ترتیب/ محمد قمر الزماں ندوی
استاذ/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725
مدراس اسلامیہ کے فارغین آج بھی مدارس میں تمام تر تعلیمی زبوں حالی کے بعد بھی دیگر دانش گاہوں کے مقابلے میں نمایاں اور ممتاز نظر آتے ہیں اور بساط بھر ملک و ملت کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں اور ملت پر جو بھی مسائل ،مشکلات اور چیلنجیز آتے ہیں،اس کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ملت کے اندر شعور و آگہی پیدا کرتے ہیں اور دانشور طبقہ کو قریب لاکر ان کی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں ، کامیابی اور سرخ روئی دلانا یہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ، ہمارا کام کوشش کرنا ہے ۔
اگر مدارس اسلامیہ کے فارغین کی صلاحیتوں کو ضیاع سے بچانے کی فکر کی جائے ، ان کو احساس کمتری سے نکالا جائے اور ان کی صحیح رہنمائی کی جائے اور ان کو معاشی فکر سے آزاد کرکے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے، تو یقین جانئیے کہ دین کے کسی شعبہ میں باصلاحیت افراد کی کمی نظر نہ آئے، لیکن افسوس کہ آج صلاحیتوں کا ضیاع ہورہا ہے اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے اور پھر یہ شکوہ اور اس بات کا رونا کہ قابل لائق اور باصلاحیت افراد نہیں مل رہے ہیں بے جا شکوہ ہے۔
ندوہ میں ہمارے ایک کلاس ساتھی تھے، نام نہیں لوں گا، بنگلورو کے رہنے والے تھے ، علمی گھرانے کے چشم و چراغ تھے ،ان کے برداران اعلیٰ سرکاری عہدے پر تھے، متمول گھرانہ تھا، ان کے ایک چچا اپنے زمانے کے محقق ،مفکر اور اسکالر تھے متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف و مؤلف اور ایک اکیڈمی کے بانی اور مؤسس بھی تھے اور الحمد للّٰہ آج بھی علم و تحقیق کا کام جاری ہے، جب وہ ہمارے ساتھی معہد کے طالب علم تھے، تو اپنے گھر برابر انگریزی میں کئی کئی صفحے کا خط لکھتے تھے اور اپنی تعلیمی و ثقافتی سرگرمیوں سے گھر والے کو باخبر کرتے رہتے تھے ۔
میں نے اپنی زندگی میں اس جیسا ذہین طالب علم کم دیکھا، چونکہ وہ میرے کلاس ساتھی کے ساتھ روم پاٹنر بھی تھے، اس لیے میں نے ان کو بہت قریب سے دیکھا اور پرکھا ۔
1993ء کی بات ہے ایک بار استاذ گرامی قدر جناب ڈاکٹر مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی نے عالیہ ثالثہ شریعہ یعنی ہفتم عربی میں انشاء کے گھنٹے میں حسب معمول ایک صفحہ عربی عبارت لکھوائی اور اچانک خلاف معمول یہ سوال کیا کہ کوئی طالب علم اس کو زبانی سنا سکتا ہے ؟۔ ہمارے اس کلاس ساتھی نے بغیر کسی جھجھک کے کہا, میں سنا سکتا ہوں اور کھڑے ہوکر پوری عبارت اور اقتباس سنا دیا, تمام طلبہ محو حیرت تھے ،استاد محترم بہت خوش ہوئے اور جیب سے سو یا پچاس کا نوٹ نکال کر انعام دیا اور خوب دعائیں دیں ۔ ہمارے وہ ساتھی اور دوست ندوہ سے عالمیت کے بعد جامعہ ملیہ اور جے این یو گئے اور بی اے ایم ایم ایم فل کیا اور بھی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں اور ابھی وہ کناڈا میں شافٹ وئیر انجئیر ہیں ۔ جے این یو میں ان کے عارضی گھنٹے بھی لگے تھے، اس وقت ایک بار وہاں ان کا مہمان بنا تھا، بہت خاطر مدارت کی اور خود زمین پر سوئے اور مجھے تخت پر سلایا یہ ان کی سادگی اور بڑا پن تھا۔
