ہندوستان ایسا ملک ھے جس میں جمہوریت نافذ ہے ، یہاں آئین کو بالا دستی حاصل ہے ، ملک کا آئین ہر شہری کو حق دیتا ھے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرے ، اپنے بچوں کے لئے تعلیمی ادارے قائم کرے ، اور اس چلائے ، ملک کی حکومتوں نے بھی آئین کی پاسداری کی ، اور ہر مذہب اور طبقہ کے لوگ اپنے ادارے قائم کرتے رہے اور چلاتے رہے ،
ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ غربت ہے ، ان میں سے جو مالدار ہیں وہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھاتے ہیں ، مگر اکثریت کے پاس اتنی صلاحیت نہیں کہ اپنے بچوں کو بڑے اداروں میں تعلیم کے لئے بھیج سکیں ، مسلم سماج میں قبل سے مدارس اور مکاتب کا نظام چلا آرہا ھے ،جس میں کم خرچ میں تعلیم کا انتظام ہو جاتا ھے ، بلکہ مدارس کی جانب سے فری قیام ،طعام اور جملہ لوازمات کا انتظام کیا جاتا ہے ، اس طرح مدارس و مکاتب کا مسلمانوں میں تعلیم عام کرنے اور شرح خواندگی بڑھانے میں اہم کردار رہا ھے اور آج بھی ھے ، اس لئے مسلمانوں کے درمیان مدارس میں تعلیم دلانے کا رواج زیادہ ھے ، برادران وطن میں بھی پاٹھ شالے وغیرہ کا انتظام ہے ، ہر زمانہ میں حکومت مدارس و مکاتب کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ھے ، مگر موجودہ وقت میں بعض اسٹیٹ میں مدارس کے ساتھ اچھا رویہ اختیار نہیں کیا جارہا ھے ، جو افسوسناک ہے ، جبکہ ملک کا آئین اپنے پسند کا ادارہ قائم کرنے اور چلانے کی اجازت دیتا ھے
موجودہ وقت میں مدارس کے ساتھ حکومت کا جو رویہ ھے ،اس سے مسلم سماج میں مایوسی اور تشویش پائی جارہی ھے ، مگر مایوسی سے باہر نکل کر ملک کے آئین اور حکومت کے نوٹیفیکیشن / ایکٹ کا مطالعہ کرنا چاہئے ، ملک کا آئین اور ایکٹ مدارس کو چلانے کی اجازت دیتا ہے ، ملک کا آئین تو موجود ھے ،اس کا مطالعہ کیا جائے البتہ نوٹیفیکیشن / ایکٹ کے سلسلہ میں کچھ باتیں تحریر ہیں مرکزی حکومت کی جانب سے تعلیم کے سلسلہ میں دو نوٹیفیکیشن / ایکٹ جاری کئے گئے ہیں ، ایک رائٹ ٹو ایجوکیشن اور دوسرا نئی تعلیمی پالیسی ، پہلے نوٹیفیکیشن رائٹ ٹو ایجوکیشن میں مدارس کو شامل کیا گیا تھا ، مگر اس میں درج قوانین اقلیت کو دیئے گئے حقوق سے متصادم تھے ، اس لئے اس کے خلاف ملی قائدین اور اکابر علماء نے مرکزی وزیر تعلیم سے ملاقات کی اور میمورنڈم دیا ، تو باضابطہ ترمیم بل لاکر مدارس کو مستثنی قرار دیا گیا , اس میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے سابق جنرل سیکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی رح کا اہم رول رہا ، جہانتک دوسرے نوٹیفیکیشن کی بات ھے تو نئی تعلیمی پالیسی میں بھی روایتی اقلیتی اداروں کے سلسلہ میں کو بات نہیں ، مدارس پہلے سے مستثنی ہیں ، نئی تعلیمی پالیسی نے رائٹ ٹو ایجوکیشن کو برقرار رکھا ھے ، اس لئے نئی تعلیمی پالیسی سے بھی مدارس مستثنی ہیں ، حکومت تو مدارس کو چلانے کی اجازت دیتی ھے ، اگر کہیں کچھ دشواری آئی ھے تو اس کے لئے قانون موجود ھے ،قانون کا سہارا لے کر اس کو دفع کرنے کی ضرورت ھے ، موجودہ خراب وقت میں ہمارے بعض دانشور قانون کی روشنی میں بات کرنے کے بجائے اس سے ہٹ کر مدارس کے سلسلہ میں غیر ضروری باتیں کہنے لگے ہیں ، جو مناسب نہیں ھے ، یہی نہیں ،بلکہ مدارس کے مالیات پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی گئی ھے کہ مدارس کا بجٹ سرکار کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے ، حالانکہ مدارس کا مقابلہ سرکار سے کرنا کسی طرح مناسب نہیں ھے ، سرکاری اسکولوں میں صرف تعلیم کا انتظام ہوتا ھے ، اس کے برعکس مدارس میں قیام ،طعام ،رہائش ،کتاب ہر چیز کی کفالت کی جاتی ھے ، اس لئے اس کا بجٹ کسی اسٹیٹ میں زیادہ ھوتا ھے تو تعجب کی کیا بات ھے ؟ ، حکومت کی تعلیمی پالیسی کا بڑا حصہ یہ ھے کہ تعلیم عام ہو ، مدارس اس سلسلہ میں حکومت کے لئے مددگار ہے ، مدارس نے مسلم طبقہ میں تعلیم کو خوب پھیلایا ھے ، اچھا شہری بنانے میں مدارس کا اہم کردار ھے ، ملک کے دانشوروں نے اس کو تسلیم کیا ھے کہ مدارس نے ایک طبقہ میں تعلیم کو عام کرنے میں حکومت کی مدد کی ھے ، مدارس کے نظام کو بہت سے اسٹیٹ میں نمونہ بنایا گیا ھے ، اقلیتی اسکول اور ہاسٹل قائم کئے جا رہے ہیں ، میڈ ڈے میل کا انتظام کیا جارہا ھے، یہ مدارس ہی کی رہنمائی ھے ، ملک کے اکثر مدارس رجسٹرڈ ہیں ، ان کا مکمل حساب موجود رھتا ھے، منتظمین آڈٹ رپورٹ تیار رکھتے ہیں ، ہوسکتا ھے کہ ان میں سے کچھ ایسے بھی ھوں ،جن کا حساب نہ ھو ، مگر اس کی وجہ سے اس پر سوالیہ نشان لگانا غلط ھے ، موجودہ وقت میں اس کی ضرورت ہے کہ اہل مدارس ملک کے آئین اور ضابطہ کے مطابق اپنے مدارس کو چلائیں ، تاکہ فتنوں سے حفاظت ہوسکے ، اللہ تعالی ہر قسم کے شر اور فتنہ سے حفاظت فرمائے۔
ازقلم: (مولانا ڈاکٹر) ابوالکلام قاسمی شمسی