تحریر:(مفتی) عبدالمنعم فاروقی
muftifarooqui@gmail.com
9849270160
اعتکاف کی فضیلت:
رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا :جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے( بیہقی ،شعب الایمان )
اعتکاف کی اہمیت:
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ ہر رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرتے تھے لیکن جو آپ کی وفات کا سال تھا تو آپ ؐ نے بیس دن اعتکاف فرمایا(صحیح بخاری )
اعتکاف کی حقیقت:
اعتکاف کی حقیقت خلق سے منقطع ہو کر خالق سے وابستہ ہوجانا ہے ۔
اعتکاف کا فائدہ:
اعتکاف کرنے والے کا ہر لمحہ عبادت گزاری میں شمار ہوتا ہے اور وہ گناہوں سے محفوظ بھی رہتا ہے۔
اعتکاف کے ذریعہ شب قدر کا حصول:
اعتکاف کرنے والے کو بہر صورت شب قدر کی عظیم دولت حاصل ہوتی ہے۔
اعتکاف کے لغوی معنیٰ:
ٹہرنا ہے۔
اعتکاف کے اصطلاحی معنیٰ:
اپنے کو دنیوی لذتوں سے دور رکھنا،مسجد میں ایک مقررہ مدت کے لئے گوشہ نشین ہوجانا اور اپنے دل کو اللہ کی ذات سے وابستہ کرنا ہے۔
اعتکاف کی شرطیں :
مسلمان ہونا ٭عاقل ہونا٭اعتکاف کی نیت کرنا٭حدث اکبر (جنابت) سے پاک ہونا٭مسجد میں اعتکاف کرنااور اعتکاف کرنے والے کا روزہ سے ہونا۔
اعتکاف کی جگہ:
مردوں کے لئے اعتکاف صرف مسجد ہی میں ہو سکتا ہے ،افضل ترین اعتکاف مسجد حرام میں ،پھر مسجد نبوی ؐ میں، پھر مسجد اقصیٰ میں ،پھر جامع مسجد میں ،پھر ہر اس مسجد میں جہاں پنجوقتہ نمازیں ہوتی ہو ،اگر کسی مسجد میں پنجوقتہ نمازیں نہیں ہوتی ہے اس میں بھی اعتکاف کرنا درست ہے اگرچہ افضل نہیں ہے ۔
اعتکاف کی قسمیں :
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں(۱)واجب(۲) سنت اور(۳) نفل ۔
اعتکاف مسنون :
ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کیا جانے والا اعتکاف ’’ سنت مؤکدہ علی الکفایہ ‘‘ ہے یعنی پوری بستی کی کسی ایک مسجد میں کوئی ایک آدمی بھی اعتکاف کرے گا تو سنت سب کی طرف سے ادا ہوجائے گی ،اگر کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب گنہگار ہوں گے ۔
اعتکاف کا وقت:
رمضان المبارک کے سنت اعتکاف کا وقت بیسواں روزہ پورا ہونے کے دن غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے تک رہتا ہے (معتکف کو چاہیے کہ وہ بیسویں دن غروب آفتاب سے پہلے اعتکاف والی جگہ پہنچ جائے)۔
نیت اعتکاف :
اعتکاف کے لئے نیت ضروری ہے ،نیت کرے کہ میں اللہ کی رضا کے لئے رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتا ہوں ،نیت کے الفاظ زبان سے ادا کر نا بھی درست ہے ،یاد رہے کہ مسنون اعتکاف کی نیت بیس تاریخ کے غروب شمس سے پہلے کر لینی چاہیے ،اگر کوئی شخص وقت پر داخل ہو گیا لیکن اس نے اعتکاف کی نیت نہیں کی اور سورج غروب ہو گیا تو پھر نیت کرنے سے اعتکاف سنت نہیں ہوگا۔
مسجد کی شرعی حدود :