میں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر ان کو مستقبل میں معاشی فکر دامن گیر نہ ہوتی اور امت کے قائدین اور دانشورانِ ملت ایسے باصلاحیت افراد کی قدر دانی کرتے اور ان کی معاشی کفالت کی فکر کرکے ان کو تحقیق و تدقیق کی دنیا کے لیے وقف کردیتے، تو آج ملت کو ان کی صلاحیت سے دینی اور ملی فائدہ ضرور پہنچتا اور خود وہ نیک نامی اور شہرت کے اعلیٰ مقام کو بھی حاصل کرلیتے ۔ لیکن افسوس کہ صلاحیتوں کا ضیاع ہورہا ہے اور ہم غافل بیٹھیں ہیں۔ آج کتنے باصلاحیت افراد ہیں جو بہت کچھ کرسکتے ہیں، لیکن وہ صرف معاشی مجبوری کی وجہ سے دفتری کاموں اور ترجموں میں لگے ہوئے ہیں یا ایم بی سی میں کام کرتے ہیں، یا ہاسپٹلرز میں عرب مریضوں کی خدمت کرکے معاش کا مسئلہ حل کرتے ہیں، بعض تو معاشی مجبوری سے تنگ آکر مخالف نظریہ کے حامل لوگوں کو ترجمہ و مواد فراہم کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں پیسے لیتے ہیں۔
حالانکہ ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔
بہت سے احباب کا مجھ سے تقاضا ہے کہ صلاحیتوں کے ضیاع پر آپ اپنی تحریر ہدئہ قارئین کریں۔ ارادہ کرتا ہوں، لیکن صحت ساتھ نہیں دیتی ۔ ان شاءاللہ اس موضوع پر بھی لکھوں گا اور حقیقی صورت حال سے واقفیت کراؤں گا ۔ البتہ آج ایک فاضل اور صاحب نظر عالم جناب محمد اسعد اعظمی صاحب کی ایک تحریر جو 1997ء کی لکھی ہوئی ہے ،وہ ہدئیہ قارئین کرتا ہوں امید کہ اس مرض کا علاج اور دوا اس تحریر میں بہت حد تک مل جائے ۔۔م۔ ق۔ ن
ہندوستان کے طول و عرض میں اسلامی مدارس و جامعات کا ایک لمبا جال پھیلا ہوا ہے اور بہت لوگ ان مدارس کی روز افزوں کثرت و اضافہ سے شاکی بھی ہیں۔ لیکن ان کا یہ شکوہ معقول نہیں ہے۔ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کی جو تعداد ہے اس تعداد کے تناسب سے دیکھا جائے تو ان درسگاہوں کی کمی کا پتہ چلے گا۔ مسلمانوں کی دینی ، تعلیمی ، وتربیتی ضروریات انہیں درسگاہوں سے مربوط ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ادارے مطلوبہ خدمات کماحقہ ادا نہیں کررہے ہیں، لہذا یہاں معاملہ کمیت کا نہیں کیفیت کازیادہ ہے۔
ان درسگاہوں سے ہر سال طلبہ کی ایک بڑی تعداد فراغت حاصل کر کے میدان عمل میں اترنے کے قابل ہوتی ہے۔ جو مختلف صلاحیتوں اور مختلف رجحانات کی حامل ہوتی ہے ۔ صلاحیتوں کے اعتبار سے ذہین، متوسط اور متدنی تین طرح کے ہو ں گے اور رجحانات کے اعتبار سے کوئی ہر فن مولا، تو کوئی ایک خاص فن کاماہر، کوئی دوسرے فن کا متخصص، الغرض ہر طبیعت اور ہر ذوق کے افراد اس میں نظر آسکتے ہیں، لیکن کیا امت ہر سال فارغ ہونے والے ان ہزاروں افراد کی علمی و فکری صلاحیتوں سے مستفید ہورہی ہے یا نہیں ؟
