خود احتسابی کامیابی کا زینہ ہے!

ازقلم: احمد حسین مظاہری

فی الوقت مسلمان جن کٹھن اور صبر آزما حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی باشعور اور حساس انسان سے پوشیدہ نہیں ہے۔۔
لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ فقط مسلمانوں کے ہمراہ اس طرح سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟
کیوں فقط مسلمانوں کو کسک پہنچائی جارہی ہے،کیوں ان کو نشانہ ستم بنایا جارہا ہے۔؟
ہمیں سنجیدگی کے ساتھ مذکورہ بالا باتوں کو موضوعِ بحث بناناچاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ صرف مسلمانوں کے ہمراہ……………
آیئے! کچھ چیزوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اول الذکر آج خالق مخلوق سے ناراض و ناخوش ہے،جس کی مکافات میں ہرگز تے دن کے ساتھ کوئی نہ کوئی مصیبت،تکلیف،کڑی مشکل،رنج،دکھ،تکلیف،سختی،کشٹ،آفت،بلا،عذاب،حادثہ،صدمہ،دِقت،مشکل،دُشواری،وبال،جنجال،نہایت ہی تکلیف دہ صورتحال درپیش ہے۔
آج ہم خود اپنے آپ کو ٹٹولے؛ کہ نہ جانے میری ذات سے کتنے لوگوں کی دل شکنی ہوئی ہے لیکن حیف! کہ ہم نے کبھی کسی سے معافی نہیں مانگی۔
آج ہماری زبان سے ایسی ایسی بات نکلتی ہے جو لوگوں کے قلوب کو مجروح کردیتی ہے،آج ہم دوسروں کی عیب جوئی، نکتہ چینی کرنے میں مست ہیں!
ہم دوسروں کی عبادت،اخلاق، کردار، روش، سیرت پر انگشت نمائی کرتے ہیں لیکن کف افسوس ہم نے کبھی اپنا محاسبہ نہیں کیا!
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا روز مرہ کا ایک جدول بنا کر اس کے مطابق اپنا محاسبہ کیا کریں تا کہ خود احتسابی کے عادی ہو سکیں۔
کیا کبھی ہم نے تدبر کیا کہ ہماری خصلت کیسی ہے؟ ہماری باتوں سے کسی کی دل شکنی تو نہیں ہورہی ہے؟

قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت نے ببانگِ دہل اعلان کیا: اے ایمان والو! اللہ تعالٰی سے ڈرو ہر شخص کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کل (قیامت) کے لئے کیا بھیجتا ہے اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔

حدیث میں ہے: دانا اور عقلمند وہ شخص ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور نادان وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرے اور اللہ سے غلط آرزوئیں وابستہ رکھے۔(ترمذی)
یاد رکھیں! خود احتسابی اور محاسبہ نفس ایک انتہائی محمود اور مرغوب خصلت اور عادت ہے، خود احتسابی کی عادت انسان کو بہت فائدہ پہنچا تی ہے، اس سے ایک انسان اپنے اندر پیدا ہونے والے مثبت یامنفی رجحانات پتہ لگا سکتا ہے……
خود احتسابی دنیا کا مشکل ترین عمل ہے؛ کیوں کہ یہ انسان کو اس کی حقیقی اور سچی تصویر دکھاتا ہے بادیگر الفاظ اسے اس کے بھیانک روپ سے متعارف کراتا ہے اور اس کی سستی اور کاہلی و تغافل و تساہل اور آرام طلبی سے اسے روشناس کراتاہے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حساب لیے جانے سے پہلے پہلے اپنا حساب کر لو، کیوں کہ جس شخص نے دنیا میں اپنا محاسبہ کر لیا، روزِ قیامت اس کا حساب آسان لیا جائے گا۔
آج کے اس پر آشوب و پرفتن تلاطم خیز قحط الرجال کے دور میں انسان کے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ کہ ایمان کی مضبوطی کے ساتھ عمل صالح پر توجہ اور دھیان دے اور اپنے آپ کا،اپنے نفس کا اور اپنے اعمال و کردار کا محاسبہ کرتا رہے۔۔
یہ بات بھی گوش گزار کر دوں کہ ہمارا مذہب اسلام ہمیں خود احتسابی کا درس دیتا ہے،اس کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدۂ آخرت بھی ہے،جس کا دوسرا نام ہم خود احتسابی کا عقیدہ بھی رکھ سکتے ہیں۔اس عقیدے کا ماحصل یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال پر نظر رکھیں، گاہے بہ گاہے ان کا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ کہیں ہم اپنے خالق کی مرضی کے خلاف تو نہیں چل رہے؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں فوراً توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرنا ہوگا، ورنہ آخرت میں ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے۔۔۔
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا
عقل مند اور دانا وہ شخص ہے جو اپنے نفس کا خیال رکھے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے، اور ناداں و بیوقوف ہے وہ شخص جو اپنی خواہش نفس کی اتباع کرے اور اللہ سے آرزو وابستہ رکھے۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ہمارے اسلاف و اکابر کی زندگیوں میں یہ صفت کماحقہ پائی جاتی تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے شب و روز کا محاسبہ کرتے تھے۔
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم خلوت میں بیٹھ کر اپنے اعمال و افعال کا جائزہ لیں، یومیہ کاموں کا محاسبہ کریں۔
بارِ الہ ہمیں اپنے محاسبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)