کامیابی کی شاہ کلید بزرگوں کی رفاقت

تحریر :احمد حسین مظاہری

صحبتِ صالح تُرا صالح کند٭صحبتِ طالح تُرا طالح کُند

قارئین! یہ ایک بدیہی بات ہے کہ ہر صنعت وحرفت کے لیے ابتداء ً عقل کی رہنمائی کے لیے کسی استاذ کی حاجت اور ان کی رفاقت یقینی ہوتی ہے اور علماء کرام کی صحبت کے بغیر علم آزمائش و ابتلا ہے،نیز
یہ بات بھی ہر کس و ناکس پر اظہر من الشمس ہے کہ بھدّا لوگوں کی صحبت سے ہماری ذات میں برائیاں اپنی جگہ بناتی ہیں جبکہ اچھے لوگوں کی صحبت سے ہماری ذات میں اچھائیاں جگہ لیتی ہیں۔
قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت نے ببانگ دہل ارشاد فرمایا:اے ایمان والوں! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو…..(سورہ توبہ)
اور سچوں سے مراد تقویٰ اختیار کیے ہوئے اہل اللہ و بزرگانِ دین ہیں۔۔
قارئین!یاد رکھیں جوشخص بھی مقبول بندوں کی صحبت میں رہتاہے اگر آتش کدہ میں بھی ہے تو وہ بھی اس کے حق میں باغ ہے،علماء کرام، مشائخ کرام کی صحبت میں رہنے والے کے عقائد میں مضبوطی ہوتی ہے،بزرگوں کی صحبت سے انسان اچھا بنتا ہے اور اس کے اندر اچھائیاں جنم لیتی ہیں نیکیاں پروان چڑھتی اورپنپتی ہیں اور بروں کی صحبت سے انسان برا بنتا ہے اور برائیاں وجود میں آتی ہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ صالح ہم نشین کی مثال عطر فروش کی طرح ہےاگر وہ تم کو ( عطر) نہ بھی دے تب بھی اسکی خوشبو تم کو پہنچ کر رہی گی،اور بُرے ہم نشین کی مثال لوہار کی بھٹی کی طرح ہےاگر اسکی چنگاری تم کو نہ بھی جلائے تب بھی اسکا دھواں تم کو ضرور لگے گا۔۔
چنانچہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہ نے اکابر اور بزرگوں سے تعلق کو فرض عین فرمایا ہے۔۔
قارئین ایک واقعہ آپ کے گوش گزار کرنا از بس ضرور سمجھتا ہوں واقعہ کچھ یوں ہے،سلطان ابراہیم ابنِ ادہم کے طفیل ایک شرابی نے توبہ کی۔ وہ سٹرک پر بےہوش پڑا تھا۔ انہوں نے اس کامنہ دھویا اور قے صاف کی۔ اتنا بڑا سلطان الاولیاء! اور ایک شرابی کی قے دھورہا ہے۔ جب ہوش میں آیا تو وہ پہچان گیا اور کہا کہ حضرت! آپ تارکِ سلطنت ِبلخ ہیں آپ جیسے ولی اللہ مجھ جیسے نالائق کے پاس کیسے آگئے؟فرمایا کہ میں تم کو اس نظر سے دیکھتا ہوں کہ تم میرے اللہ کے بندے ہو، اللہ میرا ولی ہے۔ جس طرح اپنے دوست کے نالائق بچوں سے نفرت نہیں ہوتی بوجہ دوست کی نسبت کے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نسبت سے مجھے تم سے نفرت نہیں۔ دیکھو! میں نے تمہاری قے دھوئی اور تمہارا منہ دھویا۔ اس نے کہا کہ مجھے آپ توبہ کرائیے کیوں کہ میرا گمان یہ تھا کہ اللہ والے گناہ گاروں سے نفرت کرتے ہیں۔ آج معلوم ہوا کہ ان سے بڑھ کر کوئی پیار کرنے والا بھی نہیں ہے۔اسی وقت حضرت سلطان ابراہیم ابنِ ادہم کے ہاتھ پر اس نے توبہ کی۔ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں کہ وہ شخص توبہ کرتے ہی کہ ابھی تہجد نہیں پڑھی، کوئی فرض نماز بھی نہیں پڑھی، تلاوت بھی نہیں کی، آن واحد میں اس زمانے کا بہت بڑا ولی اللہ بن گیا۔ اسی رات میں سلطان ابراہیم ا بنِ ادہم کو خواب میں خدا کی زیارت ہوئی۔آ پ نے پوچھا کہ اے اللہ !آپ نے اس شرابی کو اتنی جلدی کیوں ولی اللہ بنا دیا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ تم نے میری خاطر سلطنت ِبلخ چھوڑی ، میری خاطر سے تم نے میرے ایک گناہ گار بندے سے محبت کی ۔ میری خاطر سے تم نے اس کا منہ دھویا۔۔۔
