ازقلم: شفیق احمد ابن عبداللطیف آئمی
امریکہ ایک ایسا ملک ہے جس کی بنیاد یہاں کی مقامی آبادی کے قتلِ عام اور ان کی زمینوں پر قبضے اور افریقیوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر ’غلاموں کی سرزمین‘ پر لا کر آباد کر کے رکھی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے سفید فام امریکی، جو ان تاریخی جرائم کا آج تک فائدہ اٹھا رہے ہیں، نہ صرف خود دعویٰ کرتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ دوسرے رنگ کے لوگوں سے بھی زبردستی یہ دعویٰ کرواتے ہیں کہ ان کا ملک ’land of the free and the home of the brave‘ یعنی آزاد لوگوں کی سرزمین اور بہادروں کا گھر ہے۔ حالانکہ ’land of the slave and the home of the brave‘ یعنی غلاموں کی سرزمین اور بہادر لوگوں کا گھر نہ صرف زیادہ مبنی بر حقیقت ہے بلکہ مصرعہ بھی ٹھیک بیٹھتا ہے۔
سفید فاموں کی برتری پر مبنی ’جمہوریت‘
آزادی اور خود ارادیت جیسے الفاظ ان 13 امریکی نوآبادیوں میں، جو کہ خود سفید فام افراد کی جانب سے نوآبادیاتی نظام کے ذریعے آباد کی گئی تھیں، صرف اتنا معنی رکھتے تھے کہ ان کی جائیداد پر، بشمول افریقی غلاموں کے، برطانوی ٹیکس لاگو نہ ہوں، کیونکہ ان کے خیال میں یہ ٹیکس ایک طرح سے ان کے لئے ’غلامی‘ کا طوق تھے۔ جنگِ آزادی کے دوران، ورجینیا، کیرولینا اور جارجیا نے سفید فام رضاکاروں کو سفید فام قوم کی برتری کے لئے قائم کی گئی جمہوریت کی خاطر لڑنے کے عوض زمین اور غلاموں کی پیشکش کی۔ لیکن سیاہ فام غلاموں کے لئے لازمی تھا کہ وہ اپنے سفید فام آقاؤں کی برطانیہ سے ’آزادی‘ کے لئے لڑیں۔ اس کے باوجود، بہت سے سفید فام نو آباد کاروں نے امریکہ کی آزادی کے خلاف برطانیہ کا ساتھ دیا۔ یہ لوگ ’Loyalist‘ کہلاتے تھے۔ ان میں سے قریب ایک لاکھ امریکہ سے ہجرت کر گئے اور اپنے 15 ہزار غلام اپنے ساتھ لے گئے۔
ہزاروں کی تعداد میں غلاموں نے برطانوی فوج کی طرف سے بھی جنگ میں حصہ لیا۔ برطانیہ نے انہیں اپنی طرف سے لڑنے کے عوض آزادی کی پیشکش کی تھی۔ 1783 میں برطانیہ کی شکست کے بعد سفید فام loyalists اور ان کے سیاہ فام غلاموں کے ساتھ ان کو بھی برطانوی بحری جہازوں میں بٹھا کر نووا سکاٹیا کالونی اور برطانیہ لے جایا گیا۔ جلد ہی برطانیہ کو احساس ہوا کہ ان کے اپنے آزاد کیے گئے سیاہ فام غلاموں اور امریکی آزاد کردہ غلاموں کا حل یہی ہے کہ انہیں مغربی افریقہ میں نو آباد کاروں کے طور پر بسا دیا جائے تاکہ افریقی ’بت پرستوں‘ کو بھی مسیحیت میں داخل کر لیا جائے۔ یوں اٹھارھویں صدی کے اواخر میں سیاہ فام آباد کاروں کے ذریعے برطانیہ نے Sierra Leone کی بنیاد رکھی۔
دوسری جانب آزادی حاصل کرنے کے بعد امریکہ کے اپنے Founding Facthers یعنی ’بانی اجداد‘ جو خود بھی غلام رکھتے تھے، کو یہ فکر لاحق تھی کہ وہ اپنے آزاد کردہ سیاہ فام غلاموں کا کیا کریں۔ اٹھارھویں صدی کی ابتدا میں کچھ جریدوں میں انہیں لے جا کر افریقہ میں بسا دینے کی بات کی گئی تھی، لیکن آزادی کی جنگ اور خانہ جنگی کے درمیانی سالوں میں غلامی اور نسل سے متعلق مباحث میں یہ نظریہ بار بار سامنے آتا ہے۔ آزاد کردہ سیاہ فاموں کو ملک سے نکالنے کی تجویز کو نہ صرف غلام رکھنے والوں میں خاصی مقبولیت حاصل تھی بلکہ غلامی کے مخالفین میں بھی۔ یہاں تک کہ Protestant مشنریوں اور مقبول سیاستدانوں میں بھی یہ نظریہ پذیرائی رکھتا تھا۔ ان سیاستدانوں میں امریکی صدور جیفرسن، مون رو اور بعد ازاں ابراہم لنکن بھی شامل تھے۔ 1816ء میں American Colonisation Society کی بنیاد رکھی گئی جس کا کام آزاد کردہ سیاہ فاموں کو امریکہ سے باہر نکالنے کے فیصلے پر عملدرآمد کروانا تھا اور یوں 1820ء کی دہائی میں سیاہ فام نو آبادکاروں کا ملک لائبیریا وجود میں آیا۔
نسل پرست قوانین کی بھرمار
گو کہ کچھ آزاد سیاہ فاموں نے اس پالیسی کی حمایت کی لیکن زیادہ تر سیاہ فام دانشوروں نے مغربی افریقہ میں سیاہ فام آباد کاری کی مخالفت کی، بشمول فریڈرک ڈگلس کے، جن کا بجا طور پر یہ ماننا تھا کہ اس پالیسی کے ذریعے آزاد سیاہ فام افراد کو ملک سے نکال دیا جائے گا اور ملک میں غلامی برقرار رکھی جائے گی۔ کچھ کا ماننا تھا کہ انہیں ہیٹی کی طرف ہجرت کر لینی چاہیے۔ ہیٹی نے اس سے چند ہی برس قبل فرانس سے آزادی حاصل کی تھی اور اس نے امریکہ میں آزاد کردہ تمام سیاہ فاموں کو اپنی سرزمین پر آ جانے کی دعوت دے رکھی تھی۔
ابراہم لنکن کو امریکہ کے سفید فام ترقی پسند اور قدامت پرستوں دونوں ہی کی جانب سے امریکہ کی تاریخ میں سیاہ فام افراد کے لئے ایک مسیحا کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ 1854ء میں اس نے ایک تقریر میں کہا کہ میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ تمام غلاموں کو آزاد کر کے انہیں لائبیریا بھیج دیا جائے، جو کہ ان کی اپنی سرزمین ہے، لیکن اس میں اخراجات بہت زیادہ ہوں گے۔ 1858ء میں بھی ابراہم لنکن غلامی کے خلاف ضرور تھا، لیکن نسل پرستی کے خلاف نہیں تھا۔ ایک تقریر میں اس نے کہا کہ میرے نزدیک بہترین فیصلہ یہ ہے کہ سیاہ اور سفید نسلیں الگ الگ رہیں۔ 1861ء میں، بطور امریکی صدر، اس نے کانگریس کو ترغیب دی کہ وہ ایسا کوئی طریقہ ڈھونڈیں کہ اتنے فنڈز جمع ہو جائیں کہ ان سیاہ فام افراد کو ایک نئی زمین حاصل کر کے وہاں آباد کیا جا سکے۔ واشنگٹن کے ایک اخبار نے مشورہ دیا کہ سیاہ فام افراد کی اس نئی آبادی کو لنکونیا کا نام دیا جائے۔
جہاں جنوب میں خانہ جنگی کے بعد "جِم کرو قوانین” کے تحت غلامی کے قوانین کو بہتر بنایا گیا، شمالی حصوں میں آزاد سیاہ فام افراد کے لئے انتہائی نسل پرستانہ قوانین موجود رہے۔ سکونت اختیار کرنے کے لئے کالونیاں ہوں، تعلیم ہو، قوانینِ مزدوری ہوں یا پھر عوامی فلاحی خدمات، قانونِ انصاف کو تو چھوڑ ہی دیجئے، ہر طرف سیاہ فام افراد پر مظالم کیے جاتے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا۔ جنگ عظیم دوئم میں صرف سفید فام افراد کے لئے شہروں کے مضافات میں نئی کالونیاں بنائی گئیں اور اچھی تعلیم کے لئے قوانین کے مطابق سکول میں داخلہ پراپرٹی ٹیکس کی بنیاد پر دیا جاتا تھا۔ اس طرح اچھے سکولوں میں صرف سفید فام بچے پڑھا کرتے تھے جب کہ سیاہ فام بچوں کے لئے غیر معیاری سکول تھے۔
امتیاز اور قید و بند کے قوانین
سیاہ فام افراد کی جانب سے ایک بہت بڑی تحریک کے بعد جسے ہم شہری حقوق کی تحریک کہتے ہیں، یہ امتیاز ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور طلبہ کو ایک ضلعے سے دوسرے ضلعے کے سکولوں میں تعلیم دلوانے کے لئے بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ علیحدگی کا یہ نظام ختم کیا جا سکے۔ نہ صرف جنوب کے نسل پرست سفید فاموں نے اس پالیسی کی مخالفت کی بلکہ شمال کے ’معتدل‘ مانے جانے والے سفید فاموں نے بھی اس پر تنقید کی۔ یہاں تک کہ 1970ء کی دہائی میں بوسٹن میں بھی اس کے خلاف احتجاج ہوئے اور جو بائڈن تک نے Delaware میں اس پالیسی کو ختم کرنے کے لئے سینیٹ میں مہم کی قیادت کی۔
امتیازی قوانینِ مزدوری تو ختم کر دیے گئے لیکن نسل پرست نظام اس طرح برقرار رہا کہ ملازمت میں ’سنیارٹی‘ کے مطابق مراعات دی جانے لگیں اور اس نظام کے تحت ظاہر ہے کہ سفید فاموں ہی کو فائدہ ہوا۔ جنگ کے بعد GI قانون تمام امریکیوں کو مراعات دیتا تھا لیکن حقیقت میں سیاہ فام افراد اس سے فائدہ اٹھانے سے قاصر تھے، کیونکہ سکونت کے نسل پرست قوانین کے تحت سیاہ فام افراد کو سفید فام محلوں میں رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں امتیاز اس کے علاوہ تھا۔
1960ء اور 70ء کی دہائی میں کئی سیاہ فام رہنماؤں کے قتل اور قید و بند کے ذریعے راستے سے ہٹانے کے بعد New Jim Crow قانون بنایا گیا۔ اس نئے قانون کے تحت ظالمانہ قسم کی پولیسنگ، غیر معیاری ریاستی سہولیات اور بڑی تعداد میں جیلوں میں ڈالا جانا ممکن بنایا گیا۔ اس قانون کو نہ صرف سفید فام لبرلز اور قدامت پرستوں کی طرف سے سراہا گیا بلکہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی چھوٹی سی سیاہ فام اشرافیہ نے بھی اس کا دفاع کیا۔ یہ وہی سیاہ فام افراد تھے جنہیں علاقائی اور وفاقی حکومتوں میں سیاسی عہدے عطا کیے گئے تھے۔ ان نئے سیاہ فاموں نے نہ صرف ان نئے نسل پرست قوانین سے فائدے اٹھائے بلکہ اپنی سیاہ فام constituency کے سامنے امریکہ کو ایک ’آزاد ملک‘ کے طور پر بھی بیچتے رہے، ’جس میں کچھ نسل پرستی کے مسائل ہیں لیکن جمہوری نظام کے ذریعے انہیں دُور کیا جا سکتا ہے‘۔ اسی نظام کے تحت براک اوباما اکیسویں صدی کے اوائل میں سیاسی طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔
سیاہ فام صدر کے سیاہ کرتوت
امریکہ کا پہلا سیاہ فام صدر براک اوباما ان سفید فام امریکی لبرلز کا ہیرو ہے جو ’ہلکی پھلکی‘ نسل پرستی کو جائز بنا کر پیش کرتے ہیں اور شہری حقوق کی تحریکوں والے نعروں اور بیانیوں کو تو دہراتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں اس کی جھلک کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ صدر بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں اوباما نے امریکہ کے ’بانی اجداد‘ کے نام قصیدے کہے جو کہ خود نسل پرست تھے اور غلام خریدتے تھے۔ ایسا اس نے بعد میں بھی متعدد مواقع پر کیا۔ اور بارہا ’محنتی امریکیوں‘ (جو کہ سفید فام امریکیوں کی تعریف کرنے کا ایک طریقہ ہے، جب کہ سیاہ فاموں کو اکثر سست اور کاہل قرار دیا جاتا ہے) کی ثنا خوانی کی اور کئی مواقع پر غیر موجود سیاہ فام والدوں کو برا بھلا کہا (وہ شاید بھول گیا تھا کہ ان میں سے کئی تو جیلوں میں سڑ رہے ہیں)۔ اس نے سیاہ فام یونییورسٹی گریجویٹس کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔
اس کے دورِ حکومت میں ایک بھی سیاہ فام کے قتل کے لئے ایک بھی سفید فام پولیس والے کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کی گئی، بشمول اس سفید فام پولیس والے کے جس نے 2014ء میں ایرک گارنر کو دم گھونٹ کر مار دیا تھا۔ ایرک کے آخری الفاظ ’میرا دم گھٹ رہا ہے‘ تھے۔ 18 سالہ غیر مسلح مائیکل براؤن کا قتل بھی ایک سفید فام پولیس والے کے ہاتھوں اس کے چند ہفتے بعد ہی پیش آیا تھا۔ اس پولیس والے کے خلاف بھی کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔ فرگوسن میں عوامی احتجاج کی لہر بھی اوباما کے دورِ حکومت میں ہی اٹھی، لیکن سیاہ فام سیاستدانوں اور امیر طبقے کی امیدوں کے عین مطابق، جو اس سفید فام برتری پر مبنی نظام کو برقرار رکھنے میں سفید فام امریکیوں کے معاون ہیں، اوباما نے ان سیاہ فام امریکیوں کو انصاف دلانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔
ٹلسا قتل عام
31 مئی 1921ء کو امریکی ریاست اوکلوہاما کے شہر ٹلسا (Tulsa) میں سفید فام امریکیوں کے ہاتھوں سیاہ فام شہریوں کا بدترین قتل عام ہوا تھا۔ سفید فام خاتون سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے الزام میں ایک سیاہ فام شخص کو گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد یہ واقعہ ایک نسلی تشدد کی وجہ بن گیا اور سفید بلوائیوں نے ٹلسا کے گرین ووڈ پر دھاوا بول دیا اور بلیک وال اسٹریٹ کہلانے والی مارکیٹ کو نذر آتش کردیا اور سیکڑوں گھر جلا دیئے۔ 48 گھنٹوں میں 300 سیاہ فام قتل کئے گئے۔ سفید قوم پرستوں نے لوٹ مار کی، عمارتوں کو آگ لگائی اور وہاں مقیم سیاہ فام افراد کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس موقع پر پولیس ناصرف خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ سفید قوم پرستوں کی سرپرستی بھی کرتی رہی۔
ان حملوں میں بچ جانے والی 107 سالہ وائیولا فلیچر نے بتایا کہ "31 مئی 1921ء کو میں اپنے گھر میں سونے کی تیاری کر رہی تھی اور چند گھنٹوں میں سب کچھ ختم ہوگیا۔ اس نے بتایا کہ قتلِ عام کی رات ان کے گھر والوں نے انہیں جگایا۔ میرے والدین اور پانچ بہن بھائی بھی وہیں تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ ہمیں بھاگنا ہوگا۔ گھر چھوڑتے ہوئے میں نے تباہی مچانے والا سفید فاموں کا جو ہجوم دیکھا تھا اسے کبھی بھلا نہیں پاؤ گی۔ وہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ کس طرح سیاہ فاموں کو گولیاں ماری گئیں۔ ان کی لاشیں کس طرح گلیوں میں بکھری ہوئی تھیں۔ میں آج بھی دھوئیں کی بو محسوس کرسکتی ہوں اور وہاں بھڑکنے والی آگ دیکھ سکتی ہوں۔ میں آج بھی دیکھ سکتی ہوں کہ کس طرح سیاہ فاموں کے کاروبار جلائے گئے۔”
امریکی معاشرے اور سیاست میں قائم سفید فام نسلی برتری اور تعصب بانیانِ امریکہ کی دی ہوئی اور چھوڑی ہوئی LEGACY (میراث) ہے اور بانیانِ وطن کی میراث کو آج کے جمہوری سرمایہ داری دنیا میں بھلا کون بھولتا اور چھوڑتا ہے۔