ازقلم: محمد دلشاد قاسمی
پوری اولادِ آدم کو چند خواہشات نے اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اور ہر طرف دولت و اقتدار کے لیے ہاتھا پائی ہو رہی ہے۔ آدمیت کے اخلاقی شعور کی مشعل گل ہے۔ جرائم تمدنی ترقی کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ نفسیاتی الجھنوں کا زور ہے اور ذہنی سکون یکسر غائب ہوچکا ہے۔ انسانی ذہن و کردار میں ایسا بنیادی فساد آگیا ہے کہ زندگی کا کوئی گوشہ اس کی منحوس پرچھائیں سے محفوظ نہیں رہا۔ فلسفہ و حکمت سے سچائی کی روح کھو گئی ہے۔ اعتقادات و نظریات میں توازن نہیں رہا۔ روحانی قدریں چوپٹ ہو چکی ہیں۔ قانون روحِ عدل سے خالی ہو رہا ہے۔ سیاست میں جذبۂ خدمت کی جگہ اغراض پرستی گھس گئی ہے۔ معیشت کے میدان میں ظالم اور مظلوم طبقے پیدا ہوگئے ہیں ۔
دور حاضر ایک مادیت کا دور ہے یہاں ہر شے مادیت کے سانچے میں ڈھل چکی ہے ۔دولت کی ہوس نے انسان کو بے حس کر کے رکھ دیا ہے ۔مادیت کی دوڑ میں اجتماعی معاملات پر خاموشی ہمارے معاشرے کا وطیرہ بنتی جارہی ہے ۔قومی و ملکی مسائل سے لے کر سماجی روابط اور معاشرتی رویوں تک کوئی گوشہ ایسانہیں ہے جس پر ذاتی مفادات کو ترجیحات اور شخصی پسند ناپسند کی بجائے قومی و سماجی منفعت کو مقدم سمجھا جاتا ہو معصوم بچوں کی اُکھڑی ہوئی سانسیں آج ہمارے حکمرانوں کو صدا دے رہی ہیں کوئی ہے جو ان کو نئی زندگی بخش دے ۔مگر ہر طرف مردہ ضمیر انسانوں کا جمِ غفیر ہے کہیں سے کوئی شخص ان معصوموں کی آواز سننے کو تیار نہیں ہے ہر روز سینکڑوں معصوم بچے غذائی قلت اور ادویات کی عدم دستیابی کے سبب لقمہ اجل بن رہے ہیں آج انسانیت تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہی ہے موت ہر طرف رقص کر رہی ہے روز بروز فسادات ہورہے ہیں، قتل ایک آسان کام، غارت گری اور لوٹ گھسوٹ دولت کمانے کا ذریعہ ہوگیا ہے، زنا اور شراب نوشی عام ہے، ایک دُوسرے پر تہمت لگانا کوئی اہم بات نہیں، رشوت اور سودخوری دُنیا کی ضرورت میں داخل ہوگئی ہے، آئے دن اغوا کے واقعات پیش آرہے ہیں عصمت فروشی عام ہو گئی مہنگائی ملکی تاریخ کی انتہائی بلندی پر پرواز کر رہی ہے جس کی وجہ سے غریب اور مزدور آدمی کا جینا محال ہو گیا ہے۔ آخر انسانوں کو کب تک ذلیل و خوار کیا جاتا رہے گا ۔؟
افلاس، بھوک، ظلم و الم، فکر معیشت
دکھ درد، کرب، رنج و تعب، یاس، مصیبت
خالی نہیں کسی کا بھی دامان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
سچ بولنا ہے جرم، یہاں ہے یہی دستور
سچ بات جس نے کی اسے سمجھا گیا ناسور
کوئی نہیں ہے سچ کا قدردان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
اس دور کا ہے صاحبِ زر صاحبِ عزت
قانون بھی اسی کا ہے جو صاحبِ دولت
حیرت کی آنکھ خود بھی ہے حیران یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
انسان خواہشات کے ہاتھوں ہوا مجبور
انسانیت سے ہوگئے ہم دور، بہت دور
انسانیت ہے خود بھی پریشان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
اپنی ہی آستیں کے ہمیں ڈس رہے ہیں سانپ
انسان مٹ چکے ہیں یہاں بس رہے ہیں سانپ
انساں کے روپ میں ہیں کچھ حیوان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
راجا ، نہیں رہا کوئی عزت کا تحفظ
محفوظ آدمی ہے نہ عصمت کا تحفظ
ہر حال کامیاب ہے شیطان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
آج دنیا کو کسی مسیحا کی تلاش ہے آج پوری انسانیت کسی مسیحا کی تلاش میں ہے جو دنیا میں امن و سکون اور درپیش سنگین مسائل سے نجات دلا سکے۔
آخر وہ کون ہوگا جو عام آدمی کے مسائل کے حل کرنے کی مخلصانہ کوشش و عمل کرے گا۔
جس طرح امت مسلمہ میں ہر دور میں داعی اور مصلح آتے رہے اور انسانیت کو علوم و آگہی کا شعور دیتے رہے اور امت مسلمہ کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو ساحل مراد تک پہنچاتے رہے۔ ہر داعی نے اپنی بساط کے مطابق دنیا کو امن اور محبت کے عنوانات سے روشناس کیا اور اسلام کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کو پروان چڑھایا۔ اللہ تعالیٰ سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو بحال کرنے کا فریضہ صوفیاء نے انجام دیا۔۔۔ دین اسلام کی احیاء اور اسے عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے مجدد دین نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔۔۔ اسلام کی فکری اور اخلاقی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے مسلمان مفکرین نے میدان عمل میں خدمات انجام دیں۔۔ کربلا کے میدان میں اسلامی نظام کی بقا اور احیاء کے لئے امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کرکے رہتی دنیا تک ظلم و جبر اور منافقت کے خلاف ڈٹ جانے کا عملی درس دیا۔۔۔ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے ایک مساویانہ نظام کی عملی شکل پیش کرکے قیامت تک ایک درخشندہ مثال قائم کردی۔
الغرض ہر دور میں اپنے اپنے میدان کے شہسوار آتے رہے اور مسیحائی کا حق ادا کرتے رہے آج اکیسویں صدی میں استعماری طاقتیں ہر محاذ پر انسانیت پر ظلم کر رہی ہیں اور اسلامی افکار اور شعائر کو نشانہ بنارہی ہیں ۔
آج پھر ایک مسیحا کی تلاش ہے جو امت مسلمہ کو ہر محاذ پر فتح یاب کرسکے۔
اب سوال یہ ہے کہ مسیح کون ہے؟
*
وہ مسیحا کون ہے ؟ وہ اسلامی تعلیمات اور احکام اسلام کا نفاذ ہے کیونکہ سسکتی ہوئی انسانیت کو امن و سکون کی راہ اسی کے ذریعے ملی یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ آپ تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں آپ پوری انسانیت کی تاریخ پڑھ جائے جب بھی انسانیت کے اوپر ظلم ہوا تو اسلامی تعلیمات ہی اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے آئی ان کا دنیا میں نفاذ ہوا اور پھر دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن گئی۔
جس کسی نے عربوں کی زندگی چند سال پہلے دیکھ رکھی ہو، کیا وہ یقین کرسکتا ہے کہ عمرؓ بن الخطاب ایسا سردارِ بنی مخزوم، جو کبھی عکاظ کے میلوں میں چمپئن ہوا کرتا تھا اور جوکہ آج بھی عرب کا سردار ہے بلکہ ’سپریم پاور‘ کا فرماں روا ہے۔۔ حبش کے سیاہ فام بلالؓ کو توقیر دیتے ہوئے آج یوں گویا ہوتا ہے:
ہذا سیدنا اَعتقہ سیدنا اَبو بکر!(8)
”یہ ہمارے آقا ہیں، اِن کو ہمارے آقا ابو بکرؓ نے آزاد کیا تھا!!!!!“
کون ہے جس کے دم سے ایک ایسا بنجر لہلہانے لگا؟؟؟!!!
٭٭٭٭٭وہ کون مبارک ہستی ہے جس نے معصوم لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینے کی سفاک رسم عرب میں بند کرائی؟ صرف دو آیات جو عرب کی کایا پلٹ گئیں
واذا الموءوده سئلت باي ذنب قتلت
ایک ’کم زور‘ مخلوق جو کبھی خود ’ترکہ‘ شمار ہوتی تھی، کس نے اس کو وراثت میں ’زورآور‘ کے ساتھ باقاعدہ ”حصہ دار“ بنا دیا:
لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا (النساء: 7
یہ ہے وہ تعلیمات اسلامی ہیں جس نے برہنہ ہوچکی انسانیت کے تن کو تہذیب کی چادر از سر نو پہنائی۔ ظلم اور استحصال کی ایک نہیں ہزاروں صورتیں ختم کرائیں!!!
