ازقلم: محمد قاسم ٹانڈؔوی
فسادی ٹولہ کی شرانگیزی اور پولس کی موجودگی میں نفرت و تشدد پر مبنی حالیہ ویڈیوز اور تصاویر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ:
"آگ و خون کا یہ کھیل خفیہ پلانننگ و مقاصد کے تحت کھیلا جا رہا ہے، جس میں بڑے بڑے اژدھے اور خطرناک قسم کے موذی و جان لیوا جانور نما انسانوں کی سازشیں اور کارستانیاں شامل و کارفرما ہیں، جو اپنی ان ناپاک حرکتوں سے اس ملک کے امن و امان، عدل و انصاف، آئین و دستور اور سیکولرازم کو پارہ پارہ کر دینا چاہتے ہیں اور عوام کو اپنے دست نگر لاکر ان کو ان کی آزادی سے محروم کر دینا چاہتے ہیں”۔
لیکن یاد رہے۔۔۔۔! اس ملک کا کوئی بھی شہری قانون سے اوپر اور باہر نہیں ہو سکتا، آج جو لوگ مذہب کے نام پر قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں اور مذہبی و جذباتی نعروں کا سہارا لے کر اپنی طاقت و اقتدار کا مظاہرہ کر رہے ہیں؛ وہ سب وقت فرصت بیٹھ کر ذرا اس پہلو پر بھی غور و فکر کریں کہ: ہمارا یہ پیارا ملک، ہمارا یہ عزیز وطن پیار و محبت کا گہوارہ اور مشترکہ تہذیب و ثقافت کا علمبردار رہا ہے، یہاں گاندھی و آزاد اور بسمل و اشفاق نے مندر و مسجد کی بحث میں الجھے بغیر ملک کی خوشحالی اور ترقی کے خواب بنے تھے، وہ آزادی کو ہر ایک کا ذاتی و پیدائشی حق تصور کرتے تھے، ملک میں رائج تمام مذاہب ان کے نزدیک قابل احترام تھے، ہندو مسلم کی تفریق ان کے نزدیک بڑی معیوب شئی تصور کی جاتی تھی؛ لیکن آج اکثریتی فرقہ کے نادان و ناسمجھ اور متشدد و جنونی نوجوان ان ہی تمام شوشوں کو ہوا دے کر ہمارے مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو ملیا میٹ اور اس ملک کے اولین معماروں کے خوابوں کو مسمار و مخدوش کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس ملک کی سلامتی مذہبی رواداری، اخوت و ہمدردی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے اصولوں میں پوشیدہ ہے، جس کی حفاظت و پاسداری تمام مذاہب کے ماننے والوں اور آئین و دستور کی رعایت کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے، ورنہ آگ و خون کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دانستہ طور پر اس ملک کو جس غلط راہ پر ڈالا جا رہا ہے، وہ انتہائی تند و تاریک اور خار دار راہ ہے، خدانخواستہ ملک و ملت کے دشمنوں نے جس راہ کو چنا ہے، اگر اس نے رفتار پکڑ لی تو یاد رکھنا کہ طوفان کی زد میں آنے والے تمام خس و خاشاک بہہ جاتے ہیں اور طوفان گزر جانے کے بعد جو باقی رہتا ہے وہ ملبہ اور کباڑا ہوتا ہے، جو دیکھنے والوں کےلیے ماتم و افسوس کے لائق ہوتا ہے۔ اس لیے ملک و قوم کے حق میں بہتر و مناسب یہی ہوگا کہ قبل اس کے کہ حالات بد سے بدتر ہوں؛ عقل و ہوش کے ناخن لے لیے جائیں اور ہر ایک کو حاصل شدہ آزادی کے ساتھ جینے دیا جائے۔ ہر ایک اپنے مذہب کا پیروکار بننے کے ساتھ دوسرے مذاہب کا احترام کرنے والا ہو، جتنا تقدس اپنی عبادت گاہ اور مذہبی رسم و رواج کا تصور کیا جاتا ہے، اس سے کہیں زیادہ خیال دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں اور دوسروں کے تہواروں کا کیا جائے، نفرت و تشدد سے نہ کل کسی کا بھلا ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ کسی کا بھلا ہو سکتا ہے۔ ملک کی خوبصورتی اور اس کی بقا و سالمیت میں جو چیز پیار و محبت اور باہمی روا داری سے پیدا ہو سکتی ہے، وہ نفرت و عداوت اور مذہبی شدت پسندی سے ہرگز نہیں ہو سکتی۔ ملک کےلیے پیش کی گئیں ہمارے بڑوں کی قربانیاں اسی وقت ثمرآور اور مفید و معاون ثابت ہوں گی جب ہم ایک ساتھ مل کر اس ملک کو ترقی و خوشحالی کے راستے پر آگے بڑھائیں گے اور سماج میں پنپنے والی نفرت و عداوت کو اپنے درمیان سے ختم کریں گے اور ہندو مسلم کو یہ تصور کرتے ہوئے قبول برداشت کریں گے کہ جیسے ہر انسان کے ماتھے پر دو خوبصورت آنکھیں ہیں، ویسے ہی اس ملک کے سینے پر یہ دو قومیں آباد ہیں، جو مذہبی عقائد و نظریات میں تو جدا جدا ہیں، مگر آئین و دستور کی نظر میں دونوں یکساں اور برابر ہیں، اور آئین و دستور کی یہی برابری دونوں قوموں کو آزاد فضا میں نہ صرف جینے کا حق دیتی ہے؛ بلکہ ملک کے تمام وسائل و ذرائع کا حقدار بھی بناتی ہے۔