حضرت داؤد علیہ السلام کی دعا ہے کہ یا اللہ! اگر تو مجھے ذاکرین کی مجلس سے گذر کر غافلین کی مجلس میں جاتا ہوا دیکھے تو میرے پاؤں توڑ دے۔۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جن مجالس میں اللہ تعالیٰ کی یاد ہوتی ہے وہ آسمان والوں کے نزدیک ایسی چمکتی ہیں جیسے کہ زمین والوں کے نزدیک ستارے۔۔
حضرت عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اے مولوی حضرات! اے علماء حضرات!مدرسوں سے نکل کر فوراً مسجد کے منبر پر مت بیٹھو۔ کچھ دن اللہ والوں کی صحبت میں رہ لو۔ اخلاص، احسان حاصل کرو، پھر ان شاء اللہ تعالیٰ! تمہارا منبر ،منبر ہوگا، جب دردِ دل عطا ہوجائے گا تو منبر تمہارا ہوگا۔ اشکبار آنکھوں سے، تڑپتے ہوئے دل سے تمہارا بیان ہوگا۔ ان شاء اللہ! زلزلہ پیدا ہوجائے گا، تڑپوگے اور تڑپاؤگے، لیکن اگر دردِ دل نہ ہوگا تو باتوں میں بھی اثر نہ ہوگا ؎
نہیں جب چوٹ ہی کھائی تو زخمِ دل دکھاؤں کیا
نہیں جب کیف ومستی دل میں تو پھر گنگناؤں کیا
قارئین!اہل اللہ کی صحبت کاادنیٰ فائدہ یہ ہے کہ ان سے تعلق رکھنے والا گناہ پر قائم نہیں رہتا، توفیقِ توبہ ہوجاتی ہے اور شقاوت سعادت سے تبدیل ہوجاتی ہے۔
اہل اللہ کی نظرو توجہ پر ایک عقلی استدلال حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شاہ فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کایہ قول نقل کیا ہے کہ روس میں ایک قاز چڑیا ہے، وہ ہندوستان، پاکستان میں آتی ہے، اور آنے سے پہلے روس کے پہاڑوں میں انڈے دے کر آتی ہے۔پھر یہاں سے اپنی توجہ سے وہ انڈوں کو گرماتی ہے،اور جب واپس جاتی ہے تو دیکھتی ہے کہ اس کی توجہ کی گرمی سے بچے پیدا ہوچکے ہیں۔ حضرت شاہ فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب چڑیوں کی توجہ میں اللہ نے یہ طاقت رکھی ہے ،تو اللہ والوں کی روحوں میں کیا بات ہوگی؟ لہٰذا اہل اللہ کی صحبت میسر نہ ہو تو خط وکتابت سے بھی اصلاح ہوسکتی ہے۔ ان کی توجہ اور دعا میں اللہ نے خاص اثر رکھا ہے۔
ایک بزرگ فرماتے تھےکہ علمِ درسِ نظامی جس نے حاصل کرلیا اس کی مثال اسی کچے قیمہ کے کباب کی سی ہے جس میں کباب کے تمام مسالے اور اجزاء پڑے ہوئے ہیں اور اس کی دستار بندی بھی کردی گئی کہ آج تم شامی کباب ہوگئے لیکن ابھی نہ یہ خود مزہ پائے گا نہ اس کے پاس بیٹھنے والے مزہ پائیں گے جب تک اس کو مجاہدہ کی آگ پر ت َلانہ جائے گا،لہٰذا اب یہ کسی بزرگ کے پاس جائے اور ان کی صحبت میں رہ کر مجاہدہ کرے اور گناہوں سے بچنے کاغم اٹھائےیہاں تک کہ اس مجاہدہ سے اس کادل جل کر کباب ہوجائے،اب اس کے علم کی خوشبو سارے عالم میں پھیل جائے گی۔
قارئین!یاد رکھیں بغیر بزرگوں کی رفاقت ہم حقیقتوں معنوں میں مومن نہیں بن سکتے ہیں اس لیے نیز عہد حاضر میں بزرگوں کی رفاقت از بس ضرور ہے ورنہ ہم شیطان کے چنگل میں آجائیں گے، اس لیے ضرور بالضرور بزرگوں کی رفاقت اختیار کیجئے!

بارِ الہ ہمیں شیطانی فنتہ فساد سے مامون رکھے نیز اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)