تحریر: ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی اصطلاحات کے وضع کرنے، جملے پھینکنے اور رائے دہندگان کو لبھانے کے لیے نت نئی تعبیرات وتدابیر اختیار کرنے میں دنیا کے ممتاز ترین لوگوں میں ہیں، ان کے جملے پھینکنے کی ادا سے لوگ اس قدر مانوس ہو گیے ہیں کہ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ مودی جی قول وعمل کے تضاد کے شکار ہیں، اس لیے ان کی باتوں سے لطف اندوز ہونے میں کوئی بُرائی نہیں ہے ۔
وزیر اعظم نے جو اصطلاح وضع کی ہے ان میں سے ایک مفت کی ریوڑی کی تقسیم بھی ہے ، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اپنی ریاست میں بعض خدمات کو عوام کے لیے فری کر دیا ہے ، بجلی، پانی مفت فراہم کرنے کی مقدار متعین کی ، سرکاری اسکولوں کی تعلیم کو معیاری بنانے کے ساتھ بڑی حد تک فیس وغیرہ سے آزا د کر دیا ، یہی نعرہ انہوں نے گجرات میں دیا، پنجاب میں ان کی حکومت میں بہت ساری سہولتیں دی جارہی ہیں، لیکن یہ بات مودی جی کو پسند نہیں ہے ، ان کا خیال ہے کہ رائے دہندگان کو لبھانے کے لیے یہ مفت کی ریوڑی تقسیم کی جا رہی ہے اور اس کلچر کو فروغ دینے سے حکومت کے اوپر غیر معمولی بوجھ پڑے گا۔
عوام کی سوچ یہ ہے کہ ریاست کو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اسلام کا اصول تو یہ ہے کہ امرا سے زکوٰۃ کی رقم لے کر غرباء پر خرچ کیا جائے، ہمارے وزیر اعظم کا معاملہ الٹا ہے وہ غریبوں سے لے کراسے امراء تک پہونچاتے ہیں، ان کے قرض معاف کر دیتے ہیں، ارب پتیوں کے دس لاکھ کڑوڑ قرضے معاف کر نے کی بات عوام وخواص کے علم میں ہے ، سرکار نے غذائی اجناس کو بھی جی اس ٹی کے دائرہ میں لا دیا ہے، جس کی وجہ سے عام ہندوستانیوں کو پریشانیوں کا سامنا ہے، ایسے میں ایک محدود مقدار میں مفت ضروری سامانوں کی سپلائی کو مفت کی ریوڑی کہہ کر مذاق نہیں اڑایا جا سکتا ۔
عوام تک مفت ضروریات زندگی کی فراہمی کی روایت انتہائی قدیم ہے، سرکاری اسکولوں میں مفت تعلیم، سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج ، ہر ماہ مفت راشن ، مختلف سرکاروں کے ذریعہ آزادی کے بعد سے ہی فراہم کیا جاتا رہا ہے، کیا ان سب کو مفت کی ریوڑی سے تعبیر کیاجا سکتاہے اور کیاایسا کہہ کر عوام اور ان سرکاروں کی توہین نہیں کی جا رہی ہے، جنہوں نے اس اسکیم کو رائج کیا ۔
در اصل مودی جی نے اروند کیجرال کے فری اسکیم کا مذا ق اڑا کر ملکی معیشت کی زبوں حالی کا اقرار کیا ہے ۔ اگنی پتھ اسکیم لا کر فوجیوں کے پنشن سے پہلو تہی کرنا اسی زبوں حالی کا لازمی نتیجہ ہے ۔تازہ اطلاع کے مطابق یہ معاملہ سپریم کورٹ پہونچ گیا او رعدالت نے اس معاملہ پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ انتخابی وعدوں پر پابندی نہیں لگا سکتی، اس سے کیجریوال کو تھوڑی راحت ضرور ملی ہے، لیکن اس سے سیاسی پارٹیوں کے جھوٹے وعدے کرنے کا ایک مقابلاتی دوڑ شروع ہو گیا ہے، جو پہلے بھی کم نہیں تھا۔