ازقلم: محمد دلشاد قاسمی
موجودہ دور میں میں سب سے بڑا افسوس یہ ہے کہ آج کل ہمارے علماء اور قائدین کی جماعت میں دو بڑے فتنہ عروج پا رہیں ہیں جو نہایت خطرناک ہے اور وہ ہے "مصلحت اندیشی کا فتنہ” آج جبکہ پانی سر سے اوپر اتر چکا ہے رسول اللہ کی شان میں علی الاعلان گستاخی کی جارہی ہے. اس کے باوجود عوام کو مصلحت ، مصلحت ، کی تھپکی دے کر سلایا جا رہا ہے اور وہ خود بھی سوئے ہوئے ہیں کتنے افسوس کی بات ہے !!!
(2) دوسرے خطابت و تقریر کا فتنہ یہ فتنہ بھی بہت عام ہوتا جا رہا ہے کہ لن ترانیاں اور لفاظیاں تو انتہا درجے میں ہو لیکن عملی کام صفر کے درجے میں ہو عملی کردار سے اس کا کوئی واسطہ نہ ہو ۔
يا ايها الذين امنوا لم تقولون ما لا تفعلون كبر مقتا عند الله ان تقولوا مالا تفعلون
اے ایمان والوں کیوں کہتے ہو منہ سے وہ بات جو نہیں کرتے ہو بڑی بیزاری کی بات ہے اللہ کے یہاں تم وہ کہو جو نہ کرو ۔
جب ایک خطیب اور ایک مقرر بیان کرتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام جہاں کا درد اس کے دل میں ہے لیکن جب عملی زندگی سے اس کا موازنہ کیا جائے تو درجہ صفر ہوتا ہے ۔
اگر زمانہ قدیم میں ہمارے اکابرین نے بھی یہی مصلحت کی تسبیح پڑھی ہوتی تو شاید آج ہم یہاں نہ ہوتے مولانا جعفر تھانیسری رحمہ اللہ اپنی کتاب ” تاریخ کالا پانی ” میں لکھتے ہیں کہ ہمارا علماء کا ایک قافلہ تھا انگریز نے اس قافلے کو دہلی سے لاہور بھیجا مگر جس انگریز نے دہلی سے لاہور بھیجا اس نے فقط ہتھکڑیاں لگائی لہذا ہم بڑے اطمینان سے اللہ اللہ کرتے ہوئے دہلی سے لاہور پہنچ گئے لیکن لاہور جیل کا انچارج بہت ہی جابر متشدد قسم کا آدمی تھا اس نے جب دیکھا کہ یہ مولوی آرام کے ساتھ سفر کر کے یہاں آ گئے تو اس نے کہا اب میں ان کو سبق سکھاؤں گا دیکھتا ہوں یہ کیسے ہمارے ساتھ غداری کرتے ہیں چنانچہ اس نے ریل گاڑی کے اندر چھوٹے چھوٹے کیبن بنوائیں اور ہر کیبن میں چاروں طرف کیل لگوائی وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے بیٹھنے کی جگہ کے چاروں طرف ایک ایک دو دو انچ کے فاصلے پر کیل لگی ہوئی تھی ان کیبنوں میں ہمیں بٹھایا گیا جب ریل گاڑی چلتی اور پیچھے سے جھٹکا لگتا تو ہمارے جسم پر پیچھے کیل چبھ جاتی جب دائیں طرف جھٹکا لگتا تو دائیں طرف کیل چبھ جاتیں اور جب بائیں طرف جھٹکا لگتا تو بائیں طرف کیل چبھ جاتی چلتی ہوئی ریل گاڑی پر ہمیں پتا نہیں ہوتا تھا کہ بریک کہاں لگیں گے جب اچانک سے بریک لگتی تو ہمارے ان زخموں پر پھر کیل چبھ جاتی فرماتے ہیں کہ وہی پسینہ بھی نکلتا اور خون بھی بہتا اور سو بھی نہیں سکتے تھے ہمیں انہوں نے اسی حالت میں لاہور سے ملتان بھیجا یہ تکلیف دہ سفر ایک ماہ میں طے ہوا اور ہم پورا مہینہ دن کو بھی بیٹھے رہتے اور رات کو بھی بیٹھے رہتے ہمیں اتنی سخت سزا اس لیے دی کہ ہم تنگ آ کر کہہ دیں کہ آپ جو کہتے ہیں ہم وہ ماننے کو تیار ہیں مگر قربان جائیے ان کی عظمتوں پر اور حوصلوں پر کہ انہوں نے یہ تکلیف تو برداشت کر لی مگر انہوں نے فرنگی کی بات کو ماننا پسند نہ کیا آگے لکھتے ہیں کہ ایک مہینے کے اتنے پر مشقت سفر کے بعد جب ہم ملتان پہنچے تو وہاں پر موجود حاکم نے کہا کہ ان لوگوں کو ہم کل پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیں گے جب ہم نے پھانسی کی خبر سنی