تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس اس ملک کی سب سے بڑی پرانی سیاسی پارٹی ہے ، اس نے اپنے وجود کے ایک سو چوتیس پینتیس سال پورے کر لئے ، ان سوسوا سو برسوں میں اس نے بہت سے نشیب وفراز دیکھے، لیکن بحیثیت سیاسی پارٹی کے اس کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا، ماضی میں اسے تین چار بار تقسیم کے عمل سے بھی گذرنا پڑا، آزادی کے قبل بھی اور آزادی کے بعد بھی ، لیکن ان میں سے بیشتر پھر اس کے سایہ کے نیچے آگیے۔
آج اسے ایک بار پھر شناخت کا مسئلہ در پیش ہے اور اسی مسئلہ کی وجہ سے اس کا استحکام متزلزل ہو رہا ہے ، اور اس صورت حال کے لئے وہ لوگ ذمہ دار ہیں جو کانگریس کے طے شدہ نظریات پر مکمل یقین اور اعتماد نہیں رکھتے، اپنے بے تکے بیانات سے پارٹی کی ساکھ کو کمزور کرتے رہے ہیں، ششی دھرور اس معاملہ میں دو چار قدم آگے ہی ہیں یعنی کانگریسیوں کے اندر باہمی تال میل کے فقدان سے پارٹی کو نقصان پہونچ رہا ہے ، اور شاید یہی وجہ ہے کہ مرکز سمیت متعدد ریاستوں میں وہ اقتدر سے محروم ہوئی ، وہ مضبوط قلعے بھی منہدم ہو گئے ، جہاں عرصہ تک ان کی حکومت تھی ، اس کی بنیادی وجہ پارٹی کا اندرونی خلفشار اور انتشار ہے جو فکری بھی ہے اور عملی بھی، اس کے لئے سب سے پہلے پارٹی اپنے قول وعمل کا محاسبہ کرے ۔ اپنی بنی ہوئی عوامی حمایت اور کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرے ، مسلمانوں کو اعتمادمیں لے کر اپنا سیکولر چہرہ سامنے لائے ، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات کے بعد وہ شکست خوردگی کی چادر اوڑھ کر سوتی جا رہی ہے ، الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے ، راہل گاندھی کا کانگریس کی صدارت سے راہ فرار اختیار کرلینا گویا میدان چھوڑ کر بھا گنا اور پارٹی کو بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑنا ہے، شکست سے زیادہ شکست خوردگی کا احساس جان لیوا ہوتا ہے، اور ملک جن نظریاتی جنگ سے گذر رہا ہے ، ان حالات میں اگر اس نے اپنی موثر قیادت اور اپوزیشن کا رول نہیں نبھایا تو آنے والے دنوں میں ملک کے جمہوری ڈھانچوں کے تانے باتے بکھرنے شروع جا ئیں گے پھر پارٹی کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