اعتکاف چونکہ مسجد میں ہوتا ہے اس لئے مسجد کی شرعی حدود سے واقفیت حاصل کرنا معتکف کے لئے ضروری ہے،اس سلسلہ میں ذرا سی کوتا ہی اعتکاف کو فاسد کر سکتی ہے،عموماً مسجد کے پورے احاطے کو مسجد کہا جاتا ہے لیکن ایک ہوتا ہے احاطہ ٔ مسجد اور دوسرا ہوتا ہے عین مسجد ،احاطہ مسجد جس میں وضو خانہ ،بیت الخلاء ،غسل خانہ ،امام و مؤذن کا کمرہ ،گودام اور نماز جنازہ پڑھانے کی جگہ ہوتی ہے اور عین مسجد وہ خاص جگہ ہوتی ہے جسے متولی اور انتظامی کمیٹی نے خاص نماز کے لئے مختص کی ہوتی ہے اس جگہ نماز کے علاوہ اور کوئی چیز مقصود نہیں ہوتی ہے اسی وجہ سے یہاں چپل پہن کر آنا اور جنبی (ناپاک شخص) کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے ، اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ معتکف کے لئے عین مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری ہے اور اس سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے ورنہ اعتکاف ٹوٹ جائے گا ،۔ بعض مسجدوں میں تو عین مسجد اور احاطہ مسجد کو پہچاننا آسان ہوتا ہے مگر بعض مسجدوں میں یہ حصہ متصل ہونے کی وجہ سے ہر شخص کے لئے پہچاننا دشوار ہوتا ہے ،لہذا ایسی صورت میں اگر اس مسجد میں اعتکاف کا ارادہ ہو تو پہلے متولی مسجد یا انتظامی کمیٹی سے حدود معلوم کر لینا چاہیے نیز منتظمین مسجد کو بھی چاہیے کہ وہ عین مسجد کے حدود کو واضح کر دیں تاکہ معتکف حضرات کو کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔
معتکف کو مسجد سے باہر نکلنے کی اجازت:
معتکف کے لئے تین عذروں کی بنا پر مسجد سے باہر نکلنا جائز۔
(۱) طبعی ضرورت :
استنجا کے لئے جانا ٭غسل جنابت کے لئے جانا٭استنجا کے بعد ٹہل کر پیشاب سکھانے کے لئے ٭ کھانا لانے کا انتظام نہیں ہے تو ضرورت کے وقت کھانا لانے گھر جانا٭ریح کے اخراج کے لئے جانا۔
(۲) شرعی ضرورت :
جمعہ کی نماز پڑھنے کسی دوسری مسجد جانا جبکہ معتکف کی مسجد میں جمعہ نہ ہوتا ہو، (مگر ایسے وقت جائے کہ دوسری مسجد میں پہنچ کر خطبہ سے پہلے جمعہ کی سنتیں پڑھ سکے اور نماز جمعہ کے بعد سنن مؤکدہ پڑھ کر جلدی سے واپس آجائے)٭اذان دینے کے لئے مسجد سے باہر جانا (اگر معتکف مؤذن نہ ہو تو پھر اذان دینے کے لئے مسجد سے باہر نہ جانا بہتر ہے)۔
(۳) اضطراری ضرورت:
مسجد کا منہدم ہوجانا٭ کسی ظالم کا معتکف کو مسجد سے زبردستی نکال دینا٭مسجد میں رہتے ہوئے اپنی جان کا خطرہ محسوس ہونا(اگر معتکف کو ایسی صورت پیش آجائے تو فورا دوسری مسجد منتقل ہو جائے اس سے اعتکاف باقی رہے گا ۔
مستحبات اعتکاف:
وہ باتیں جو معتکف کے لئے مستحب ہیں۔
اعتکاف کے لئے افضل ترین مسجد کا انتخاب کرنا ٭اچھی باتیں کرنا٭ قرآن مجید کی تلاوت کرنا٭دینی علوم پڑھنا اور پڑھانا۔
مباحات اعتکاف:
وہ باتیں جو اعتکاف کی حالت میں بلا کراہت جائز ہیں ۔
کھانا پینا٭سونا٭ ضروری خریدو فروخت کرنا بشرطیکہ سامان مسجد میں نہ لایا جائے٭حجامت کرانا(بال مسجد میں نہ گریں) ٭بات چیت کرنا( مگر فضول گوئی سے پر ہیز ضرور
ی ہے)٭فون پر ضروری بات کرنا٭کپڑے بدلنا ٭سر میں تیل ڈالنا ٭ طبیب معتکف کے لئے مسجد میں کسی مریض کا معائنہ کرنا ٭دینی علوم کی تعلیم دینا٭کپڑے دھونا وغیرہ۔
مکروہات اعتکاف :
وہ باتیں جو اعتکاف میں ناپسندیدہ ہیں ۔
مکمل خاموش رہنا،(کیونکہ خاموش رہنا کوئی عبادت نہیں ہے)٭ بلا ضرورت باتیں کرنا٭سامان تجارت مسجد میں لا کر بیچنا٭اعتکاف کے لئے اتنی جگہ گھیر لینا جس سے دوسرے معتکف یا نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہو٭اجرت پر تعلیم دینا یا کپڑوں کی سلائی کرنا ۔
مفسدات اعتکاف :
وہ باتیں جن سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
بلاعذر حدود ِمسجد سے باہر نکلنا (چاہے جان بوجھ کر ہو یا بھول کر)٭ حالت اعتکاف میںجان بوجھ کر روزہ توڑ دینا٭ جماع کرنا چاہے جان بوجھ کر ہو یا بھولے سے٭کسی عذر سے باہر نکل کر ضرورت سے زیادہ باہر ٹہرنا،٭قضاء حاجت کے لئے مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ جانا(لیکن اگر مسجد میں انتظام نہیں ہے تو پھر کسی اور جگہ قضاء حاجت کے لئے جا نے کی اجازت ہے اور اگر بیت الخلاء مصروف ہے تو معتکف انتظار بھی کر سکتا ہے )٭ غسل جنابت کے علاوہ غسل کرنے کے لئے مثلاً ٹھنڈک حاصل کرنے یا جمعہ کا غسل کرنے جانا٭ (بعض فقہی عبارتوں سے جمعہ کے غسل کے لئے مسجد سے باہر نکلنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے اس لئے ضرورت اور تقاضہ کے وقت عمل کی گنجائش ہے( احسن الفتاوی)٭ معتکف کا بیڑی سگریٹ پینے جانا( اگر عادت ہے تو استنجا کے دوران پی لیا کرے) ٭معتکف کا ڈاکٹر کو دکھانے جانا( مگر چونکہ معتکف کو ضرورت تھی اس لئے اعتکاف کے ٹوٹنے پر وہ گنہگار نہیں ہوگا)٭ معتکف کا گواہی دینے کے لئے عدالت کو جانا٭معتکف کا نماز جنازہ پڑھنے جانا٭معتکف کا مریض کی عیادت کے لئے جانا ،(اگر ضرورت کی وجہ سے باہر نکلا تھا اور آتے جاتے رکے بغیر عیادت کرلی تو کوئی حرج نہیں ہے)٭ معتکف کا صابن سے منہ ہاتھ دھونے ،مسواک یا منجن کرنے کے لئے جانا ٭( البتہ نماز کے وضوکے لئے جائے اور جتنا وقت وضو میں لگتا ہے اتنے میں صابن سے ہاتھ منہ دھولے تو کوئی حرج نہیں ہے) ٭معتکف کا کپڑے دھونے اور برتن دھونے کے لئے جانا٭ معتکف کا مسجد کے چھت پر جانا جس کی سیڑھیاں باہر سے ہو (اگر حدود مسجد کے اندر سے ہوں تو پھر جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ٭ معتکف کا وضو پر وضو کرنے کے لئے جانا ،(جن عبادتوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے ان کے لئے مسجد سے باہر جاکر وضو کرنا درست ہے) ۔
معتکف کے لئے بعض خاص اعمال :
اعتکاف کے لئے کوئی خاص نفلی عبادتیں متعین نہیں ہیں بلکہ جس وقت جس عبادت کی توفیق ہو اسے غنیمت سمجھنا چاہیے البتہ بعض عبادتیں ایسی ہیں جن کی عام حالات میں توفیق نہیں ہوتی،اعتکاف ان نفلی عبادتوں کی انجام دہی کا بہترین موقع ہے مثلاً صلوۃ التسبیح ، تحیۃ الوضوع، نماز اشراق، نماز چاشت، نماز اوابین اور نماز تہجد ان کے مقررہ وقتوں میں ادا کر لینا چاہیے ۔
اعتکاف کی قضا:
اگر اعتکاف دن میں ٹوٹا ہے تو صرف دن کی قضا واجب ہو گی یعنی قضا کے لئے صبح صادق سے پہلے داخل ہو ،روزہ رکھے اور غروب آفتاب تک مسجد میں رکے رہے اور اگر اعتکاف رات کو ٹوٹا ہے تو پھر رات اور دن دونوں کی قضا کرے یعنی شام کو غروب آفتاب سے پہلے داخل ہو جائے اور روزہ رکھے پھر دوسرے دن غروب آفتاب کے بعد جائے ۔
معتکف زبان حال سے یہ کہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکل جائے دم تیر ے قدموں کے نیچے
یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے
نوٹ:
اس مضمون کی ترتیب میں جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے ان کے نام یہ ہیں:
شامی،درمختار،ہندیہ،فتاوی دارالعلوم دیوبند،کتاب المسائل،فتاوی محمودیہ، احسن الفتاوی ،مسائل اعتکاف اور کتاب الفتاوی۔