مدینہ کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ

چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ

ایک مومن کے لیے کعبة اللہ اور ارض حرم کے بعد سب سے زیادہ پرکشش، حسین اور جاذبِ نظر کوئی مقام اور جگہ ہے تو وہ مدینہ منورہ وہاں کے دیگر مقامات مقدسہ اور ان سب سے بڑھ کر روضئہ اطہر کی زیارت ہے ،جب قافلہ مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوتا ہے تو اس کا دل یہ اعتراف کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ آج تیرا سب سے بڑا ارمان ،تیری سب سے بڑی،آرزو، تمنا اور خواہش پوری ہورہی ہے ،آج ایک بھاگا ہوا اور بچھڑا ہوا غلام اپنے آقا اور اپنے محبوب کے دربار میں حاضر ہونے جارہا ہے ،ایک گنہگار امتی کو اپنے محبوب کے آستانہ پر سلام کی عزت حاصل ہورہی ہے ،، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب حاجی اور عمرہ کرنے والا مکہ مکرمہ میں عبادت، طواف کعبہ سعی بین الصفا و المروہ اور وہاں کے مقامات مقدسہ کی زیارت سے فارغ ہو کر سرزمین مدینہ کی جانب روانہ ہوتا ہے، تو وہ یہ اعتراف کرتے ہوئے مدینہ کی جانب روانہ ہوتا ہے کہ

چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ

اور دل سے یہ اقرار کرتا ہے اور یہ اندر سے یہ آواز آتی ہے کہ بار الہا ،خدا وندا !
یہ بیداری ہے یا خواب ،کہاں یہ ارض مقدس ، مہبط وحی اور کہاں یہ سراپا گنہگار اور مشت خاک ، اور کہاں مدینہ پاک کی سرزمین اور کہاں اس ننگ خلائق کی جبیں ،کہاں سرور انبیاء خاتم الانبیاء کا آساتنہ اور روضئہ اطہر اور کہاں اس سراپا عاصی اور روسیاہ کا سروشانہ،کہاں وہ مقدس ،مبارک اور پاک سرزمین جس پر سر کے بال چلنا ،اور اپنی پلکوں کو بچھانا اور جاروب کشی کرنا ،اس خاک کا سرمہ بنانا جس کو نصیب ہو جائے تو اس کا نصیبہ جاگ جائے اور اس کا مقدر سنور جائے اور کہاں ایک آوارہ و ناکارہ بے تکلف اسے پامال کرنے کی ہمت اور جرآت کر بیٹھا ،،

تیرے در کی خاک ہی سرمہ بنانے کی چیز
توڑنا دم تیرے در پر جان و دل سے ہے عزیز

جب زائر مدینہ کی نظر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور گنبد خضریٰ پر پڑتی ہے تو شوق میں بار بار دیکھتا ہی رہ جاتا ہے ،نگاہیں ہٹتی ہی نہیں ہیں اور دل میں یہ آرزو کرنے لگتا ہے کہ