تو ہمارے دل خوش ہوئے کہ اب ہمیں اپنا مقصود نصیب ہو جائے گا اگلے دن وہ جب ہمیں پھانسی دینے کے لئے آیا تو اس نے دیکھا کہ ہمارے چہرے پر رونق تھے ہمارے تروتازہ چہروں کی رعنائیاں دیکھ کر وہ کہنے لگا او ملاؤں تمہارے چہروں پر مجھے تازگی کیوں نظر آرہی ہے ہم میں سے ایک نے جواب دیا کہ ہمارے چہرے اس لئے تروتازہ ہیں کہ آپ ہمیں پھانسی دیں گے تو ہمیں شہادت نصیب ہو جائے گی جب اس نے یہ بات سنی تو وہی سے واپس اپنے دفتر چلا گیا اور اس نے اپنی بڑی اتھارٹی سے رابطہ کیا اور بتایا کہ یہ تو خوش ہیں کہ ان کو پھانسی دے دی جائے چنانچہ اس نے واپس آ کر اعلان کیا کہ ملاؤں تم خوش ہو کر موت مانگتے ہو لیکن ہم تمہیں موت بھی نہیں دیں گے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں کالا پانی بھیج دیا جائے اس موقع پر مولانا جعفر تھانیسری رحمتہ اللہ علیہ نے ایک شعر لکھا فرماتے ہیں
مستحق دار کو حکم نظر بندی ملا
کیا کہوں کیسے رہائی ہوتے ہوتے رہ گئی
آگے لکھتے ہیں کہ اس سے بھی بڑی قربانی کا وقت وہ تھا جب وہ ہمیں کالا پانی بھیج رہے تھے تو اس وقت انہوں نے منصوبہ بندی کے تحت ہمارے بیٹوں بیٹیوں ، بیویوں ، اور باقی چھوٹے بڑوں کو بلوایا اور ہمیں زنجیروں میں باندھ کر اور بیڑیاں پہنا کر ان کے سامنے پیش کیا اور ان سے کہا کہ تم انہیں منا لوں لو اگر یہ کہہ دیں کہ ہم فرنگی کے غدار نہیں ہے تو ہم انہیں ابھی تمہارے ساتھ گھر بھیج دیتے ہیں فرماتے ہیں کہ اب بیوی بھی رو رہی تھی بیٹی بھی رو رہی تھی میرا ایک چھوٹا بیٹا بھی میرے ساتھ لپٹ کر رو رہا تھا آپ یہ کیوں نہیں کہہ دیتے ؟ بس آپ کہہ کر ہمارے ساتھ گھر چلے ، فرماتے ہیں کہ میرے لئے اس سے بڑا صبر آزما لمحہ کوئی نہیں تھا جب میرا بیٹا بہت زیادہ رویا تو میں نے اپنی بیوی کو اشارہ کیا کہ بچے کو سینے سے لگاؤ اور اس سے کہا بیٹا اگر زندگی رہی تو تمہارا باپ تمہیں دنیا میں آکر ملے گا اور اگر نہ رہی تو پھر قیامت کے دن حوض کوثر پر ہماری ملاقات ہوگی یہ ہوتی ہے امت کے لئے اصل قربانی !! ہمارے بزرگوں نے کتنی مشقتیں برداشت کی اس مختصر تحریر سے ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا تاریخ کی کتابیں ان کی قربانیوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ لیکن ہم حالات کے اتنے سنگین ہونے کے باوجود مصلحت ، مصلحت ، کے گیت گائے جا رہے ہیں ۔
اب فقط شور مچانے سے نہیں کچھ ہوگا
صرف ہوٹوں کو ہلانے سے نہیں کچھ ہوگا
زندگی کے لیئے بے موت ہی مرتے کیوں ہو
اہل ایماں ہو تو شیطان سے ڈرتے کیوں ہو
خود کو پہچانو کہ تم لوگ وفا والے ہو
مصطفےٰ والے ہو مومن ہو خدا والے ہو
کفر دم توڑ دے ٹوٹی ہوئ شمشیر کےساتھ
تم اگر نکل آؤ نارائے تکبیر کے سا تھ
اپنے اسلام کی تاریخ الٹ کر دیکھو
اپنا گزرا ہوا ہر دور پلٹ کر دیکھو
تم تو پہاڑوں کا جگر چاک کیا کرتے تھے
تم تو دریاؤں کا رخ موڑ دیا کرتے تھے
تم نے خیبر کو اُکھاڑا تھا تمھیں یاد نہیں
تم نے باطل کو پچھاڑا تھا تمھیں یاد نہیں
لے کے اسلام کے لشکر کی ہر خوبی اٹھو
اپنے سینے میں لیئے جذبہ رومی اٹھو
تم جو چاہو تو زمانے کو ہلا سکتے ہو
فتح کی ایک نئ تاریخ بنا سکتے ہو
خود کو پہچانو تو سب کچھ سنورسکتاہے
دشمنِ دین کا شیرازہ بکھر سکتا ہے
حق پرستوں کے فسانوں میں مات نہیں۔
تم سے ٹکرائے زمانے کی یہ اوقات نہیں