حالات کا جائزہ لینے سے اس سوال کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ اس میدان سے تعلق رکھنے والا ہر فرد بخوبی اس حقیقت سے واقف ہو گا کہ تقریبا ایک دہائی صرف کرنے کے بعد جب ایک طالب علم فراغت کے مرحلہ کو پہنچتا ہے تو زبردست حیرانی وتردد کا شکار ہو تا ہے۔ اگلے مرحلہ کی تعیین سے متعلق بے شمار سوالیہ نشانات کا اسے سامنا ہوتا ہے۔ خاطر خواہ مشورہ اور رہنمائی نہ ملنے کی صورت میں وہ اپنے آپ کو حالات کے حوالہ کر دیتا ہے جو بسا اوقات اسے ایسے موڑ پر پہنچادیتے ہیں جہاں ایک عالم اور غیر عالم کا امتیاز ختم ہو جاتا ہے اور یہ کلی بغیر کھلے ہوئے مرجھا جاتی ہے۔ اگر صرف متدنی یا متوسط ذہن کے فارغین اس بربادی کا شکار ہوتے تو بہت زیادہ افسوس کی بات نہیں تھی، لیکن افسوس کی بات یہ ہیکہ حد درجہ ذہین، محنتی اور باصلاحیت افراد کی اچھی خاصی تعداد بھی اس بربادی کا شکار بن جایا کرتی ہے۔ جن کے اندر کچھ بننے کی صلاحیت، کچھ کر گزرنے کا حوصلہ اور نہ جانے کتنے کارنامے انجام دینے کی لیاقت پنہاں ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ یہ فارغین اپنی کثرت تعداد کی وجہ سے بے وقعتی کا شکار نہیں ہوا کرتے جیسا کہ عام طور سے سوچاجاتا ہے، کیونکہ ہندوستانی مسلمانوں کی تعداد اور ان کی احتیاجات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اندازہ لگے گا کہ تعداد زیادہ نہیں ہے، اور یہ کہ ان کے لئے میدان عمل بہت وسیع ہے۔ آج بھی بے شمار ادارے (خواہ وہ درس گاہوں کی شکل میں ہوں، یا تصنیف و تالیف، ترجمہ ، دعوت و تبلیغ، نشر و اشاعت الخ کے مراکز ہوں) معقول افراد کی کمی کے شاکی ہیں، قحط الرجال کا رونا رویا جاتا ہے، اور نا اہل لوگوں کے ذریعہ کمی پوری کی جاتی ہے۔ درس گاہوں میں نا تجربہ کار معلمین، دعوت و تبلیغ کے میدان میں دعوتی بصیرت سے محروم مبلغین ، اخبار و جرائد میں غیر معیاری مضامین اور سستی صحافت اس بات کا بین ثبوت ہیں ، پانی موجود ہوتے ہوئے تیمم پر اکتفا کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ قصداً ہورہا ہے یا نسیاناًو تساہلاً؟ غور طلب امر ہے۔
کیا کھویا کیا پایا:
واضح رہے کہ بیشتر درس گاہوں کا بجٹ کئی کئی کروڑ روپے (سالانہ) پر مشتمل ہوتا ہے، اس خطیر سرمایہ کا حاصل یہی فارغین ہوتے ہیں لہٰذا یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ اعداد و شمار کی زبان استعمال کی جائے اور یہ حساب لگایا جائے کہ ایک طالب علم پر مدرسہ کے سالانہ بجٹ سے کتنی رقم صرف ہوئی۔ اور تافراغت اس پر کل خرچ کتنا ہوا اور پھر اس امر پر غور ہو کہ کیا یہ طالب علم اپنی اہلیت اور خدمت کے ذریعہ معاشرہ اور امت کے اس فرض کو پورا کرنے کے لائق بنا یا نہیں ؟ اور اگر بنا تو کیا فی الواقع اسے پورا کرنے کے مواقع فراہم ہیں یا نہیں ؟ جو درخت لگایا گیا ہے اس درخت سے حاصل شدہ پھل کے چننے اور سپلائی کرنے کا انتظام ہے یا یہ کہ پھل خود بخود زمین پر آگرتا ہے اور خاک آلود ہو کر لوگوں کے پیروں تلے روند دیاجاتا ہے۔
ذہین طلبہ پر خصوصی توجہ :
یوں تو ادارے میں داخل ہونے والا ہر طالب علم ایک امانت ہوتا ہے اور اس کی تعلیم وتربیت کا ادارہ ذمہ دار ہے۔ لیکن ان میں کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو خصوصی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں، میری مراد ان ذہین اور فطری صلاحیت کے حامل طلبہ سے ہے جن پر عام طور سے اس لیے زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ہے کہ یہ تو خود ذہین ہیں۔ حالانکہ صحیح معنوں میں یہی حقیقی عنایت کے مرکز ہونے چاہییں، ان پر صرف کی جانے والی محنت بار آور ہوگی۔ اور مستقبل میں حساس مناصب پر فائز ہونے کے اہل یہی ہوں گے۔
یہاں یہ بات بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فطری صلاحیتیں کسی نہ کی شکل میں ابھرے بغیر نہیں رہا کرتیں، اگر ان صلاحیتوں کو صحیح رخ پر نہ لگایا گیا اور مثبت طریقہ پر انہیں استعمال ہونے کا موقع فراہم نہ کیا گیا تو نتیجہ یہ ہو گا کہ منفی طریقہ پر ان صلاحیتوں کا ظہور ہوگا، تعمیر کے بجائے تخریب، اصلاح کےبجائے افساد، ہدایت کے بجائے ضلالت اور حق کے بجائے باطل کی ترویج و ترقی کے لیے ان صلاحیتوں کا استعمال ہو گا، باطل افکار و نظریات کی حامل تنظیمیں اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل کیلئے ایسے افراد کا بڑی فراخدلی کے ساتھ استقبال کرتی ہیں اور ان کی صلاحیتوں کا استحصال کرتی ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ دین و مذہب کی خدمت کے بجائے اس کی بیخ کنی کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں ذہین طلبہ پر خصوصی توجہ کا یہ عالم ہے کہ ان کے لئے یا تو الگ سے اسکول قائم ہیں ، یا عام اسکولوں اور کالجوں میں انکے لئے علیحدہ کلاسیں متعین ہیں، تاکہ دوسرے غیر ذہین طلبہ کے بیچ رہ کر ترقی سے محروم نہ رہ جائیں، انکی صلاحیتیں زنگ آلود نہ ہو جائیں یا ان کی ذہانت کو ابھرنے کا موقع نہ ملے ایسے طلبہ کی تعلیمی ترقی کے لیے تمام قسم کے اسباب و وسائل مہیا کیے جاتے ہیں، اور تمام مشکلات و موانع کا سد باب کیا جاتا ہے تاکہ کل کے دن ملک وقوم اس ذہین دماغ کی ذہانت سے مستفید ہو سکے ، اور اس کے ذریعہ ترقی کی راہیں طے کر سکے۔
عالم اسلام کے ذہین طلبہ کا معاملہ اس کے برعکس ہے، فراغت کے بعد چاہے وہ مزید تعلیم حاصل حاصل کرنے کے متمنی ہوں یا کسی معقول ملازمت کے خواہش مند ہوں، اگر کسی امیر کبیر کی پشت پناہی انہیں نہیں حاصل ہے تو اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے سے وہ قاصر رہیں گے۔ خالی اسامیاں ایسے افراد سے پر کی جاتی ہیں جو ارباب جاہ و دولت کے خوشہ چیں ہونے کے ساتھ ساتھ علمی و فکری صلاحیتوں سے محرومی کا سرٹیفکٹ بھی رکھتے ہوں۔ اس طرح کی مثالوں سے ہر شخص آشناہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کیا جائے، خصوصا زعماء و قائدین، ارباب مدارس اور ملت کے غیرت مند افراد اس مسئلہ کی نزاکت و اہمیت کا احساس کریں اور اس کے حل کے لیے جو بھی تدبیریں ممکن ہوں بروئے کار لائیں۔ واللہ ولی التوفیق۔
( ماخوذ از ماہنامہ آثار جدید، ستمبر 1997ء)