تمنا ہے درختوں پر ترے روضہ کے جا بیٹھے
قفس جس وقت ٹوٹے طائر روح مقید کا

مدینہ منورہ میں حاضری کے وقت مواجہ شریف میں حاضر ہوکر جب زائر مدینہ درود و سلام پڑھتا ہے ،اپنا سلام پیش کرتا ہے اور اپنے متعلقین اور اہل تعلق کا سلام پیش کرتا ہے، تو اس وقت اس کے دل کی جو کیفیت ہوتی ہے اور جوار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ایمانی عہد کی تجدید ،گناہوں پر ندامت و شرمندگی ،معصیت پر پشیمانی ،انابت الی اللہ و رجوع الی اللہ اور توبہ و استغفار کی جو لہریں اس وقت قلب میں اٹھتی ہیں اور عشق رسول اور محبت نبی کے جو جذبات موجزن ہوتے ہیں اور الفت ومحبت اور پشیمانی کے ملے جلے جو جذبات آنکھوں سے آنسو گراتے ہیں ،اس وقت شفاعت نبوی بلکہ اپنی بخشش کی امید ہونے لگتی ہے ۔۔۔یہ صرف الفاظ کا جمع خرچ نہیں بلکہ یہ وہ ناقابل انکار حقیقت ہے جو ہر وہ زائر مدینہ محسوس کرتا ہے اور اپنے اندر یہ کیفیت پاتا ہے جو اخلاص و للہیت کے ساتھ کعبہء مقدس کے بعد ارض مدینہ کی زیارت کرتا ہے ۔
راقم الحروف اپنے قافلے کے ساتھ جس میں 29 لوگ شریک ہیں اور جس میں چار چھوٹے چھوٹے اور معصوم بچے ہیں ، ٹھیک تین بجے دن مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب لگژری بس سے روانہ ہوا ، مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی مسافت تقریب ساڑھے چار سو کلو میٹر کی ہے ، راستہ انتہائی کشادہ ہموار اور آرارم دہ، اس پر طرح کی سہولت ، لیکن اس کے باوجود دس رات بجے ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچے ،راستے میں جو مبارک اور تاریخی مقامات تھے، اس کی بھی زیارت ہوئی خاص طور پر میدان بدر، مرقد شہدائے بدر اور جبل ملائکہ کی زیارت کی ۔۔ وہیں عصر اور مغرب کی نماز ادا کی۔
تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ آج تمام تر سہولیات کے باوجود مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد بدن چور چور اور تکان سے حالت ایسی کہ رات کا کھانا اور عشاء کی نماز سے فارغ ہوتے ہی گہری نیند کے آغوش میں چلے گیا، اور پھر فجر سے پہلے ہی نید کھلی اور پہلی بار یہ سعادت ملی کہ فجر کی نماز مسجد نبوی میں نماز ادا کی ۔۔
ذرا غور کیجئے کہ آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے جب کہ نہ کوئی سڑک اور نہ سفر کی سہولت صرف پہاڑ ہی پہاڑ اور خار دار راستے سنان جگہ ،کہیں کہیں اکا دکا آبادی ،راستے میں کھانے پینے کی سہولت کے نام سے کچھ بھی نہیں، موسم کی شدت اور حدت، گرمی جاڑا اور برسات کے بدلتے موسم ،دن میں دھوپ کی شدت اور رات میں گھٹا ٹوپ تاریکی، روشنی کا کوئی انتظام نہیں ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ کس طرح ہجرت کا سفر کیا ہوگا؟ جبکہ راستے خطرناک اور پیچیدہ ، اور پھر ہجرت کے سفر کے بعد بھی متعدد بار اسی راستے کا سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کس طرح کیا ہوگا ؟، ذرا تصور کیجیے کہ جو دین اور اسلام ہم کو ملا ہے پیارے نبی صلی اللہ علیہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ ملا ہے ،کتنی مشقت ازمائش اور امتحان کو انہوں نے برداشت کیا ہے ۔۔۔۔
اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ بے محنت ہم کو یہ ساری نعمتیں مل گئی ہیں ۔
اس سفر میں ہمارے گروپ لیڈر میرے لائق فائق شاگرد مولانا عبد العلیم ندوی رائے بریلی امام کچی مسجد پیل خانہ ہاوڑہ ہیں، وہ ساتھ ہیں ، ان کو قدرت نے اچھی آواز دی ہے وہ اکثر محفلوں میں اور خاص طور پر اہل اللہ کی مجلسوں میں مناجات ، منقبت اور حمد و نعت کے اشعار پڑھتے اور گنگناتے ہیں، قافلہ والوں کی خواہش پر انہوں نے چند نعتیں جو پڑھیں، ان میں سے ہم دو نعتیں نذر قارئیں کرتے ہیں آپ اور ہم سب بھی گنگنائیں بعید نہیں کہ ان نعتیہ اشعار کے گنگنانے کے صدقہ میں زیارت کعبہ و زیارت مدینہ نصیب ہو جائے ،پہلے انہوں نے سید اقبال عظیم کی مشہور نعتیہ کلام
مدینہ کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ
بہت پر کیف و پر اثر انداز میں پیش کیا اور پھر انیس پرخاصوی کی ایک نعت
بسوئے مدینہ روانہ ہوا ہوں
کو بڑے کیف و سرور اور جذب و مستی اور شوق میں پڑھا ،آپ سب بھی ان نعتوں کو پڑھیں اور گنگنائیں ۔۔۔

مدینہ کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ
جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ
کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ
کہاں میں اور کہاں اس روضہ اقدس کا نظارہ
نظر اس سمت اٹھتی ہے مگر درزیدہ درزیدہ
غلامان محمد دور سے پہچانے جاتے ہیں
دل گرویدہ گرویدہ سر شوریدہ شوریدہ
مدینے جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں
ہوا پاکیزہ پاکیزہ فضا سنجیدہ سنجیدہ
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
وہی اقبال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراق طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ
انیس پرخاصوی کے کلام کو بھی سنیں ۔۔
نگاہوں کو اب آگیا ہے قرینہ
تو پھر کیوں نہ ہو جستجوئے مدینہ
بسوئے مدینہ روانہ ہوا ہوں
لگا دے خدا پار میرا سفینہ
محمد کا رتبہ رسولوں میں ایسا
انگھوٹی میں ہو جیسے روشن نگینہ
شمامہ حنا ،مشک و عنبر نہیں ہے
دو عالم کے سردار کا ہے پسینہ
رسول مکرم کی سنت پہ چلنا
یہی ہے خدا تک پہنچنے کا زینہ
مرے دل میں ہے سبز گنبد کا نقشہ
اگر چیر کر دیکھئے میرا سینہ
نہ پُوچھو کہ کیا کیا گزرتی ہے دل پر
جب آتا ہے پر کیف حج کا زمانہ
کسی نے جو پوچھا کہ کیا چاہتے ہو؟
کہا میں نے فورا مدینہ مدینہ
غرض اے انیس ایک ہی رٹ ہے اپنی
مدینہ ، مدینہ، مدینہ، مدینہ

غرض بڑے امنگوں آرزوں اور تمناؤں کے ساتھ مدینہ کا یہ سفر جاری رہا، اور ہم سب ان خواہشات اور آرزوؤں کے ساتھ دیار حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پہنچیں کہ

ہم نبی کا دیار دیکھیں گے
اپنے دل کا قرار دیکھیں گے
سبز گنبد پہ جب پڑے گی نظر
شوق میں بار بار دیکھیں گے
دیکھتے ہی رہ گئے خزاں ہی خزاں
اب وہاں کی بہار دیکھیں گے
ہر طرف ہے عداوتوں کا چلن
ہم مدینے میں پیار دیکھیں گے
ارض طیبہ سکوں کا مرکز ہے
ہر طرف غم گسار دیکھیں گے
پڑھ کے آقا پر ہم درود و سلام
رحمتیں بے شمار دیکھیں گے
ہر ستوں اور منبر و محراب
ان کو لیل و نہار دیکھیں گے
ہم ندامت کے اشک برسا کر
رحمت کردگار دیکھیں گے
بدعتوں سے کنارہ کش ہوکر
سنتوں کی بہار دیکھیں گے
ہم مدینہ کو چل پڑیں گے انیس
دل کو جب بے قرار دیکھیں گے

جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ازقلم: محمد قمر الزماں ندوی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے