دین اسلام ایک کامل اور تربیت یافتہ مذہب ہے، انسانوں کی رشد و راہبری اور تربیت کے لئے اللہ نے قرآن پاک کو نازل کیا، اور پھر یہ کہ رسول اللہﷺ کو معلم ومربی بناکر بھیجا، اب حضورﷺ پر دین مکمل ہوچکا ہے،
تاریخ حضورﷺ کی ایسی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے:
تاریخِ عالم اُس محبت، پیار اور شفقت کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، جو حضورؐ نے بچوں کے ساتھ کیا تھا؛ آپﷺ نے اپنی عظیم مصروفیات اور اَن گنت ذمہ داریوں کے باوجود اپنی مبارک زندگی کو جس حُسن وخوبی کے ساتھ گذارا ہے، یقینا جب تک نسلِ انسانی کا وجود قائم ہے، بچوں سے محبت و اُلفت کا یہ کامل نمونہ شمع ہدایت بن کر چمکتا رہے گا۔
سفر سے واپسی پر معمول مبارک
آپﷺ کا معمول تھا کہ جب کبھی سفر سے یاکسی غزوہ سے واپس تشریف لاتے تو پہلے اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمتہ الزہرہؓ کے لئے ضرور کھانے پینے کی کوئی چیز لا کر دیتے تھے(سنن أبی داؤد، أَوَّلُ كِتَابِ التَّرَجُّلِ ،بَابُ مَا جَاءَ فِي الِانْتِفَاعِ بِالْعَاجِ) ایسے ہی حضورﷺ جب باہر یا دیگر سفر سے تشریف لاتے اور آپﷺ سواری پر ہوتے تو راستہ میں جو بچے مل جاتے اُنہیں اپنے ساتھ آگے پیچھے بٹھالیتے تھے؛ (سنن ابی داؤد، كِتَابُ الْجِهَادِ، بَابٌ فِي رُكُوبِ ثَلَاثَةٍ عَلَى دَابَّةٍ) حضورﷺ راستہ چلتے وقت بچوں کو خود سلام کرتے تھے۔
بچوں سے محبت
ایک غزوہ میں چند بچے شہد ہوگئے حضورﷺ نے اُن کا بہت غم کیا؛ کسی صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ! وہ تو مشرکوں کے بچے تھے۔ حضورؐ نے فرمایا "خبردار بچوں کو قتل نہ کرنا! خبردار بچوں کو قتل نہ کرنا! ” پھر فرمایا ” ہر بچہ اللہ کی فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے” یعنی ہر بچہ فطرت ( اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس كے والدين اسے يہودی، عيسائى يا مجوسى بناديتے ہیں۔ (صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب: اذا اسلم الصبي، صحيح مسلم: كتاب القدر، باب معنى كل مولود يولد على فطرتہ)
بچوں کی محبت کو دیکھ کر متاثر ہوتے
آپﷺ کسی ماں کو دیکھتے کہ اپنے بچے کو پیار کررہی ہے تو بہت متاثر ہوتے؛ ماؤں اور بچوں کی محبت کے قصے سُنتے تو فرماتے "جسے اللہ اولاد کی محبت دے اور وہ اولاد کا حق بجا لائے، تو وہ دوزخ کی آگ سے محفوظ رہے گا”۔(سنن الترمذي، كتاب البر والصلة عن رسول اللهﷺ باب ما جاء في النفقة على البنات والأخوات)
بچوں سے محبت کا ایک انداز
حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے ایک دفعہ فرمایا ” نماز کے وقت مقتدی عورتوں میں سے کسی کا بچہ روتا ہے تو میں نماز مختصر کر دیتا ہوں تاکہ بچے کی ماں بے چین نہ ہو”۔ (بخاری: ۷۰۷ باب من أخف الصلاة عند بکاء الصبی)
حضورﷺ بچوں سے دل لگی:
حضورﷺ بچوں سے دل لگی کی باتیں بھی کیا کرتے تھے؛ اُمِ خالد چھوٹی سی تھیں ایک دفعہ وہ سُرخ رنگ کا کرتہ پہنے نظر آئیں تو ان سے فرمایا "سنہہ سنہہ” حبشی زبان میں سنہہ کے معنی خوش نما کے ہیں؛ حضرت اُمِ خالد کی پیدائش اتفاق سے حبش کی تھی، اور اُن کا کچھ وقت وہاں گزرا تھا؛ اس مناسبت سے آپﷺ نے حبشی زبان کا لفظ استعمال کیا (بخاری کتاب اللباس باب الخميصة السوداء) کوئی شخص جب پھل فروٹ کا نذرانہ پیش کرتا تو آپ ﷺ حاضرین میں سے سب سے پہلے بچوں کو بانٹتے تھے۔
بچوں سے پیار کرتے تھے
ایک دفعہ حضورﷺ بچوں سے پیار محبت کر رہے تھے کہ اقرع بن حابس نے دیکھا کہ آپ حضرت حسن کو چوم رہے ہیں، یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ حضورﷺ میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما، آپﷺ نے فرمایا: جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا (بخاری: ۵۹۹۷، باب رحمة الولد وتقبیلہ) ایک دفعہ آپﷺ حضرت حسن کو چوم رہے تھے ایک دیہاتی نے حیرت کا اظہار کیا تو فرمایا کہ اگر اللہ نے تیرے دل سے رحمت کو نکال دیا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ (بخاری: ۵۹۹۸ باب رحمة الولد وتقبیلہ)
