگی کونگل جاتی ہے ، اور زندگی نے ایک بار موت کو گلے لگا لیا تو وہ لوٹ نہیں سکتی ہے، زندگی قیمتی ہے، ٹریفک ضابطوں کی پابندی کرکے بظاہر اسے بچایا جا سکتا ہے، لیکن ہندوستان میں نقل وحمل کے جو ضابطے ہیں، وہ کاغذی ہیں، ان پر عمل نہیں ہوتا ہے، جو چاہے جس طرح چاہے گاڑی بھگا تا رہتا ہے، سڑکوں پر سگنل کی پرواہ کیے بغیر گاڑی بڑھا لینا عام سی بات ہے، ٹریفک پولیس غیر تربیت یافتہ ہے اور گاڑی روک کر دس بیس روپے وصول کر سارے ضابطے دھرے رکھنے میں طاق ہے ، یہ ساری بے اصولی اپنے کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے، اس لیے اپنی حفاظت کے لیے ٹریفک اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے، جب تک ہم حساس نہیں ہوں گے، اور یہ سارے سسٹم بدلے نہیں جائیں گے ، حادثے نہیں رک سکتے ،اور پتہ نہیں کب ہماری باری آجائے اس لیے ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح پر توجہ دینی چاہیے، حقوق وفرائض کی ادائیگی کا خیال رکھنا چاہیے ، اللہ کے حقوق بھی اور بندوں کے حقوق بھی، نہ معلوم کب موت کا فرشتہ روح کو قفس عنصری سے لیکر اڑ جائے، اللہ رب العزت سے حادثاتی موت سے پناہ بھی چاہنی چاہیے اور آمد ورفت کے اصول وضوابط پر سختی سے عمل کرنا چاہیے ، تاکہ حادثوں سے بچنا ممکن ہو سکے۔