فطری تقاضے

تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

انسان فطری طور پر اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے، وسائل کی قلت اور زندگی گذارنے میں معیار کے مسئلے کے باوجود وہ چاہتا ہے کہ اس کی کئی اولاد ہو، تاکہ وہ بڑھاپے میں والدین کے لیے سہارے کا کام کر سکیں، چین نے اس فطری تقاضے سے بغاوت کر رکھی تھی، وہاں ایک بچہ کی ولادت کے بعد دوسرے بچے کو آنے سے قانونی طور پر روکاجا رہا تھا۔ ۷۰۰۲ء تک یہ قانون صرف ۶۳ فی صد آبادی پر ہی لاگو ہو سکا تھا،کیونکہ قانونی اعتبار سے ان لوگوں کو دوسرے بچے کی پیدا ئش کی اجازت دی گئی تھی، جن کی پہلی اولاد لڑکی ہو، لیکن اس قانون کی وجہ سے چین میں بوڑھوں کی تعداد بڑھ رہی تھی، ابھی چین میں اکیس کڑوڑ لوگ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے ہیں، معاشی تگ ودو کرنے والے افراد کی دن بدن کمی ہوتی جا رہی تھی، جبکہ کمیونسٹ نظریہ میں دولت کے حصول کے لیے افرادی قوت کی بڑی اہمیت ہے۔
اسلام نے اس غیر فطری مطالبہ کو ہمیشہ ناقابل عمل قرار دیا ہے، اس کی سوچ یہ ہے کہ کھاناکھلانا اور بچوں کی دوسری ضروریات پوری کرنا انسان کا کام نہیں، وہ اللہ کا کام ہے اور اللہ حسب ِضرورت ضروریات زندگی پوری کرتا ہے، اس کا اعلان ہے کہ کھلانے پلانے کے ڈر سے بچوں کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور اسے بھی کھلائیں گے، وسائل کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں، اس لئے معاشی تنگی کے ڈر سے آنے والے بچوں کو روکنا اور خاندانی منصوبہ بندی کرانا،اللہ پر ہمارے یقین و اعتماد میں کمی کامظہر ہے۔
دراصل یہ ساراقصورانسانی عقل کاہے،وہ اپنی محدوددنیاکے لیے محدودعقل سے سوچتاہے اوربیش تر ان خطروں کاادراک کرلیتاہے،جس کاوجودموہوم ہوتاہے، مالتھس کی تھیوری اگرصحیح ہوتی توآج دنیامیں رہنے کی جگہ نہیں ہوتی۔لیکن اسلام کے اصول وضوابط انسانی عقل کی پیداوارنہیں ہیں،اس لیے اسلام نے بچوں کی آمدپرروک نہیں لگائی اوریہ تصوردیاکہ ہرآنے والابچہ اپنے ساتھ ایک سوچنے والادماغ اورکام کرنے والے دوہاتھ لے کراس دنیامیں آتاہے،یہ قدرت کاعطیہ ہے،یہ انسانی چمن کے پھول ہیں،انہیں بھی دنیا دیکھنے دیجئے۔اسلام اس بات کوپسندکرتاہے کہ بچے آتے رہیں،ہرآنے والابچہ اس بات کااعلان ہوتاہے کہ قدرت ابھی اس کائنات سے مایوس نہیں ہے،وہ اس بات کی ترغیب دیتاہے کہ نکاح کے لیے ایسے خاندان کی لڑکیوں کاانتخاب کیاجائے جس میں زیادہ بچوں کی پیدائش کی روایت رہی ہو،اس صورت حال کے مطالعہ کاایک دوسرارخ یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت کاجونظام ہے،وہ بڑھتی آبادی کے اعتبارسے معاشی وسائل پیداکرنے کاہے،آپ ہرروزمشاہدہ کرتے ہیں کہ جہاں آبادی نہیں ہوتی وہاں کی زمینیں بنجرہوتی ہیں،ریگستان،ریت اورببول کے پیڑہی اس کامقدرہوتے ہیں،لیکن جہاں کوئی بستی آبادہوئی،وہی جگہ جہاں دھول اڑرہی تھی،لوگ جاتے ہوئے ڈرتے تھے، جو جگہ صحرااوربیابان تھی،وہاں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اورزمین کی قوت نمومیں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتاہے، اس کاجائزہ وسیع پیمانے پرلیں تومعلوم ہوگاکہ جب آبادی کم تھی توانسان غذائی اجناس کی پیداوارکے وہ طریقے نہیں جانتاتھا،جوآج اس کے علم ویقین کاحصہ ہیں،وہ پھوس کے مکان میں رہتاتھا،اس زمانہ میں کثیرمنزلہ عمارتوں کاکوئی تصورنہیں تھا،کل کارخانے اورمعدنیات کے وہ ذخائرجوزمین نے اپناسینہ چیرکرانسانوں کی معاش کے لیے فراہم کئے ہیں،اس کی طرف دھیان بھی نہیں جاتاتھا،لیکن آبادیاں بڑھیں تومعاشی وسائل بھی بڑھے،جس کھیت سے دہقان کوروٹی میسرنہیں ہوتی تھی اورساہوکاروں کے یہاں کسان بیگاری کرتے کرتے مرجاتاتھا،کھیتیاں مانسون کی رہین منت ہوتی تھیں،آب پاشی کی سہولت نہیں ہونے سے کسان سال سال بھرفاقہ کشی کی دہلیزپرپڑارہتاتھا،آج یہ سب خواب معلوم ہورہاہے،اب فصلیں سال میں کئی کئی باراگائی جارہی ہیں،اورزمین کی قوت نموکواللہ نے اس قدربڑھادیاہے کہ ہماری سرکاریں اعلان کرتی رہتی ہیں کہ غذاکی کمی سے کسی کومرنے نہیں دیاجائے گا،یہ فکری بصیرت کامعاملہ نہیں،کھلی آنکھوں کے مشاہدہ سے اس کاتعلق ہے۔