دین کا استحصال، اَخلاق کا استحصال، تہذیب کا استحصال، حق کا استحصال۔۔ ظلم اور جہالت کی کونسی صورت ہے جو اپنے عروج کو نہ پہنچ چکی تھی اور جسے خدا کے اِس آخری نبی نے نابود کئے بغیر چھوڑ دیا؟!!
مَن وَحَّدَ العَرَبَ حَتّیٰ کَانَ وَاتِرُہُم
اِذَا رَ اَیٰ وَلَدَ المَوتُورِ آخَاہُ
کیا یقین کرنے کی بات ہے کہ کسی نے ’عرب‘ کو شیروشکر کر ڈالا؟! یہاں تک کہ قاتل اور مقتول کی اولاد اپنا انتقام بھول کر بھائی بھائی بن گئے!
سَنّوا المُسَاوَۃ لا عَرَبَ وَلا عَجَمَ
مَا لِامرِیئٍ شَرَف ٌ اِلّا بِتَقوَاہُ
شتر بانوں نے وہ مساوات قائم کر دکھائی کہ عرب عرب رہے اور نہ عجم عجم! آدمی کے پاس دکھانے کو کوئی رتبہ ہی باقی نہ رہا، سوائے یہ کہ وہ خدا سے کتنا ڈر کر رہتا ہے!
وَقرَرتُ مبدَ اَ الشوّریٰ حکومتہم
فَلَیسَ لِلمَرءِ ما تمناہُ
اور بقیہ زمانے کیلئے اصول ٹھہرا دیا کہ ان کی حکومت کی اساس شوریٰ ہے، یہ نہیں کہ ہر شخص کی جو مرضی آئے وہ کرتا پھرے
آج بھی پوری سسکتی ہوئی انسانیت کا علاج اسلامی احکام کا نفاذ ہے۔ ضرورت ہے کہ آج قتل کرنے والے پر قصاص اور دیت کے احکام جاری ہوں تب ہی قتل کے اَن گنت واردات پر قابو یافتہ ہوا جاسکتا ہے، حدزنا کے نفاذ سے ہی زنا جیسی گندی اور فحش کرتوت کا خاتمہ ہوسکتا ہے، حد سرقہ کے نفاذ سے ہی چوری کے واقعات پر قابو یافتہ ہوا جاسکتا ہے۔ آج اگر حدقذف نافذ ہوتب ہی تہمت لگانے والوں کی زبان پر تالا لگ سکتا ہے، غرض یہ کہ دُنیا میں امن وامان اور سکون و اطمینان کا ماحول پیدا کرنے کے لیے روئے زمین پر حدود و قصاص اور تعذیراتِ اسلامی کا نافذ ہونا ضروری ہے، آج عملاً دُنیا اسی کا انتظار کررہی ہے
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہی سے نکلے گا
آخر آج کے اِس دَور کو کون سا دَور کہیں گے؟ فتنوں کادَور! گناہوں کا دَور! بے حیائی اور بے لگامی کا دَور! خودسری اور خودغرضی کا دَور! شیطانی دَور! یاجوجی یا ماجوجی دَور! سمجھ میں نہیں آتا کہ عصرِ حاضر کو کیا نام دیا جائے؟ دَورِ حاضر دَورِ جاہلیت کی طرف تیزی سے رَواں دَواں ہے؛ بلکہ بعض لحاظ سے اِس سے بھی آگے جاچکا ہے۔ اِن جملہ خرابیوں کو دُور کرنے اور اِن پر قابو یافتہ ہونے کی سارے عالم میں کوششیں کی جارہی ہیں؛ لیکن کوئی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ نئی نئی تجاویز روبہ عمل آکر فیل ہورہی ہیں؛ تعمیر کے بجائے تخریب کا باعث بن رہی ہیں، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ، ہونا بھی یہی چاہئے؛ اِس لیے کہ اِن جملہ خرافات، بے اطمینانی اور بے چینی پر قابو پانے کے لیے محض انسانی تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں۔ اور انسانی تدبیریں پورے طور پر کامیاب ہی کب ہوتی ہیں؟
آج ضرورت ہے اُن تدبیروں کی اورنسخہٴ کیمیا کی جو نبیٴ اُمی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہ خالقِ کائنات کا عطا کردہ نسخہ تھا، جس نے گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں پھنسی ہوئی انسانیت کو روشن شاہ راہ پر لاکھڑا کردیا۔ جس نے بدترین خلائق کو بہترین خلائق بنادیا اورجس نے مردوں کو مسیحا کردیا۔
جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی