تحریر: حسین احمد ہمدم
ایڈیٹر رسالہ چشمۂ رحمت ارریا
جب سے مدارسِ اسلامیہ پر تنگ دل دشمنوں نے دلی نفرت وتعصب پر مبنی کاروائیاں شروع کی ہیں اپنی صف کے منافقوں کا نفاق اور مدارس دشمنی کچھ اسی طرح کھل کر سامنے آنے لگی ہے جیسے پرانے شہر(مسلم محلوں) کے گٹر سے بارش ہوتے ہی گندگی ابل پڑتی ہے.
حالاں کہ جو کچھ ہورہا ہے یہ اچانک نہیں ہے, بلکہ برسوں سے سنگھیوں نے اسرائیل, اسپین اور تبت جیسے ملکوں کا دورہ کرکے مسلمانوں کے صفائے کے اسباب تلاش کئے خاص طور پر اسپین سے اسلام کے خاتمے کے طریقوں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا اور پلان کیا, یہ اسی پہلے سے طے شدہ پلان کا ایک اہم حصہ ہے یعنی بے قصوروں کی لنچنگ.دو چار منٹ کے اذان پر بھی پابندی,بہانے بہانے سے نماز کی مخالفت, نوجوانوں کی ناجائز حراست, حجاب وحلال پر پابندی وغیرہ….کے بعداب الزام وبہتان کی بنیاد پر کہیں مدرسوں کو بلڈوزر سے توڑنا, کہیں سروے سے ان کو بند کرنے کی راہ ہموار کرنا, دراصل یہ سبھی کچھ ملک سے اسلام کے خاتمے اور مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو پوری طرح مرتد بنانے کے لئے ایک بڑا قدم ہے. مدرسوں کو انتظامی لائن سے اپنے یہاں کیا کیا کرنا چاہئے اس پر ہمشہ بات ہوتی رہی ہے مزید پھر کسی موقعے سے ہوتی رہے گی لیکن مدارس کے وجود پر منڈراتے خطروں کے وقت اگر ہم مزید چپ رہے(جیسا کہ ہیں) یا اصل معاملے کو نہ سمجھ کر اس موقع سے بھی مدارس اسلامیہ کو ہی کوسنے لگے تو یقین جانئے دو تین نسلوں کے بعد ہندوستان میں اسلام کو پہچاننے والا کوئی نہیں ہوگا, اسپین سے اسلام کے خاتمے کی مثال موجود ہے.
اگرچہ چند لاکھ مسلمانوں کے علاوہ باقی سب باقی ہی رہ جائیں گے لیکن وہ مسلمان نہیں ہوں گے غیر محسوس طریقے سے کفر کی طرف واپسی کرچکے ہوں گے اور ملیچھ دلت کہلائیں گے.
اور اس ممکنہ حادثۂ عالم سوز کی طرف آج سے تقریبا ایک سوسال پہلے علامہ اقبال مرحوم نے نہایت درد و فکر سے متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ: "….یہ مدارس نہیں ہوں گے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو میں اسپین میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آرہا ہوں کہ وہاں آٹھ سو سال تک مسلمانوں کی حکومت کے باوجود قلعہ الحمراء وغیرہ کے کھنڈرات کے علاوہ اسلام کا کوئی نشان باقی نہیں ہے اسی طرح ہندوستان میں مدارس نہ ہوں تو یہاں بھی لال قلعہ اور تاج محل جیسی عمارتوں کے کھنڈرات کے علاوہ اسلام کا کوئی نام ونشان باقی نہیں رہ پائے گا” (منقول بالمعنی)
مگر افسوس ہزار بار افسوس کہ ہم اقبال رح کو علامۂ مشرق تو کہتے رہے , ان کے اشعار سے تقریروں کو دھار تو دیتے رہے مگر ہم نے سوسال میں بھی ان کی بات پر توجہ نہیں دی.
ہم نے کبھی یہ بھی سوچنے کی ادنی زحمت نہیں کی کہ مدارس کی خصوصیت و اہمیت آخر ہے کیا جو دشمنان اسلام ان سے اس قدر خار کھائے بیٹھے ہیں, کچھ تو خوبی ایسی ضرور ہے جو ان ٹوٹی چٹائیوں پر بیٹھنے والوں سے اور فجر کے وقت سے ہی تلاوت کے ساتھ دن کی شروعات کرنے والوں سے حکومت پر براجمان لوگ خوف زدہ ہیں؟؟؟ موجودہ حالات میں اس طرح بھی سوچنے کی ضرورت ہے,کیونکہ اگر مدارس کی ضرورت واہمیت اب بھی مسلمانوں کو سمجھ نہ آئی تو جان لیجئے کہ ہم سے زیادہ مدارس کی اہمیت اسلام دشمنوں کو سمجھ میں آرہی ہے اور ہمارے کچھ سمجھنے تک بھگواچڑیا اپنی سخت چونچ سے ملک میں دین وایمان کے سارےکھیت تباہ کردے گی اور ہماری نسلیں ایمانی بھوکمری کی شکار ہوکر جہنم کا ایندھن بن جائیں گی.
اللھم احفظنا من الکفر والشرک و یا مقلب القوب ثبت قلوبنا علی دینک وطاعتک.آمین