ایک دفعہ آپﷺ حضرت فاطمہ زہرا کے صحن میں بیٹھ کر حضرت حسن کے بارے میں دریافت کیا، تھوڑی ہی دیر میں وہ آگئے، آپﷺ نے انھیں گلے سے لگایا، بوسہ دیا اور فرمایا: اے اللہ! میں حسن سے محبت رکھتا ہوں تو بھی حسن سے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھ (بخاری: ۳۷۴۹، باب مناقب الحسن)۔
بچوں سے شفقت اور سجدہ میں تاخیر
جب آپﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب کا انتقال ہوا تو ان کی صاحبزادی امامہ سے آپ بہت زیادہ محبت کا اظہار فرماتے، ان پر بہت زیادہ شفقت فرماتے، بعض دفعہ اپنے ساتھ مسجد بھی لے آتے، وہ آپﷺ پر حالت ِ نماز میں سوار بھی ہوجاتیں، جب آپﷺ سجدہ میں جاتے تو انھیں نیچے اتار دیتے، جب قیام فرماتے تو کاندھے پر سوار فرمالیتے (بخاری: ۵۱۶ باب إذا حمل جاریة صغیرة) ایک دفعہ حضورﷺ نماز ادا فرما رہے تھے کہ حسینؓ جو اُس وقت بچے تھے آپﷺ کے کندھوں پر سوار ہو گئے؛ آپﷺ اتنی دیر تک سجدہ میں رہے جب تک وہ خود نہیں اُترے۔ (مسند احمد : ۱۶۰۳۳، حدیث شداد بن الہاد)
بچوں کے دن کی مہارت کا خیال رکھنا
غزوۂ اُحد کے دوران نوعمر بچے بھی جہاد کے شوق میں گھروں سے نکل کر مجاہدین کی صفوں میں شامل ہو گئے تھے؛ انہی بچوں میں دو نوعمربچے رافع بن خدیج ؓ اور سمرۃ بن جندبؓ بھی شامل تھے؛ حضورؐ کو جب بچوں کی شرکت کا علم ہوا تو چودہ سال سے کم عمر بچوں کو واپس جانے کا حکم دیے دیا؛ رافع بن خدیج ؓ کو خدشہ تھا کہ انہیں کم عمری کے باعث اجازت نہیں ملے گے، چنانچہ صفوں کے معائنہ کے دوران اُنہوں نے پنچوں کے بل کھڑے ہو کر خود کو بڑا ظاہر کرنے کی کوشش کی اور عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ کہ میری عمر کم ہے؛ مگر میں ایک اچھا تیر انداز ہوں؛ اس لئے مجھے اجازت دی جائے؛ آپﷺ نے نشانہ بازی کا ٹیسٹ لیا تو وہ کامیاب ہو گئے؛ پھر کیا تھا انہیں اجازت مل ہی گئی؛ جب سمرہ بن جندبؓ کی باری آئی تو اُنہوں نے کہا کہ مجھے بھی اجازت دی جائے کیونکہ میں رافع ؓ سے طاقتور ہوں میں اسے پچھاڑ سکتا ہوں؛ آپﷺ نے اپنے سامنے دونوں سے کشتی لڑوائی اور واقعتا سمرہؓ نے رافعؓ کو پچھاڑ دیا، حضورﷺ نے اُن کو بھی غزوہ اُحد میں شرکت کرنے کی اجازت دے دی۔ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابة، ذکر رافع بن خدیج رضي الله عنه)ا
اختتامیہ
آج بچوں کے لیے خاص طور پر پورے معاشرے میں غیر اخلاقی کہانیاں اور لطیفے لٹریچر پیش کیا جارہا ہے، جو بجائے بچوں کی تربیت کے ان کے اخلاقی بگاڑ کا باعث بنا ہوا ہے، آج خصوصا اس امر کی ضرورت ہے کہ بچوں کےلیے مذہبی اور حوصلہ افزوں کہانیاں کے ساتھ ساتھ اطفال صحابہؓ واولیاء پر دلچسپ حکایات فراہم کیا جائے جو ان کی دلچسپی کا بھی باعث ہوں، اور ان کی بہتر تربیت بھی ہو سکے، اور اسلام کا درست پہلو امت کے سامنے پیش کرسکے۔
اپیل
یاد رکھیں ماں اپنے بچوں کی نگران ہے، قیامت کے دن اس سے بچوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا؛ پوچھا جائے گا؟ تم نے اپنے بچوں کی نگرانی کا فرض کس انداز سے پورا کیا.؟(بخاری، کتاب الاحکام،باب قول اللہ تعالیٰ حدیث نمبر:7138)
لہذا ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کا آغاز اپنے پیارے نبیﷺ کی سیرتِ طیبہ سے کرنا چاہئے؛ انہیں نبیوں ، صدیقوں اور شہیداء کے واقعات یاد کروانا چاہئے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ انہوں نے لوگوں کو اچھا بنانے کی کوششوں میں کن کن مصیبتوں کوکس ہمت اور جرأت کے ساتھ برداشت کیا۔
یہ گوشہء اطفال کے نام سے بچوں کی تربیت کا بہترین پہلو ہے اللہ تعالیٰ اس کاوش کو اہل اسلام کے لیے نفع بخش بنائے (آمین )